مخصوص نشتیں ، مسلم لیگ ن ‘ پی پی ، الیکشن کمشن کی نظرثانی درخواستیں مسترد
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اختلافی نوٹ جاری کر دیا ہے، جس میں انہوں نے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور الیکشن کمشن کی نظرثانی درخواستیں مسترد کرنے کا فیصلہ دیا ہے۔ اختلافی نوٹ کے مطابق تینوں نظرثانی درخواستیں 9 جولائی 2024ء کے مختصر فیصلے کے خلاف دائر کی گئیں جبکہ صرف الیکشن کمشن نے 23 ستمبر 2024ء کے تفصیلی فیصلے کی بنیاد پر اضافی درخواستیں جمع کرائیں۔ دونوں ججز نے قرار دیا کہ تمام قانونی نکات اور دلائل تفصیلی فیصلے میں پہلے ہی نمٹا دئیے گئے تھے، تاہم وکلاء نے مقدمہ دوبارہ کھولنے کی کوشش کی، جو قانون کے دائرہ کار میں ممکن نہیں کیونکہ نظرثانی اپیل نہیں ہوتی اور اس کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ صرف وہ فیصلے نظرثانی کے قابل ہوتے ہیں جن میں واضح قانونی غلطی ہو، معمولی بے ضابطگی یا اختلافِ رائے نظرثانی کی بنیاد نہیں بن سکتے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے حتمی اور مکمل غور و فکر کے بعد دئیے جاتے ہیں۔ اس لیے نظرثانی کو معمول کی کارروائی نہیں بنایا جا سکتا۔ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی کے مطابق اکثر نظرثانی درخواستیں محض عدم اطمینان کی بنیاد پر دائر کی جاتی ہیں اور موجودہ درخواستیں بھی اسی نوعیت کی ہیں جن میں کوئی مضبوط قانونی جواز پیش نہیں کیا گیا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے تفصیلی فیصلے پر کوئی مخصوص اعتراض نہیں اٹھایا بلکہ صرف مختصر فیصلے کو چیلنج کیا، حالانکہ یہ درخواستیں 13 جولائی کو دائر کی گئیں جب تفصیلی فیصلہ ابھی جاری نہیں ہوا تھا۔ طویل وقفے کے باوجود کوئی نیا مؤقف یا قانونی بنیاد پیش نہیں کی گئی۔ دونوں ججز نے اختلافی نوٹ میں بنچ کی تشکیل پر بھی شدید تحفظات ظاہر کیے اور اسے عدالتی اصولوں کے منافی قرار دیا۔ ان کے مطابق جب اصل مقدمہ 13 رکنی بنچ نے سنا تھا تو موجودہ بنچ میں ان میں سے 5 ججز شامل نہیں، جن میں فیصلے کے مصنف جج بھی شامل تھے۔ بنچ کی یہ تبدیلی آئین کے آرٹیکل 191A کے تحت کی گئی، جو 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے شامل کیا گیا تھا۔ ترمیم کے بعد جوڈیشل کمشن آف پاکستان آئینی بنچ کے ججز نامزد کرتا ہے اور اس میں سینٹ و قومی اسمبلی کے ارکان بھی شامل کیے گئے، جس کے نتیجے میں کمشن میں حکومت اور سیاسی جماعتوں کی اکثریت پیدا ہو گئی۔ اختلافی نوٹ کے مطابق یہ سیاسی اکثریت عدلیہ کی غیر جانبداری اور شفافیت پر سوال اٹھاتی ہے، کیونکہ موجودہ بنچ بظاہر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اکثریت کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا، جو عدلیہ کی آزادی کے اصول کے منافی ہے۔ آئین کے تحت جوڈیشل کمشن اور اس کی کمیٹی کا فرض ہے کہ وہ غیر جانبدار بنچ تشکیل دیں اور عدالتی بنچز کا قیام آئینی تقاضوں اور شفافیت کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر بنچ کی تشکیل پر شفافیت پر سوال اٹھے تو پورا عدالتی عمل مشکوک ہو جاتا ہے، جو عوامی اعتماد اور نظام عدل کے توازن کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
حماس کے فیصلے کا خیر مقدم، مسلم وزرائے خارجہ کا واضح پیغام
اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکیہ، سعودی عرب، قطر اور مصر کے وزرائے خارجہ نے غزہ میں جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے جاری سفارتی کوششوں پر مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔
حماس کے مثبت ردِعمل کا خیر مقدمدفترِ خارجہ سے جاری اعلامیے کے مطابق وزرائے خارجہ نے حماس کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کی تجویز پر مثبت ردعمل کو سراہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:عرب و مسلم ممالک کا حماس کے امن منصوبہ قبول کرنے کے اعلان کا خیر مقدم
پائیدار جنگ بندی کا موقعبیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام غزہ میں جامع اور پائیدار جنگ بندی کے لیے ایک حقیقی موقع فراہم کرتا ہے اور انسانی بحران کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
اسرائیل کو بمباری روکنے کی اپیلاعلامیے میں صدر ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کو بمباری روکنے اور تبادلے کے معاہدے پر عمل شروع کرنے کی اپیل کا بھی خیر مقدم کیا گیا۔
وزرائے خارجہ نے امریکی صدر کی علاقائی امن کے قیام کی کوششوں کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ اس عمل سے غزہ میں صورتحال بہتر ہوگی۔
حماس کی نئی انتظامی تجویز کی حمایتوزرائے خارجہ نے حماس کی اس پیشکش کی بھی تائید کی جس کے تحت تنظیم نے غزہ کی انتظامیہ آزاد ماہرین پر مشتمل ایک عبوری فلسطینی انتظامی کمیٹی کے حوالے کرنے کی آمادگی ظاہر کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ امن فارمولا : کون کہاں کھڑا ہے؟
عمل درآمد کے طریقہ کار پر مذاکرات کی ضرورتمشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین کو فوری طور پر مذاکرات شروع کرنے چاہییں تاکہ تجویز کے تمام پہلوؤں پر عمل درآمد کے طریقہ کار طے کیے جا سکیں۔
غزہ کی تعمیرِ نو اور فلسطینی اتحاد پر زوروزرائے خارجہ نے اعادہ کیا کہ وہ غزہ میں جنگ کے فوری خاتمے، انسانی امداد کی بلا تعطل فراہمی، فلسطینیوں کی بے دخلی کی روک تھام، یرغمالیوں کی رہائی، فلسطینی اتھارٹی کی غزہ میں واپسی، غزہ اور مغربی کنارے کے اتحاد، مکمل اسرائیلی انخلا اور غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھیں گے۔
اعلامیے میں دوٹوک الفاظ میں کہا گیا ہے کہ یہ تمام اقدامات 2 ریاستی حل کے ذریعے ایک منصفانہ اور پائیدار امن کے قیام کا راستہ ہموار کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اسلامی وزرائے خارجہ اعلامیہ حماس صدر ٹرمپ غزہ فلسطین