Jasarat News:
2025-11-20@08:25:09 GMT

اسرائیل کے مقابلے میں اقوام عالم کی بے بسی

اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251006-03-4

 

متین فکری

اقوام متحدہ پوری دنیا میں آباد قوموں اور ملکوں کا نمائندہ ادارہ ہے اس ادارے کا مقصد دنیا میں امن قائم کرنا اور قوموں کے درمیان تنازعات کو خوش اسلوبی سے طے کرانا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس سلسلے میں اپنی افادیت ثابت کی ہے اور عالمی امن کے قیام میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہوا ہے جب امریکا نے بھی اس کا ساتھ دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ارکان امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کو ویٹو کے اختیارات حاصل ہیں یعنی سلامتی کونسل اگر اپنے مستقل اور غیر مستقل ارکان کی کثرت رائے سے کوئی قرار داد منظور بھی کرلے تو کوئی مستقل رکن اسے ویٹو کرنے یعنی مسترد کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس کے ویٹو کرنے سے وہ قرار داد غیر موثر ہوجاتی ہے اور سلامتی کونسل کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔ بصورت دیگر وہ کسی علاقے میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کی امن فوج بھیجنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ اقوام متحدہ کی کوئی مستقل امن فوج نہیں ہے وہ مختلف ملکوں سے فوجی دستے طلب کرتی اور انہیں ’’امن فوج‘‘ کے نام سے متنازع علاقے میں تعینات کرکے امن قائم کرتی ہے۔ اس حوالے سے اس کی کارکردگی قابل تعریف رہی ہے۔ پاکستان نے بھی اقوام متحدہ کی امن فوج میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور پاکستان کے فوجی دستوں کی کارکردگی کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار سب سے زیادہ امریکا نے استعمال کیا ہے۔ غزہ میں 2 سال سے اسرائیلی جارحیت جاری ہے وہ غزہ میں ہزاروں مردوں، عورتوں، بچوں اور خاص طور پر شیرخوار بچوں کو شہید کرچکا ہے، اگرچہ شہدا کی تعداد 68 ہزار بتائی جاتی ہے لیکن عینی شاہدین کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اسرائیلی بمباری سے زخمی اور معذور ہونے والے فلسطینیوں کا بھی کوئی شمار نہیں۔ اسرائیل نے پورے غزہ کو کھنڈر بنادیا ہے، یہ حالات اس بات کا تقاضا کررہے تھے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی عمل میں لائی جائے، چنانچہ سلامتی کونسل میں بار بار جنگ بندی کی قرار داد پیش ہوئی اور امریکا نے ہر بار اسے ویٹو کردیا۔ اس طرح اس نے ببانگ ِ دہل اعلان کیا کہ وہ جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے لیکن حیرت ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا علمبردار قرار دیتے ہوئے اسے امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔

خود ٹرمپ کی منافقت کا یہ حال ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارے پر الزام لگایا ہے کہ وہ دنیا میں جنگ روکنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ حالانکہ اس کی ناکامی میں امریکا کا بڑا ہاتھ ہے اس نے عالمی ادارے کو اپنے ویٹو کے ذریعے یرغمال بنا رکھا ہے، اب ٹرمپ نے غزہ کے لیے جس امن منصوبے کا اعلان کیا ہے اس کا مقصد جنگ کا خاتمہ نہیں بلکہ فلسطینیوں کو اسرائیل کا غلام بنانا اور حماس کی مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔ اسرائیل اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود حماس کو ختم کرنے میں ناکام رہا اب وہ امریکی امن منصوبے کی آڑ میں یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تمام عرب ملکوں نے اس منصوبے کی حمایت کردی ہے، اس طرح حماس کی قیادت اگر اپنی مزاحمت جاری رکھنے کے لیے کسی عرب ملک میں پناہ لینا چاہے تو اسے پناہ نہیں ملے گی۔ حماس نے فی الحال امریکی منصوبے پر مشروط آمادگی ظاہر کرتے ہوئے مزاحمت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ عرب حکمرانوں کے ذریعے اسے ٹھکانے لگادے گا۔ پاکستان کی حکمران قیادت بھی امریکی منصوبے کی پرجوش حامی ہے۔ امریکی منصوبے میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو بھی نظر انداز کردیا گیا ہے کیونکہ اسرائیل کسی فلسطینی ریاست کے حق میں نہیں ہے۔ امریکی منصوبے کا واحد مقصد غزہ پر اسرائیل کی بالادستی قائم کرنا ہے۔

