وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے کہا ہے کہ شہیدوں کی قربانیوں  پر ہزاروں حکومتیں قربان ہیں، کوئی بھی اگر پاکستان مخالف بولے گا، ہم اس کو نہیں مانتے۔

راولپنڈی میں انجمن تاجران کی جانب سے استقبالیہ  تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ تاجروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو تمام جہدوجہد چاہے جیل ہو یا تاجر یونین کی سیاست ہو یا قومی سیاست میں اتار چڑھاؤ میں ساتھ رہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان وینٹی لیٹر پر تھا لیکن آج دنیا میں  دیکھیں ہر طرف پاکستان کا بول بالا ہے، مڈل ایسٹ، سیٹرل ایشیا میں قیادت کون کررہا ہے، یہ کیسی خارجہ پالیسی  ہے کہ دنیا کی خواہش ہے کہ  وزیر اعظم پاکستان ان کے ملک آئے، یہ نتیجہ شہدا کی قربانیوں اور خلوص نیت سے محنت کی وجہ سے ہے۔

حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ تمنا کرتے تھے 9 مئی ہوگا تو ہم اقتدار میں آجائیں گے، فلاں ملک کا صدر اقتدار میں آئے تو ہمیں بھی اقتدار مل جائے گا لیکن سب کیا ہوا، ہم نہ لاٹھی چارج نہ آنسو گیس کے سامنے رکے، قانون کے دائرے میں رہ کر کام کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ حنیف عباسی آپ کے ساتھ ہے، پختون ،کشمیری ،سندھی سب ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں  لیکن جو کہے گا کہ پاکستان کو نہیں مانتا ہم ان کو نہیں مانتے۔

حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ پنجاب کا مقابلہ کیوں نہ دیگر صوبوں سے کریں، ترقی کو کیوں ڈسکس نہ  کریں، کیا پنڈی جو آج ہے وہ پہلے ایسا تھا، یہاں ٹرانسپورٹ نہیں تھی، تعلیمی و صحت کی سہولیات کیا تھیں، راولپنڈی سے نواز شریف اور  مریم نواز کے کاموں کو نکال دیں تو  راولپنڈی میں کیا بچتا ہے صرف پنڈ ہی بچتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکڑک بسیں آر رہی ہیں خوبصورت اسٹاپ آرہے ہیں جب مائیں بہنیں سفر کریں گی تو کس کو اچھا  نہیں لگے گا۔

حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی پنجاب  15 کو آئیں یا 16 کو آئیں،  راولپنڈی  حق ادا کرے گا۔

معرکہ حق پر بات کرتے ہوئے حنیف عباسی کا کہنا تھاکہ پاک فوج نے معرکہ حق میں ہندوستان کی بائیس چوکیوں پر قبضہ کیا، ہم نہیں کہتے دنیا کہتی ہے، پاکستان نے  ہندوستان کے سات جہاز گرائے اور جب انھوں نے نور خان بیس پر مزائل مارا تو پھر ہم نے بھی انکو گھس کر مارا۔

انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے غیور جوانوں کو سلام جنہوں نے ہماری جان ۔مال اور عزت کو محفوظ رکھا، ہندوستان جان لے اگر وہ کسی خام خیالی میں ہے تو ہم آج بھی تیار ہیں کیونکہ ہے  جہان تگ دو میں غیرت بڑی چیز۔

حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ خوارج جب فورسز پر حملے کریں گے تو وہ غدار وطن ہوں گے ہم پاکستان کو ترقی کی جانب لے جارہے ہیں،  سعودیہ کا وفد آرہا ہے، دنیا یہاں آرہی ہے اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کر رہی ہے، پاکستان ہے تو ہم ہیں، ریل تو ویسے ہی تمام پاکستان کو جوڑتی ہے، انشاء اللہ پاکستان قائم و دائم رہے گا۔

تقریب سے ممبر قومی اسمبلی دانیال تنویر چودہری اور انجمن تاجران کے رہمنا شاہد غفور پراچہ  اور دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ کو نہیں نے کہا

پڑھیں:

