Express News:
2025-10-04@16:48:52 GMT

Brain Drain

اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT

علی اشعر انجم نوجوان محقق ہیں، وہ آ ج کل اٹلی کے دارالحکومت روم کی Sapienza University میں ماسٹرکی ڈگری کے طالب علم ہیں۔ علی اشعر انجم کی انگریزی زبان میں شایع ہونے والی کتاب Brain Drain and Beyond اس ملک کے ایک اہم مسئلے پر ایک تحقیقی دستاویز ہے۔

علی اشعر کا خاص مضمون Development and International Cooperation ہے۔ علی اشعر معروف ماہر سماجیات ڈاکٹر سید جعفر احمد کی نگرانی میں کام کرنے والے تحقیقی ادارہ Institute of Historical and Social Research (IHSR) سے وابستہ رہے۔ علی اشعر نے IHSR کے تحت کراچی کے کتابوں کے تاریخی بازار، اردو بازار اور Karachi and the race for world class cities پر تحقیق کی تھی۔ علی اشعر انجم نے پاکستان کو درپیش سماجی اور اقتصادی اربنائزیشن، گلوبلائزیشن، ڈیموگرافی اور پولیٹیکل اکنامی کے موضوعات میں خصوصی دلچسپی لی ہے۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد کی نگرانی میں کام کرنے والے ادارہ IHSR نے علی اشعر انجم کی یہ کتاب شایع کی ہے۔

یہ کتاب 10ابواب اور 192 صفحات پرمشتمل ہے۔ علی اشعر انجم نے کتاب کے آغاز پر اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ جب انھوں نے اٹلی کی معروف یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا تو انھوں نے ڈیولپمنٹ اور انٹرنیشنل کو آپریشن کے مضمون کا انتخاب کیا۔ دورانِ تعلیم انھوں نے بہت سے لوگوں کی کہانیاں سنی تھیں۔ ان کہانیوں پر غور و فکر کے دوران مائیگریشن کے مسئلے کی پیچیدہ صورتحال کا اندازہ ہوا تھا۔ بقول اشعر دوسرے سمسٹر کے دوران انھیں پاپولیشن ڈائنامکس اور Demography Deepened کی اہمیت کا اندازہ ہوا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ Brain Drainکی اصطلاح سے ڈاکٹروں، انجنیئروں، اساتذہ اور اہم پیشہ ور شعبوں کے ماہرین کا اچھے مستقبل کی تلاش کے لیے اپنے وطن کو اپنی صلاحیتوں سے محروم کرنے کا احساس ہوتا ہے۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ تعلیم یافتہ ہنرمند افراد کی مائیگریشن کی انتہائی گہری وجوہات کا اندازہ ہوتا ہے۔ علی اشعر نے پاکستان میں مائیگریشن کی وجوہات کا تاریخ کے تناظر میں جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان میں مائیگریشن کی طویل تاریخ ہے۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی بھارت سے بڑی تعداد میں افراد نے ہجرت کی۔ ایک اندازے کے مطابق 6ملین افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان میں آباد ہوئے۔ یہ لوگ بعد میں مہاجر کہلائے۔

ان میں سے بہت سے افراد اپنے روشن مستقبل کے لیے دنیا کے مختلف حصوں میں آباد ہوئے۔ بہت سے مزدوروں نے 70ء کی دہائی میں کام کے لیے خلیجی ممالک کا انتخاب کیا۔ اسی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پروفیشنلز یورپی ممالک کی طرف متوجہ ہوئے۔ علی اشعر مزید لکھتے ہیں کہ Brain Drain کا بیانیہ ہمیشہ نقصان کا سودا نہیں ہوتا۔ پاکستان کی ورک فورس اور دانش وارانہ سرمایہ Intellectual Capital نے ترسیلاتِ زر دانش کی منتقلی جیسے فوائد حاصل کیے۔ مصنف نے کتاب کے پہلے باب میں لکھا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے سائنسدان اور اعلیٰ مہارت کے حامل بہت سے پروفیشنل افراد امریکا منتقل ہوگئے تھے۔

برطانیہ میں اس نقصان کی اہمیت کو محسوس کیا گیا۔ 1960ء میں رائل سوسائٹی نے اس مسئلے پر مفصل تحقیق کرائی اور 1963ء میں یہ تحقیقی رپورٹ Immigration of Scientist from the United Kingdom کے عنوان سے شایع ہوئی۔ اس رپورٹ پر اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی وژن پر سیر حاصل بحث ہوئی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ اخبار Evening Standard نے Brain Drain کی اصطلاح سب سے پہلے شایع کی تھی۔ علی اشعر نے Brain Drain کے مثبت اور منفی ہونے پر بھی پہلے باب میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ Brain Drain کو منفی رجحان سمجھا گیا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشہ ورانہ ماہرین کی امیگریشن کو اس بنیاد پر منفی سمجھا گیا کہ یہ افراد اپنے ملک میں قومی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس مائیگریشن سے اہم شعبوں مثلاً صحت، تعلیم اور ٹیکنالوجی میں ٹیلنٹ کی کمی پیدا ہوئی جس سے ترقی کا عمل متاثر ہوا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ Brain Drain اس وقت کسی ملک کے لیے بہتر ثابت ہوسکتا ہے جب یہ پروفیشنلز اور سائنس دان اپنی نالج، مہارت اور ٹیکنالوجی کو اپنے ملک منتقل کریں۔

