Express News:
2025-10-04@16:52:26 GMT

ڈوپامین ڈی ٹاکس کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT

اگر آپ ہر وقت ڈرے سمے رہتے ہیں، ذرا سی آواز پر چونک جاتے ہیں، آپ ،بچے یا گھر والے معمولی باتوں پرگھبرا جاتے ہیں،کوئی پریشان کن واقعہ یاد آتے ہی دل گھبرانے لگتا ہے،کوئی واقعہ بار باردماغ میں گھومتا رہتا ہے،تویہ معمولی علامات نہیں بلکہ اس کے پیچھے کئی عوامل کارفرماہوتے ہیں۔

اکثر ہم سمجھتے ہیں کہ ڈریاخوف ایک فطری چیز ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارا دماغ اس خوف سے سیکھتا بھی ہے؟ اوراسی سیکھنے کے عمل میں ایک خاص ہارمون کردار اداکرتا ہے جسے ’’ڈوپامین‘‘ کہاجاتا ہے۔ یہ وہی ہارمون ڈوپامین ہے جوخوشی اور انعام کے ملنے کے وقت خارج ہوتا ہے لیکن خوف سے بچاؤکے لیے بھی اس کاکردار بہت اہم ہے، حال ہی میں ایک سائنسی تحقیق کی گئی کہ انسان کا دماغ کیسے خطرناک یا تکلیف دہ حالات سے بچنے کے لیے سیکھتاہے اوراس میں ڈوپامین کس طرح مددکرتا ہے۔

دماغ کے ایک مخصوص حصے کوجانچا گیاجو ہمارے رویے،سیکھنے اورانعام ملنے کی توقع سے جڑاہوتا ہے۔ اس حصے کے اندرمختلف جگہوں پرڈوپامین کے سگنلزکودیکھاگیا اور یہ معلوم ہواکہ جب کوئی شخص کسی تکلیف دہ یا خطرناک تجربے سے بچنے کاعمل سیکھتا ہے تودماغ کے مختلف حصے مختلف طریقے سے کام کرتے ہیں۔ابتداء میں دماغ کا ایک خاص حصہ ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ کوئی اشارہ یا آوازخطرے کی علامت ہے لیکن جیسے جیسے ہم بچاؤکا عمل سیکھ لیتے ہیں، دماغ کادوسرا حصہ زیادہ سرگرم ہوکرہمیں اس خطرے سے محفوظ رہنے کی عادت مضبوطی سے سکھاتا ہے۔

عام آدمی کے لیے یہ سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگرہم ڈوپامین کے اس نظام کوجان لیں تو ہم بہت سی نفسیاتی اورجذباتی پریشانیوں سے بچ سکتے ہیں جیسے بے وجہ گھبراہٹ، بچوں کا ڈر، پرانی پریشان کن یادیں، نیندکی بے ترتیبی یا ہر وقت منفی سوچ میں رہنا، یہ سب اس نظام کے درست نہ چلنے کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔

ڈوپامین صرف خوشی کاہارمون نہیں بلکہ یہ ہمیں خطرات سے بچنا بھی سکھاتا ہے۔دماغ کا وہ حصہ جو بچاؤ کی عادت ڈالتا ہے۔ وہ ہمیں سمجھدار بناتا ہے اوردوسرا حصہ ہمیں خطرے کی علامت سے جوڑتا ہے۔اس پورے نظام کو سمجھ کر ہم اپنی، اپنے بچوں اور بزرگوں کی زندگی کو زیادہ محفوظ، خوشحال اورپرسکون بناسکتے ہیں۔اگرسادہ الفاط میں کہیں تو ڈوپامین کو اردو میں ’’محرک خوشی‘‘ یا ’’تحریکی ہارمون‘‘ بھی کہاجاسکتا ہے ، یہ وہ کیمیائی مادہ ہے جو دماغ کو خوشی،تحفظ اور کامیابی کا پیغام دیتارہتا ہے۔

ماہرین نے اسے ’ہیپی ہارمون‘ کا نام بھی دیا ہے اور صحت مندانہ طرز زندگی کے لیے جسم میں ڈوپامین کی مناسب مقدار ہونا ضروری ہے۔ یہ ہمارے دماغ میں کام کرنے والا ایک نیورو ٹرانسمیٹرہوتا ہے جس کے ذریعے دماغی خلیے ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں۔ یہ ہماری حرکت، یادداشت، مزاج اور توجہ میں اہم کردار اداکرتا ہے۔ڈوپامین کی سطح دماغ میں مناسب مقدار میں ہو تو ہمارا موڈ عموماً بہتر رہتا ہے۔