’’آئین نَو‘‘ سے ڈرنے اور ’’طرزِ کہن‘‘ پر اَڑنے والے

علامہ محمد اقبال ؒ ، جنہیں اہلِ ایران محبت سے اقبالِ لاہوری کہتے ہیں،ہمارے قومی شاعر ہیں۔ اُنہیں جدید دَور کے علمائے فلاسفہ میں بھی بلند مقام حاصل ہے ۔ ہم اُنہیں شاعرِ مشرق ، حکیم الامت اور یکے از بانیِ پاکستان کے خوبصورت اور دلکش ناموں سے بھی یاد کرتے اور پکارتے ہیں ۔ اِس موقع پر مجھے ’’اقبال کے حضور‘‘ نامی ایک نہائت شاندار تصنیف یاد آ رہی ہے ۔ اِسے جناب سید نذیر نیازی نے تحریر کیا۔یہ دراصل علامہ اقبال کے دولت کدے پر برپا لاتعداد مجالس کی ڈائری ہے ۔

سید نذیر صاحب مرحوم اِن بلند علمی مجالس میں باقاعدہ شریک ہوتے تھے ۔ حکیم الامت کی زبان سے جو کچھ بھی سُنتے ، ڈائری میں لکھ لیتے اور بعد ازاں علامہ اقبال کو اپنے لکھے الفاظ دکھا اور پڑھا کر اِسے محفوظ کر لیتے ۔ یہی محفوظ الفاظ بعد ازاں کتابی شکل میں ’’اقبال کے حضور‘‘ کے زیر عنوان شائع ہُوئی ۔ اِس دلکشا تصنیف میں ہم علامہ اقبال ؒ کو اپنے کلام ، نظریات اور افکار کی تشریح وتفسیر اور گرہ کشائی فرماتے دیکھتے ہیں ۔مذکورہ تصنیف میں مصنف نے، محبت و احترام سے، علامہ اقبال ؒ کو ہر جگہ ’’حضرت علامہ‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے ۔

یہی بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر ، فلسفی اور ہمارے نظریہ ساز، علامہ اقبالؒ، اپنے ایک معروف شعر میں فرماتے ہیں کہ دُنیا میں وہی قومیں اپنی منزل پر پہنچنے میں رکاوٹوں اور کٹھن کا سامنا کرتی ہیںجو آئینِ نَو سے ڈرتی اور طرزِ کہن پر اَڑتی ہیں ۔

یہ طرزِ فکر و عمل ٹھیک نہیں ہے : آئینِ نَو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اَڑنا/ منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں! حضرت علامہ ؒ نے تو ہمیں شعر کی زبان میں ہمارے اجتماعی مرض کی نشاندہی کرتے ہُوئے مدتوں قبل فرما دیا تھا کہ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی راہ میں کونسے عناصر ’’کٹھن‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اب جب کہ آئینِ پاکستان میں 27ویں ترمیم کی صورت میں ’’آئینِ نَو‘‘ سامنے آ چکا ہے ، دونوں ایوانوں سے منظور بھی ہو چکا ہے اور صدرِ مملکت اِس پر دستخط بھی فرما چکے ہیں تو پرانے آئین پر بدستور اَڑنے اور اَکڑنے کی ضرورت کیا باقی رہ جاتی ہے ؟

لیکن نہیں صاحب ! بعض لوگ ’’آئینِ نَو‘‘ سے ڈرتے ہُوئے اور اپنی طرزِ کہن پر اَ ڑتے ہُوئے اپنے بلند عہدوں سے مستعفی ہورہے ہیں ۔ حالیہ27ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں سپریم کورٹ سے اپنے بلند عہدوں سے بطورِ احتجاج مستعفی ہوتے ہُوئے جن دو صاحبان نے بنامِ صدر جو خطوط لکھے ہیں(ویسے دورانِ ملازمت بھی خط لکھنا ان کا خاص مشغلہ رہا )، اِن خطوط کا بالاستعیاب مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اعلیٰ ترین عہدوں اور اعلیٰ ترین مراعات کی حامل ملازمتوں سے رخصت ہوتے ہُوئے اُنہیں خوش رنگ ’’چمن‘‘ کی یاد بھی شدت سے آتی رہی۔

اگر یہ کہا جائے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے فلیش بَیک میں مستعفی ہونے والے معزز افراد کے یہ احتجاجی خطوط دراصل ’’دُکھے دِلوں کی فریاد ‘‘ اور صدا ہے تو اِسے بے جا بھی نہیں کہا جائیگا ۔ استعفیٰ دینے والے دو صاحبان میں سے ایک بڑے صاحب کا دُکھی خط تومبینہ طور پر 13صفحات کو محیط ہے ۔ اِسی سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چوٹ کتنی گہری ہے اور رُخصتی کسقدر بادلِ نخواستہ ہے ۔ آئینِ نَوسے ڈرنے اور طرزِ کہن پر اَڑنے پر مُصر اِن مستعفی حضرت نے دُکھے دِل اور اپنے ’’ضمیر کی آواز‘‘ کی عکاسی کرتے ہُوئے کچھ اشعار بھی شاملِ خط کیے ہیں ۔ مثلاً:’’مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی/ مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے‘‘۔ وغیرہ۔