مائیگریشن کرنے والے سائنس دان اور پروفیشنلز ترقی یافتہ ممالک میں جاتے ہیں تو ان کا Exposureہوتا ہے اور ان کی ذہنی صلاحیتیں اور پروفیشنل اہلیت بہتر ہوتی ہے۔ مصنف نے Brain Drain ماڈرنائزیشن اورگلوبلائزیشن کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں Brain Drain کے رجحان میں تیزی آئی تھی۔ 40ء اور 50ء کی دہائی میں پاکستانی امیگرینٹ کے لیے سب سے پرکشش ملک برطانیہ تھا۔ برطانوی حکومت نے دوسری جنگ عظیم کے بعد مزدوروں کے لیے دروازے کھول دیے تھے۔ خاص طور پر کشمیر سے ہزاروں افراد خوشحال مستقبل کے لیے برطانیہ چلے گئے تھے۔ اسی طرح 1970ء کی دہائی میں پاکستان کی سیاسی قیادت نے امیگریشن کے رجحان کو تقویت دینے کے لیے بڑا اہم کردار ادا کیا۔

مصنف کا یہ دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی کی بناء پر معاشی ابتری پیدا ہوئی اور صنعت کاروں میں عدم اعتماد کا رجحان تقویت پاگیا۔ ملک کے معاشی حالات خراب ہونے کی بناء پر ملک چھوڑنے کے رجحان کو تقویت ملی تھی۔ 1990ء کی دہائی میں امیگریشن کے رجحان میں پھر ایک نمایاں تبدیلی ہوئی۔ اب تربیت یافتہ مزدوروں کے علاوہ پروفیشنل افراد نے مغربی ممالک کے علاوہ امریکا اورکینیڈا کا رخ کیا تھا۔ مصنف نے انسانی اسمگلنگ کی صنعت اور اس کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ انسانی تجارت کرنے والے اسمگلرز نے زمین، سمندر اور ہوائی راستوں کو غیر قانونی امیگریشن کے لیے استعمال کیا ہے۔

یہ افراد زمینی اور سمندری راستے اور بلوچستان کے پرخطر علاقوں کو استعمال کرتے ہیں۔ بلوچستان سے ہوتے ہوئے ایران، ترکی، یونان اور اٹلی کے راستے یورپی ممالک میں آباد ہونے کی کوشش کرتے ہیں جس سے انسانی المیہ جنم لیتا ہے۔ اس کتاب کے آخر میں ان افراد کی کہانیاں بھی ہیں جو انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ اٹلی جانے والے ایک نوجوان کی داستان زیادہ غمزدہ کردیتی ہے۔ یہ نوجوان مشکل سفر کر کے اٹلی پہنچا تھا جہاں اس نے ڈلیوری بوائے کا کام کیا مگر ایک حادثہ میں وہ اپاہج ہوگیا اور اس کی زندگی کے خواب سارے بکھر گئے۔

 علی اشعر کی کتاب اس موضوع پر منفرد کتاب ہے اور اس آرٹیکل میں اس کتاب کا بہت مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ معروف دانشور ڈاکٹر سید جعفر احمد کی نگرانی میں اتنے مشکل موضوع پرکتاب کی اشاعت پر ڈاکٹر جعفر، علی اشعر اور ان کے ادارے کے کارکنان مبارکباد کے مستحق ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: علی اشعر انجم ہیں کہ Brain Drain کی دہائی میں لکھا ہے کہ کرنے والے کے رجحان کے لیے بہت سے

پڑھیں:

یورپ میں سیاہ فام تارکین وطن کی شناخت اور حقوق کی جنگ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اکتوبر 2025ء) یورپی ممالک میں سیاہ فام باشندوں کو ہجرت کے حوالے سے ہونے والی بحث کے دوران مزید نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک جرمنی ، ہجرت کے حوالے سے ایک مرکزی اہمیت کا حامل ملک بن چکا ہے۔ 2023 ء میں یورپی یونین ایجنسی برائے بنیادی حقوق (EUFRA) کی رپورٹ"Being Black in the EU" کے مطابق جرمنی میں سیاہ فام مخالف نسلی امتیاز میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔

2025 ء کے وفاقیانتخابات کے بعد جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت متبادل برائے جرمنی (AfD) سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر نے والی دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ یہ جماعت امیگریشن مخالف موقف کے لیے جانی جاتی ہے اور اس کی مقبولیت نے سیاہ فام افراد کے لیے خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔

(جاری ہے)

معاشی جمود اور اس کے اثرات

جرمنی کی معیشت کووڈ 19 کے بعد سے اب تک مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکی۔