یہ انسان کی مثبت صلاحیت کو بڑھانے کے لیے بہترین سمجھاجاتا ہے تاہم ڈوپامین کی مقدار اگر دماغ میں کم ہو جائے تو لوگوں کا موڈ بگڑسکتا ہے اورکام کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ ڈوپامین جسم کے بہت سے افعال جیسے خون کے بہاو، ہاضمہ، پھرتی سے کام کاج ،توجہ ، موڈ، جذبات اوردرد وغیرہ سے بھی منسلک ہوتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈوپامین اکیلے کام نہیں کرتا بلکہ یہ دوسرے نیوروٹرانسمیٹر اور ہارمونز جیسے سیرٹونن اور ایڈرینا لین کے ساتھ مل کر کام سرانجام دیتا ہے۔جسم میں اس اہم مادے کی کم سطح کو ڈپریشن اور ٹانگوں کے سنڈروم سے جوڑا جاتا ہے۔ ڈوپامین کی کم سطح تھکاوٹ کا احساس دلاتی ہے اور غیر متحرک کرتی ہے۔

حالیہ تحقیق کے مطابق خوشی کا احساس دلانے والا ہارمون ڈوپامین ورزش کے بعد ردِ عمل کوبہتر کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔ برطانیہ کی یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کے سائنس دانوں کاکہنا ہے کہ تحقیق کے نتائج رعشے کے مرض، سکٹسوفرینیا، اے ڈی ایچ ڈی، نشے کی لت اور ڈپریشن جیسی ذہنی حالتوں کے ورزش پر مبنی علاج کو بہتر بنانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ورزش کرنے کے بعد سائیکلسٹس میں ڈوپامین کی مقدار کے اضافے سے ان افراد کے ری ایکشن ٹائم میں بہتری آئی۔

معروف ماہرنفسیات ڈاکٹر افتخار حسین کہتے ہیں کہ ڈوپامین دماغ میں خارج ہونے والا ایک ایسا کیمیکل ہے جو خواہشات کو جنم دے کر خوشی اور انعام حاصل کرنے کی خواہش پیدا کرتا ہے۔یہ ڈوپامین ہی ہے جو ہمیں کچھ کرنے یا نہ کرنے پر اکساتا ہے۔ ہمارے مزاج، ہماری قوتِ ارادی اورہماری حوصلہ افزائی ومحرک کو ڈوپامین ہی کنٹرول کرتا ہے۔مطالعہ یاجسمانی ورزش کرنی ہویا پھرگھنٹوں بیٹھ کر ریلزدیکھنی ہوں، یہ ڈوپامین ہی ہے جس کی وجہ سے ہم کوئی چیز باربارکرتے ہیں یا بالکل چھوڑ دیتے ہیں۔ڈوپامین کی وجہ سے ہی ہم اپنے کاموں کی ترجیحات طے کرتے ہیں۔

ہم وہ کام کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں جس میں ڈوپامین زیادہ ریلیز ہوتا ہے اورجہاں ڈوپامین کم ہو وہ کام ہم ٹالتے رہتے ہیں۔خیال رہے کہ ضرورت سے زیادہ ڈوپامین ریلیز ہونا بھی ہمارے لیے خطرناک ہے کیونکہ اس کے بعد نارمل چیزیں ہمیں بورنگ لگنے لگ جاتی ہیں اورذہنی وطبی مسائل کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ڈوپامین آپ کو کبھی صحیح غلط کا فرق نہیں بتائے گا اورجب بہت زیادہ ڈوپامین ریلیزہو گا توآپ صحیح غلط کا فرق ویسے ہی بھول چکے ہوں گے اورہروہ کام کریں گے جس میں زیادہ سے زیادہ ڈوپامین ریلیز ہو۔