ستم ظریف اور’’ بیدرد‘‘وفاقی وزیر دفاع، خواجہ محمد آصف، نے اِس خط اور اشعار پر ردِ عمل دیتے ہُوئے ’’ایکس‘‘ پر لکھا:’’ یہ شعر اُس وقت کیوں یاد نہ آئے جب انصاف کا قتلِ عام ہورہا تھا؟ جب ایک ٹولہ مل کر آئین اور قانون کے محافظ کی بجائے کسی کے سیاسی مفادات کے محافظ بنے ہُوئے تھے ۔ یہ سیاسی پارٹی کے ورکر بنے ہُوئے تھے ۔‘‘خواجہ صاحب نے ردِ عمل دیتے ہُوئے بعض ایسے الفاظ بھی ’’ایکس‘‘ پر لکھ مارے ہیں جن کا ہم یہاں اعادہ نہیں کر سکتے ۔ اتنا مگر ضرور ہے کہ خواجہ صاحب کے یہ الفاظ سُن اور پڑھ کر مستعفی حضرات مزید دُکھی ہُوئے ہوں گے ۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں جو صاحبان بھی مستعفی ہُوئے ہیں، عوام میں اُن کے استعفے پذیرائی حاصل کر سکے ہیں نہ اُنہیں عوام کی ہمدردیاں حاصل ہو سکی ہیں ۔

عوام کے مصائب اور دُکھوں سے لاتعلقی کا یہی نتیجہ نکلتا ہے ، مگر جب اقتدار اور اختیار کے شہ زور گھوڑے پر انسان بیٹھا ہو تو اُسے بیکس اور انصاف سے محروم طبقات و افراد کہاں نظر آتے ہیں ؟ وقت کا سفاک اور بیدرد کارواں مگر تھمتا نہیں ہے ۔ دو جسٹس صاحبان کے استعفے اگر سامنے آئے ہیں تو نئی وفاقی آئینی عدالت کے نئے سربراہ ، جناب جسٹس امین الدین خان ، اور تین جج صاحبان بھی اگلے تین برسوں کے لیے حلف بھی اُٹھا چکے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان صاحب کو وفاقی آئینی عدالت کا پہلا سربراہ بننے کا شرف ملا ہے ۔ ساتھ ہی لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج صاحب بھی مستعفی ہونے والوں کی ٖفہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔

آئینِ نَو سے ڈرنے اور طرزِ کہن پر اَڑیل ٹٹو کی طرح اَڑنے والے کچھ افراد ، گروہ اور عاقبت نااندیش ہماری مغربی سرحد کے پار بھی بَس رہے ہیں ۔ یہ لوگ اب افغان طالبان، ٹی ٹی پی ، ٹی ٹی اے ، فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں ۔ مہلک ، لالچی اور اجتماعی طور پر اُمتِ اسلامیہ و اُمتِ پاکستان کے خلاف عناد پر آمادہ مذکورہ گروہوں کا خیال ہے کہ طرزِ کہن پر اَڑے رہنے ہی میں وہ اپنے نجی، گروہی ، بھارتی اور اسرائیلی مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں ۔

پاکستان کے خلاف یہی لالچ افغانستان کے مقتدر طالبان مُلّاؤں اور ملوانوں کے وزیر خارجہ، امیر متقی، کو بھارت لے گیا ۔ اور اب اِنہی پاکستان دشمن افغان طالبان رجیم کے نائب وزیر اعظم ، مُلّا عبدالغنی برادر، نے طرزِ کہن پر اَڑے رہنے کی جبلّت کا ثبوت فراہم کرتے ہُوئے 12نومبر2025ء کو اعلان کیا ہے :’’ ہم پاکستان کے ساتھ اپنی جملہ لین دین بند کررہے ہیں۔‘‘برادر کشی کردار کے حامل،عبدالغنی برادر، نے افغان تاجروں کویہ بھی تنبیہ کی ہے کہ ’’ اگلے تین ماہ کے اندر (پاکستان سے ) اپنا تجارتی حساب کتاب بیباک کرو اور تجارت کے لیے نئے ممالک میں نئے راستے تلاش کرو، وگرنہ (پاکستان کے معاملے میں ) ہم کسی افغان تاجر و ٹریڈر کی مدد نہیں کر سکیں گے ۔‘‘