اب آتے ہیں صمود فلوٹیلا کی طرف۔ یہ امدادی بحری بیڑہ جو غزہ کا غیر قانونی اور غیر انسانی محاصرہ توڑنے کے لیے بین الاقوامی سول سوسائٹی کے زیر اہتمام روانہ ہوا تھا اگرچہ طویل سمندری سفر کرنے کے بعد اپنی منزل پر پہنچ گیا ہے لیکن اسرائیلی فوجوں نے اس کا محاصرہ کرکے اس میں موجود تمام رضا کاروں کو حراست میں لے لیا ہے، اس بحری بیڑے میں امدادی سامان سے بھری ہوئی پچاس کشتیاں ہیں جو چوالیس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم ملکوں کی نمائندگی کررہی ہیں۔ ان میں پاکستان سے ہمارے سابق سینیٹر مشتاق احمد صاحب بھی شامل ہیں، جو ہمیں انٹرنیٹ کے ذریعے اس سفر سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ کرتے رہے۔ صمود فلوٹیلا کئی مرتبہ طوفان میں گھرا لیکن اس نے سفر جاری رکھا، بالآخر اپنی منزل تک پہنچ گیا، پھر اسرائیلی فوجوں نے دھاوا بول دیا اور سب کو پکڑ کر لے گئی۔ اس پر پوری دنیا میں احتجاج ہورہا ہے۔ جماعت اسلامی نے پاکستان میں احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کیا ہے لیکن اسرائیل وہ بے غیرت ملک ہے جو عالمی احتجاج کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ اس نے اقوام عالم کو اپنے آگے بے بس بنا رکھا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فساد کی اصل جڑ امریکا ہے، اسرائیل امریکا کے کھونٹے پر ناچ رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایران نے امریکا کو ’’شیطان کبیر‘‘ قرار دیا ہے۔ جب تک ’’شیطان کبیر‘‘ کا بندوبست نہیں ہوتا یہ دنیا اسی طرح فسادات سے بھڑکتی رہے گی۔

متین فکری.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی امریکی منصوبے سلامتی کونسل دنیا میں ہے لیکن امن فوج کیا ہے گیا ہے کے لیے

پڑھیں:

تحریک انصاف کو نارمل زندگی کی طرف کیسے لایا جائے؟

تحریک انصاف اپنی ساری مقبولیت اور ایک صوبے میں اقتدار کے باوجود قومی دھارے سے دُور ہوتی جارہی ہے۔ یہ محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں، یہ ایک سماجی المیہ ہے۔

سیاست کے سینے میں تو دل نہیں ہوتا لیکن سماجیات کے ماہرین کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ تحریک انصاف کے وابستگان کو نفرت کے اس سونامی سے نکال کر ایک نارمل زندگی کی طرف کیسے لایا جاسکتا ہے۔

تحریک انصاف کوئی خلائی مخلوق نہیں جسے ہم جانتے نہ ہوں، یہ ہمارے ہی دوست ہیں، بھائی ہیں، رشتہ دار ہیں۔ لیکن ان کی اکثریت کے روہے نارمل نہیں رہے۔ یہ ایک خاص کیفیت کا شکار ہیں۔ یہ چلتے پھرتے آتش فشاں بن چکے ہیں۔ عشروں کی دوستیاں پامال ہوچکی ہیں اور رشتے داؤ پر لگ گئے ہیں۔ نہ کوئی حفظ مراتب باقی بچا ہے نہ کوئی وضع اور حیا۔ رستم وہی ہے جو اپنی اور دوسروں کی عزت سے ایک درجے میں بے نیاز ہو۔

قریبی عزیزوں میں بھی نونہال موجود ہیں۔ پہلے پہل میں ان سے اختلاف کی جسارت کر لیتا تھا، اب ان سے خوف آتا ہے۔ دو لفظوں کے اختلاف سے یہ بھول جائیں گے کہ مخاطب کون ہے اور آپ سے کس رشتے میں بندھا ہے۔ یہ برسوں کا تعلق اور رشتے ایک طرف رکھ دیں گے اور سیدھے آپ کی دیانت پر حملہ آور ہوں گے۔ یہ 2 سیکنڈ میں آپ کو بددیانت، خائن، بے ایمان اور بکاؤ قرار دے دیں گے۔ یہی نہیں، یہ مرے مارنے پر اتر آئیں گے۔