ڈوپامین ہماری اچھی اور بری دونوں طرح کی عادتوں کا ذمہ دار ہے۔ ریسٹورنٹس کے کھانوں سے لے کرسوشل میڈیا تک ہر چیز ہمارے ڈوپامین لیول کومتاثر کرنے کے لیے تیارکی جا رہی ہے۔اس سے بچنے کے لیے سب سے پہلا طریقہ یہ ہے کہ ہمیں مفید اورغیر مفید ڈوپامین کے جھانسے میں نہیں آنا،۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنی زندگی کو بورنگ بنا لیں،آپ ہرچیز کا تجربہ کریں لیکن اسے اپنی عادت نہ بنائیں۔ روزمرہ کی سرگرمیاں خواہشات نہیں ضرورت کے تابع ہونی چاہئیں۔ دنیا کی کامیاب ترین شخصیات کے بارے میں سوچیں،کیا وہ بھی اپنا سارا سارا دن ریلز دیکھنے میں گزارتے ہوں گے؟یاد رکھیں کہ اپنی زندگی میں فوکس، ڈسپلن اور ذمے داری کے احساس سے آپ ڈوپامین کا مثبت استعمال بھی کر سکتے ہیں۔دنیا کی ہر کامیاب شخصیت میں آپ کو یہ خصوصیات ضرور ملیں گی۔

ڈوپامین ڈیٹاکس کیا ہے؟

ڈاکٹر افتخار حسین بتاتے ہیں کہ ایسے لوگ جوسوشل میڈیا پر غیراخلاقی مواد دیکھنے سے پرہیزکرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں جو ان کے دماغ میں ڈوپامین کے اخراج کی طلب پیداکرتی رہتی ہیں جیساکہ ویڈیو گیمز، فیس بْک کی ریلز، موسیقی، فلمیں یا ڈرامہ سیریلز وغیرہ، یہ سب سرگرمیاں ایسی ہیں جن سے ہمارے دماغ میں ڈوپامین کی کچھ ناکچھ مقدارخارج ہوتی رہتی ہے۔

اسے آپ ڈوپامین لیکیج کہہ سکتے ہیں جب ہمارا دماغ مسلسل لذت اوراس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے انعام کے پیچھے بھاگ رہا ہوتا ہے تو یہ طلب کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جاتی ہے۔جب ہم اوپر بیان کی گئی سرگرمیوں سے اْکتاجاتے ہیں تودماغ مزید لذت یا انعام کی فرمائش کرتا ہے۔

اس کے نتیجے میں ہمیں ڈوپامین کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے اورہم وہ غیر اخلاقی مواد دیکھنے کے لیے بے تاب ہوجاتے ہیں۔یہ سب چیزیں دماغ کو اس قدر متحرک کردیتی ہیں کہ سادہ چیزیں جیسے پڑھائی، دوستوں سے بات کرنایاصرف سکون سے بیٹھنا بھی بورنگ لگتا ہے۔ ڈیٹاکس سے آپ اپنے دماغ کو ری سیٹ کرتے ہیں تاکہ وہ حقیقی، مثبت سرگرمیوں سے خوشی محسوس کرنا سیکھے۔

ڈوپامین ڈیٹاکس سے کیا حاصل ہوتا ہے؟

ڈوپامین ڈیٹاکس سے ذہنی خلفشار میں کمی،اچھا موڈ،چڑچڑے پن میںکمی اور زیادہ سکون میسر ہوتا ہے اورخود پر کنٹرول ہونے سے دماغ بھی قابو میں رہتا ہے۔اس لیے اپنی بری عادتوں کی شناخت کریں، یہ سوچیں کہ آپ کس چیز میں پھنسے ہوئے ہیں؟ جنک فوڈ جیساکہ چپس،کولڈ ڈرنک، چاکلیٹ، غیراخلاقی ویڈیوز، تصاویر یا دل لبھانے والے شوز، یا پھرسوشل میڈیا میں انسٹاگرام، ٹک ٹاک یایوٹیوب وغیرہ۔ اپنی بڑی 2 یا 3 بری عادتیں لکھ لیں اورخود کااحتساب کرتے جائیں،اسی طرح ایک دن یا ویک اینڈ چیلنج سے شروع کریں، یہ بات واضح کریں کہ آپ کن چیزوں سے پرہیز کریں گے مثلاً صرف صحت مند خوراک لیں گے، سوشل میڈیا بالکل چھوڑ دیں گے یا مختلف ایپس ڈیلیٹ کردیں گے۔

بری عادتوں کی جگہ اچھی عادتیں اپنائیں

آپ کا دماغ انعام کو پسند کرتاہے، تو اسے صحت مند انعام دیں، جنک فوڈ کی جگہ تازہ اورموسمی پھل، خشک میوہ جات اوردہی کھائیں، سادہ پانی پیئں، کسی دلچسپ کتاب کا مطالعہ کریں،سوشل میڈیا پر وقت گزاری کے بجائے چہل قدمی کو معمول بنائیں، دوستوں کو فون کیا کریں،نیا مشغلہ جیسے ڈرائنگ پینٹنگ یا کھیلوں کی سرگرمیاں اپنائیں۔