افغان نائب وزیر اعظم کے مذکورہ بیان کا پاکستان نے مناسب ترین اور ترنت جواب دیا ہے ۔ خواجہ آصف نے بھی خوب کہا ہے کہ ’’افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہمیں نقصان پہنچا رہی ہے ۔‘‘ مُلّا عبدالغنی برادر(جو کبھی برسوں پاکستان کی مفت روٹیاں کھاتا اور پاکستانی اداروں کی میزبانیوں سے بے تحاشہ لطف اندوز ہوتا رہا ہے ) نے مذکورہ اعلان کرکے دراصل بھارت، بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی اُجیت ڈووَل کی زبان بولی ہے۔ اِس اعلان کے بعد راقم نے کئی بھارتی اخبارات کا مطالعہ کیا ہے ، سبھی عبدالغنی برادر پر نہال ہو رہے ہیں ۔

گویا افغانستان کی غیر نمایندہ حکومت کے عبوری وزیر خارجہ (امیر خان متقی) کے دَورئہ بھارت کے نتائج نکلنا شروع ہو گئے ہیں ۔ حیرت کی بات مگر یہ ہے کہ افغان نائب وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ ہر قسم کی تجارت بند کرنے کا اعلان کررہا ہے اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اپنے ’’ امن جرگہ‘‘ ( منعقدہ 12 نومبر2025) میں مطالبہ کرتی سنائی دے رہی ہے کہ ’’افغانستان کے ساتھ سارے تجارتی راستے کھولے جائیں ۔‘‘ ایسے ہی موقع پر شائد بولا جاتا ہے: ناطقہ سر بگریباں ہے کیا کہیئے!ہم سمجھتے ہیں کہ مُلّا برادر کا اعلان پاکستان کے لیے Blessing in Disguise ہے ۔ خس کم ،جہاں پاک۔شائد اِسی لیے ہمارے وزیر دفاع نے بھی کہا ہے :’’افغانستان سے آمدورفت کم ہوگی تو پاکستان میں دہشت گردی بھی کم ہوگی۔‘‘ اور اگر ہم روزنامہ ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ میں 14 نومبر2025ء کو ممتاز رپورٹر شہباز رانا کی رپورٹ بالتفصیل پڑھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مُلّا برادر کے اعلان پر اگر پوری طرح عمل ہوتا ہے تو افغانستان ہی کو بھاری تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دیکھ لیں افغان طالبان طرزِ کہن پر اَڑ کر !!

متعلقہ مضامین

  • رنویر سنگھ کی لیاری میں انٹری، پاکستان مخالف فلم میں بے نظیر بھٹو کی تصاویر بھی شامل
  • بالی ووڈ میں اسکرپٹس کی کمی! چوہدری اسلم اور رحمان ڈکیت کے کردار بھی پاکستان مخالف فلم میں شامل
  • رنویر سنگھ کی لیاری میں انٹری، پاکستان مخالف فلم میں بے نظیر کی تصاویر بھی شامل
  • دہشتگردی، مذاکرات ساتھ نہیں چل سکتے، محسن نقوی: پاکستانی عوام کی قربانیوں کو خراج تحسین، قائم مقام امریکی سفیر
  • خواجہ آصف کی بات درست نہیں، میرا کوئی مدرسہ غیر قانونی نہیں، وزیر ریلوے حنیف عباسی
  • حکومت کو گرانا ہے ورنہ پاکستان ڈوب جائیگا،اپوزیشن اتحاد
  • حب، ایم ڈبلیو ایم کے ضلعی انتخابات، نئے صدر کی حلف برداری
  • محکمہ ریلوے نے شالیمار کو آؤٹ سورسنگ سے نیا بنا دیا ہے، وزیراعظم شہباز شریف
  • نئی شالیمار ایکسپریس کا افتتاح: حنیف عباسی نے مخالفین کے منہ بند کردیے، وزیراعظم شہباز شریف
  • ’’آئین نَو‘‘ سے ڈرنے اور ’’طرزِ کہن‘‘ پر اَڑنے والے