یہ واحد جی سیون ملک ہے جو مسلسل تین سالوں سے معاشی جمود کا شکار ہے۔ معاشی دباؤ کے اس ماحول میں، اقلیتوں، خاص طور پر سیاہ فام افراد کو روزگار، رہائش اور سماجی خدمات تک رسائی میں مزید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ سماجی اور سیاسی اثرات

سیاہ فام افراد کے حقوق کی وکالت کرنے والی تنظیم آئی ایس ڈی کے طاہر ڈیلا کے مطابق ہجرت کی بحث کے دوران سیاہ فام افراد کی جرمنی میں موجودگی پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

ڈیلا کہتے ہیں، ''جب ہجرت سے متعلق بحثیں ہوتی ہیں تو جرمنی میں سیاہ فام لوگوں اور افریقی نسل کے لوگوں کی موجودگی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔‘‘ نسلی امتیاز کی اقسام

یہ امتیاز صرف تنخواہ یا ملازمت کے مواقع تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر شعبوں میں بھی موجود ہے۔ سیاہ فام افراد کو کرایہ پر مکان لینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تعلیمی اداروں میں بھی تعصب کا سامنا رہتا ہےجبکہ پولیس کی جانب سے پروفائلنگ اور زیادتی کے واقعات میں بھی ان افراد کے ناموں کا اندراج رہتا ہے۔ جرمنی میں آسامیوں کی بھرتی میں امتیازی سلوک

جرمنی کی زیگن یونیورسٹی کی ایک حالیہ تحقیق کے نتائج کے مطابق 2023ء سے 2025 ء کے درمیان افریقی یا عربی نام والے درخواست دہندگان کو پیشہ ورانہ تربیت کے مواقع کے لیے ان کی طرف سے دی گئی درخواستوں کے سب سے کم جوابات موصول ہوئے، حالانکہ جرمن کمپنیوں کو افرادی قوت کی شدید کمی کا سامنا ہے۔

یورپی یونین کی سطح پر بھی سیاہ فام افراد نے سب سے زیادہ ملازمت کے دوران امتیازی سلوک کی شکایت کی اور جرمنی اس حوالے سے دوسرے بدترین ممالک میں شامل رہا۔

یہ وہ چیز ہے، جسے یورپی ملک لکسمبرگ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس چھوٹے اور بہت امیر ملک کا شمار یورپی یونین کے سب سے زیادہ متنوع آبادی والے ملک میں کیا جاتا ہے۔ اس ملک میں ہر 10 میں سے ایک باشندے کی پیدائش ای یو کے باہر ہوئی ہے۔

لکسمبرگ نے 2017ء کی "Being Black in the EU" رپورٹ میں جرمنی کی ''سیکنڈ لاسٹ‘‘ پوزیشن ہے۔ لکسمبرگ کی حکومت نے اس کے رد عمل میں نسلی اورنسلی امتیاز کے عوامی تاثرات پر اپناسروے شروع کیا، جس کے نتائج 2022ء میں شائع ہوئے تھے۔ یہ ملک اب نسل پرستی کے خلاف قومی ایکشن پلان پر کام کر رہا ہے۔

بیلجیم کے ماہر معاشیات فریڈرک ڈوکیئر لکسمبرگ کی حکومت کی رپورٹ کے شریک مصنفین میں سے ایک ہیں۔

ان کا کہنا ہے، ''اس منصوبے کا مقصد تحقیق، تربیت اور بیداری پیدا کرنے والے منصوبوں کے ذریعے نسل پرستی اور امتیاز کی تمام اقسام کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کو نافذ کرنا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر زور دینا ہو گا کہ امتیازی سلوک صرف محسوس نہیں کیا جاتا بلکہ یہ حقیقی معنوں میں موجود ہے۔‘‘

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • شکارپور حادثہ: جاں بحق 8 افراد کی نمازِ جنازہ ادا، ہر آنکھ اشکبار
  • وزیراعلی پنجاب نے پاکپتن میں 7- افراد کو آوارہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات کا نوٹس لے لیا
  • ہری پور ؛ تیز رفتار مسافر بس پل سے نیچے جا گری
  • عابد حسین، درجنوں افراد کی پی ایچ ڈی اور دریافتوں میں مددگار
  • یورپ میں سیاہ فام تارکین وطن کی شناخت اور حقوق کی جنگ
  • شکارپور میں ٹرک حادثہ، 7 جاں بحق، 6 زخمی
  • پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین الطاف شکور نے معرف مصنف عبدالخالق بٹ کی کتاب ’’لفظ تماشا‘‘ کو عافیہ موومنٹ کے ترجمان محمد ایوب کے ذریعے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو پیش کیا
  • اوتھل میں مسافر کوچ اور ٹرک کے درمیان خوفناک تصادم، 6 افراد جاں بحق
  • لسبیلہ، مسافر کوچ اور ٹرک میں ٹکر سے 6 افراد جاں بحق، 17 زخمی