آپ ان سے کسی بھی درجے میں اختلاف کرکے دیکھیں، یہ آپ کو سینگوں پر لے لیں گے۔ ان کے ہاں عزت، توقیر، حفظ مراتب، احترام کا ایک ہی پیمانہ باقی ہے اور وہ ہے عمران خان۔ اگر آپ عمران خان کو دنیا کا آخری ایماندار آدمی نہیں سمجھتے تو یہ آپ کو دنیا کے بدترین انسانوں میں شمار کریں گے۔

یہ کسی دلیل کو بھی نہیں مانتے۔ یہ اس تکلف سے بے نیاز ہیں۔ ان کی دلیل بھی صرف عمران خان صاحب ہیں۔ آپ ان سے بحث بھی نہیں کرسکتے کہ یہ دو فقروں بعد ہانپ جائیں گے اور اس کے بعد آپ کے دامن اور دستار کی سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

یہ بغیر کسی کارکردگی کے رستم ہیں۔ یہ دنیا کا آخری باشعور گروہ ہے لیکن اس باشعور گروہ سے آپ عثمان بزدار یا علی امین گنڈاپور کی کارکردگی کا سوال کرلیں تو یہ آپ کو ایسی ایسی گالیاں دیں گے کہ آپ کی کنپٹیاں سلگ اٹھیں گی۔ گالم گلوچ کے فن میں ان کا کوئی مقابل نہیں۔ یہ ایسی ایسی گالیاں دیتے ہیں جو آدمی نے کبھی سنی بھی نہیں ہوتیں۔ افسوس کہ اس فن میں کوئی نوبل انعام نہیں ملتا ورنہ یہ تاحیات ان ہی کے نام رہتا اور کوئی ورلڈ کپ ہوتا تو یہ بلامقابلہ ہی جیت جاتے۔

ان کے خیال میں ملک میں عمران خان کے علاوہ باقی سب چور ہیں۔ سب بددیانت اور خائن ہیں۔ یہ کسی سے بات کرنے کے روادار نہیں کیونکہ باقی سب تو چور ہیں۔ ان چورں میں سے کوئی اگر ان کی صف میں چلا جائے تو وہ راتوں رات متقی میوہ قرار پاتا ہے، اور متقی میووں میں سے کوئی انہیں چھوڑ کر چلا جائے تو اس سے بُرا آدمی آپ کو 7 براعظموں میں نہیں ملے گا۔

یقیناً تحریک انصاف کے سب کارکنان ایسے نہیں ہیں، بہت سارے اچھے بھی ہیں جو اپنی ساری اچھائی کے ساتھ آپ کو سمجھاتے ہیں کہ ہمارے نونہال اپنے چھینے گئے مینڈیٹ کی وجہ سے خفا ہیں اس لیے آپ ان کی گالیاں کھا کر بدمزہ نہ ہوں، صرف یہ دیکھیں کہ ان کے لب کتنے شیریں اور حسین ہیں۔

اب معاملہ یہ ہے کہ مینڈیٹ تو یہاں ہر ہارنے والے کا چوری ہی ہوا ہوتا ہے۔ کسی نے کبھی شکست مانی ہو تو بتائیے لیکن سچ یہ ہے کہ جب ان کا مینڈیٹ چوری نہیں ہوا تھا، جب وفاق میں ان کی حکومت تھی، جب یہ ایک پیج پر ڈی چوک میں ابرارالحق صاحب کی قیادت میں می رقصم تھے، تب بھی ان کی زبان کی کڑواہٹ ایسی ہی تھی۔ تب بھی یہ کسی دوسرے کے وجود کے قائل نہ تھے۔

ان کے نزدیک جج صرف وہ اچھا جو انہیں دیکھے تو وارفتگی میں پکار اٹھے: ’گڈ ٹو سی یو‘۔ صحافی صرف وہ اچھا جو ان کے ہر مخالف کو گالیاں دیتا رہے، آرمی چیف صرف وہ اچھا جو انہیں سایہ عاطفت میں شفقت پدری کے ساتھ رکھے۔

