غزہ جنگ کے 2 سال: امریکا کی جانب سے اسرائیل کو 21.7 ارب ڈالر کی فوجی امداد کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
امریکا نے غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیل کو کم از کم 21.7 ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی ہے۔ یہ انکشاف ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا ہے جو منگل کے روز 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کی دوسری برسی کے موقع پر جاری کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ جنگ بندی کے لیے حماس نے بعض نکات قبول کرلیے، 90فیصد معاملات طے : امریکی وزیرخارجہ
عرب نیوز کے مطابق براؤن یونیورسٹی کے واٹسن اسکول آف انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز کے تحت جاری کیے گئے ’کاسٹس آف وار پراجیکٹ‘ کی ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا نے گزشتہ دو برسوں کے دوران مشرقِ وسطیٰ میں سیکیورٹی امداد اور عسکری کارروائیوں پر قریباً 10 ارب ڈالر اضافی خرچ کیے ہیں۔
یہ رپورٹس زیادہ تر اوپن سورس معلومات پر مبنی ہیں، تاہم ان میں اسرائیل کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد اور خطے میں امریکا کی براہِ راست عسکری مداخلت پر آنے والے تخمینہ شدہ اخراجات کا جامع تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیل کو دی جانے والی فوجی امداد کی درست رقم پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، جبکہ وائٹ ہاؤس نے اس حوالے سے تمام سوالات پینٹاگون کی جانب موڑ دیے، جو صرف امداد کے ایک حصے کی نگرانی کرتا ہے۔
یہ رپورٹس ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر رہے ہیں۔ مصر میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے دوران حماس نے امریکا کے مجوزہ امن منصوبے کے چند نکات تسلیم کر لیے ہیں، جن کی اسرائیل نے بھی حمایت کی ہے۔
تحقیقات میں کہا گیا ہے کہ امریکی امداد کے بغیر اسرائیل کے لیے غزہ میں حماس کے خلاف اپنی بھرپور فوجی مہم کو جاری رکھنا ممکن نہ ہوتا۔
رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مختلف دوطرفہ معاہدوں کے تحت اسرائیل کے لیے مستقبل میں درجنوں ارب ڈالر کی اضافی امداد مختص کیے جانے کا امکان ہے۔
مرکزی رپورٹ کے مطابق جنگ کے پہلے سال جب ڈیموکریٹ صدر جو بائیڈن اقتدار میں تھے، امریکا نے اسرائیل کو 17.
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس امداد کا کچھ حصہ پہلے ہی ادا کیا جا چکا ہے، جب کہ باقی رقم آئندہ برسوں میں فراہم کی جائے گی۔
یہ رپورٹ واشنگٹن میں قائم ’کوئنسی انسٹیٹیوٹ فار ریسپانسبل اسٹیٹ کرافٹ‘ کے تعاون سے تیار کی گئی ہے۔ بعض اسرائیل نواز گروپس نے ادارے پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ’تنہائی پسندی‘ اور ’اسرائیل مخالف‘ مؤقف رکھتا ہے، تاہم ادارے نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ جنگ بندی منصوبہ: ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو جواب کے لیے 4 روز کا وقت دے دیا
ایک دوسری رپورٹ کے مطابق امریکا نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی وسیع عسکری سرگرمیوں جیسے یمن میں حوثی باغیوں اور ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں پر 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 9.65 ارب سے 12 ارب ڈالر تک خرچ کیے ہیں۔ اس میں ایران پر جون میں کیے گئے حملوں اور ان سے وابستہ اخراجات کے لیے 2 سے 2.25 ارب ڈالر کی رقم بھی شامل ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسرائیل امریکا امریکی صدر حماس ڈونلڈ ٹرمپ غزہ امن معاہدہ غزہ جنگ فوجی امداد وی نیوزذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ امن معاہدہ فوجی امداد وی نیوز ارب ڈالر کی اسرائیل کو فوجی امداد امریکا نے گیا ہے کہ جنگ کے کے لیے
پڑھیں:
اسرائیل کے مقابلے میں اقوام عالم کی بے بسی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251006-03-4
متین فکری
اقوام متحدہ پوری دنیا میں آباد قوموں اور ملکوں کا نمائندہ ادارہ ہے اس ادارے کا مقصد دنیا میں امن قائم کرنا اور قوموں کے درمیان تنازعات کو خوش اسلوبی سے طے کرانا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس سلسلے میں اپنی افادیت ثابت کی ہے اور عالمی امن کے قیام میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہوا ہے جب امریکا نے بھی اس کا ساتھ دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ارکان امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کو ویٹو کے اختیارات حاصل ہیں یعنی سلامتی کونسل اگر اپنے مستقل اور غیر مستقل ارکان کی کثرت رائے سے کوئی قرار داد منظور بھی کرلے تو کوئی مستقل رکن اسے ویٹو کرنے یعنی مسترد کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس کے ویٹو کرنے سے وہ قرار داد غیر موثر ہوجاتی ہے اور سلامتی کونسل کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔ بصورت دیگر وہ کسی علاقے میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کی امن فوج بھیجنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ اقوام متحدہ کی کوئی مستقل امن فوج نہیں ہے وہ مختلف ملکوں سے فوجی دستے طلب کرتی اور انہیں ’’امن فوج‘‘ کے نام سے متنازع علاقے میں تعینات کرکے امن قائم کرتی ہے۔ اس حوالے سے اس کی کارکردگی قابل تعریف رہی ہے۔ پاکستان نے بھی اقوام متحدہ کی امن فوج میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور پاکستان کے فوجی دستوں کی کارکردگی کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار سب سے زیادہ امریکا نے استعمال کیا ہے۔ غزہ میں 2 سال سے اسرائیلی جارحیت جاری ہے وہ غزہ میں ہزاروں مردوں، عورتوں، بچوں اور خاص طور پر شیرخوار بچوں کو شہید کرچکا ہے، اگرچہ شہدا کی تعداد 68 ہزار بتائی جاتی ہے لیکن عینی شاہدین کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اسرائیلی بمباری سے زخمی اور معذور ہونے والے فلسطینیوں کا بھی کوئی شمار نہیں۔ اسرائیل نے پورے غزہ کو کھنڈر بنادیا ہے، یہ حالات اس بات کا تقاضا کررہے تھے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی عمل میں لائی جائے، چنانچہ سلامتی کونسل میں بار بار جنگ بندی کی قرار داد پیش ہوئی اور امریکا نے ہر بار اسے ویٹو کردیا۔ اس طرح اس نے ببانگ ِ دہل اعلان کیا کہ وہ جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے لیکن حیرت ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا علمبردار قرار دیتے ہوئے اسے امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔
خود ٹرمپ کی منافقت کا یہ حال ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارے پر الزام لگایا ہے کہ وہ دنیا میں جنگ روکنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ حالانکہ اس کی ناکامی میں امریکا کا بڑا ہاتھ ہے اس نے عالمی ادارے کو اپنے ویٹو کے ذریعے یرغمال بنا رکھا ہے، اب ٹرمپ نے غزہ کے لیے جس امن منصوبے کا اعلان کیا ہے اس کا مقصد جنگ کا خاتمہ نہیں بلکہ فلسطینیوں کو اسرائیل کا غلام بنانا اور حماس کی مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔ اسرائیل اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود حماس کو ختم کرنے میں ناکام رہا اب وہ امریکی امن منصوبے کی آڑ میں یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تمام عرب ملکوں نے اس منصوبے کی حمایت کردی ہے، اس طرح حماس کی قیادت اگر اپنی مزاحمت جاری رکھنے کے لیے کسی عرب ملک میں پناہ لینا چاہے تو اسے پناہ نہیں ملے گی۔ حماس نے فی الحال امریکی منصوبے پر مشروط آمادگی ظاہر کرتے ہوئے مزاحمت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ عرب حکمرانوں کے ذریعے اسے ٹھکانے لگادے گا۔ پاکستان کی حکمران قیادت بھی امریکی منصوبے کی پرجوش حامی ہے۔ امریکی منصوبے میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو بھی نظر انداز کردیا گیا ہے کیونکہ اسرائیل کسی فلسطینی ریاست کے حق میں نہیں ہے۔ امریکی منصوبے کا واحد مقصد غزہ پر اسرائیل کی بالادستی قائم کرنا ہے۔
اب آتے ہیں صمود فلوٹیلا کی طرف۔ یہ امدادی بحری بیڑہ جو غزہ کا غیر قانونی اور غیر انسانی محاصرہ توڑنے کے لیے بین الاقوامی سول سوسائٹی کے زیر اہتمام روانہ ہوا تھا اگرچہ طویل سمندری سفر کرنے کے بعد اپنی منزل پر پہنچ گیا ہے لیکن اسرائیلی فوجوں نے اس کا محاصرہ کرکے اس میں موجود تمام رضا کاروں کو حراست میں لے لیا ہے، اس بحری بیڑے میں امدادی سامان سے بھری ہوئی پچاس کشتیاں ہیں جو چوالیس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم ملکوں کی نمائندگی کررہی ہیں۔ ان میں پاکستان سے ہمارے سابق سینیٹر مشتاق احمد صاحب بھی شامل ہیں، جو ہمیں انٹرنیٹ کے ذریعے اس سفر سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ کرتے رہے۔ صمود فلوٹیلا کئی مرتبہ طوفان میں گھرا لیکن اس نے سفر جاری رکھا، بالآخر اپنی منزل تک پہنچ گیا، پھر اسرائیلی فوجوں نے دھاوا بول دیا اور سب کو پکڑ کر لے گئی۔ اس پر پوری دنیا میں احتجاج ہورہا ہے۔ جماعت اسلامی نے پاکستان میں احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کیا ہے لیکن اسرائیل وہ بے غیرت ملک ہے جو عالمی احتجاج کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ اس نے اقوام عالم کو اپنے آگے بے بس بنا رکھا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فساد کی اصل جڑ امریکا ہے، اسرائیل امریکا کے کھونٹے پر ناچ رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایران نے امریکا کو ’’شیطان کبیر‘‘ قرار دیا ہے۔ جب تک ’’شیطان کبیر‘‘ کا بندوبست نہیں ہوتا یہ دنیا اسی طرح فسادات سے بھڑکتی رہے گی۔