یہ کیفیت ایک سیاسی بحران نہیں، یہ ایک سماجی المیہ ہے۔ اس نے ہمارے معاشرے کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ معاشرے کی اخلاقی قدریں پامال کردی گئی ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ بدزبانی ہماری سیاست میں پہلے نہیں تھی۔ پہلے بھی تھی۔ لیکن اسے جس طرح ان لوگوں نے انسٹی ٹیوشنلائز کیا ہے وہ ایک مکمل تہذیبی المیہ ہے۔

یہ قومی دھارے سے کٹ چکے، یہ اجتماعی اخلاقیات سے بے نیاز ہوچکے۔ ان کے ہاتھوں نہ زندہ کو امان ہے نہ مرنے والوں کو۔ یہ ایک کلٹ بن چکے۔ کلٹ کی محبت میں یہ نہ ریاست کو خاطر میں لاتے ہیں نہ سماج کو۔ عام کارکنان سے لے کر ان کی قیادت تک، کلٹ کی عقیدت میں ایسا مبالغہ کرچکے کہ اسے بیان کرتے اور یہاں نقل کرتے بھی خوف آتا ہے۔

یقیناً یہ احوال سب کا نہیں، یقیناً یہ سب ایسے نہیں لیکن ان کا عمومی تاثر اب انہی کی چاند ماری کے مرہون منت ہیں جو ان خوبیوں کے مالک ہیں جو اوپر بیان کردی گئیں۔

لیکن یہ جیسے بھی ہیں، اس معاشرے کا حصہ ہیں، یہ ہمارے ہی پاکستانی بھائی ہیں، یہ ہمارے ہی بچے اور نوجوان ہیں۔ یہ ہمارے ہی دوست احباب اور رشتہ دار ہیں۔ انہیں اس نفسیاتی کیفیت سے نکالنا ہوگا اور نارمل زندگی کی طرف لانا ہوگا۔ جہاں یہ بے شک سیاست بھی کریں، اختلاف بھی کریں، تنقید بھی کریں، لیکن یہ سب ایک تہذیبی اور اخلاقی المیہ بن کر نہ رہ جائے بلکہ یہ ایک شائستہ سیاسی عمل ہو۔

انہیں نارمل زندگی کی طرف لانے کا یہ کام روایتی سیاست کے کرنے کا نہیں ہے نہ ہی وہ کرسکتی ہے کیونکہ اس کی نفسیات حریفانہ ہے۔ جب کہ یہ کام خیر خواہی کا ہے۔ یہ بھاری پتھر سماجیات کے ماہریں اٹھا سکتے ہیں۔

تو کوئی ہے جو یہ کام کرسکے؟

یاد رکھیے، انہیں نفرت کی نہیں، خیر خواہی کی ضرورت ہے۔ یہ اس ملک کے نوجوان ہیں، یہ اس ملک کا سرمایہ ہیں۔ ان کی نفسیاتی بحالی کا کوئی جامع پروگرام شروع کیا جانا چاہیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف محمود

آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی کو عالمی سطح پر کون سا بڑا اعزاز ملنے والا ہے؟ اقوام متحدہ کی پیشگوئی
  • فلسطین اتھارٹی کا غزہ سے متعلق اقوام متحدہ کی قرارداد کا بھرپور خیرمقدم
  • جاپان کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا کوئی حق نہیں،چینی مندوب
  • آئندہ 10 سال میں دنیا میں کوئی کینسر سے نہیں مرے گا لیکن پاکستان میں لوگ مررہے ہوں گے، وزیر صحت
  • فلسطینی اتھارٹی کا غزہ سے متعلق اقوام متحدہ کی قرارداد کا بھرپور خیرمقدم
  • اقوام متحدہ نے پاکستان کی قرارداد برائے حق خود ارادیت متفقہ طور پر منظور کر لی
  • اقوام متحدہ ہو یا آسیان مودی مُنہ چھپا رہا، سات، صفر کی شکست یاد دلائی جاتی رہے گی: بلاول
  • طوفان ملیسا سے 4 لاکھ 77 ہزار بچے متاثر ہوئے‘ اقوام متحدہ
  • تحریک انصاف کو نارمل زندگی کی طرف کیسے لایا جائے؟
  • تنازعہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی مداخلت کی ضرورت ہے، ڈاکٹر فائی