جنک فوڈزکواپنے کچن اورکمرے سے نکال باہرکریں، غیر اخلاقی ویب سائٹ بلاک کردیں، سوشل میڈیا پر غیر ضروری نوٹیفکیشن بند کریں۔ اس کام کے لیے پہلا دن مشکل ہوسکتا ہے،جب آپ کو سوشل میڈیاکی طلب ہو؟ 10منٹ گہری سانسیں لیں یاکھینچاؤکی ورزش کریں ۔ اگرجنک فوڈ چاہیے توسیب کھائیں، یاد رکھیں ہرچھوٹا قدم بڑا فرق لاتا ہے۔ڈیٹاکس کے آخر میں خود سے دریافت کریں کہ آب کو کیسا محسوس ہو رہا ہے؟ یا بے چینی میں کوئی کمی آئی ہے؟

کیا آپ پہلے سے زیادہ پر سکون اور پرعزم ہیں ؟اس کامیابی پر خود کو انعام دیں، مثلاً نئی کتاب پڑھیں یا اچھی فلم دیکھیں مگر دوبارہ بری عادت بالکل نہ اپنائیں، اپنی پریشانی یاخوشی کسی دوست کو بتائیں، اس سے آپ کو حوصلہ ملے گا۔ اپنی پروگریس کسی جرنل یا ایپ میں نوٹ کریں،1یا2 گھنٹے غیر ضروری اسکرین سے دوررہیں، ورزش کریں، چہل قدمی یا جاگنگ کریں، اچھی نیند لیں اس سے دماغی طاقت میں اضافہ ہوگا۔

یہ عادتیں چھوڑنا کیوں مشکل ہے؟

یہ چند چیزیں جیسا کہ جنک فوڈ، غیراخلاقی مواد یا سوشل میڈیا وغیرہ آپ کے دماغ کو حد سے زیادہ ڈوپامین دیتی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بے چینی میں اضافہ اورحقیقت سے دوری ہوجاتی ہے۔ڈیٹاکس اس چکر کو توڑتا ہے اور آپ کو حال کا لطف لینے کے قابل بناتاہے۔یاد رکھیں! اس پریشانی میں آپ اکیلے نہیں اور بہت سے نوجوان ان عادتوں سے لڑ رہے ہیں لیکن آپ میں تبدیلی کی طاقت ہے۔ ڈوپامین ڈیٹاکس پرفیکشن کا نام نہیں بلکہ یہ کنٹرول واپس لینے کا بہترین طریقہ ہے۔چھوٹے چھوٹے اقدامات کریں، صبر کریں اوردیکھیں کہ زندگی کیسے بدلتی ہے۔کسی اچھی ایک عادت کو منتخب کریں اور اس ہفتے اس پر کام کریں، یاد رکھیں کہ آپ یہ کر سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا یاد رکھیں کرتے ہیں سکتے ہیں سے زیادہ دماغ کو کرتا ہے جنک فوڈ ہوتا ہے کے لیے ہے اور ہیں کہ

پڑھیں:

7 اکتوبر کو سال کا پہلا سپر مون کیا پاکستان میں بھی دکھائی دے گا؟

ویب ڈیسک : اکتوبر کا مہینہ آسمانی نظاروں کے شوقین افراد کے لیے خاص ثابت ہوگا، کیونکہ 7 اکتوبر کو 2025 کا پہلا سپر مون آسمان پر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آئے گا، یہ دلکش نظارہ پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں دیکھا جا سکے گا۔

 پاکستان سمیت دنیا بھر میں 7 اکتوبر کو سال کا پہلا سپر مون دکھائی دے گا۔ ماہرین فلکیات کے مطابق سپر مون اُس وقت ظاہر ہوتا ہے جب چاند زمین کے قریب ترین فاصلے پر ہوتا ہے، جس سے وہ عام ایام کے مقابلے میں زیادہ بڑا اور روشن دکھائی دیتا ہے، 7 اکتوبر کو چاند تقریباً 14 فیصد بڑا اور 30 فیصد زیادہ روشن نظر آئے گا۔

نائٹ شفٹ میں کام کرنے والوں کو گردے کی پتھری کا زیادہ خطرہ ؛ تحقیق سامنے آگئی

فلکیاتی اعداد و شمار کے مطابق اس دوران چاند زمین سے 224,599 میل کے فاصلے پر ہوگا، یہ گزشتہ 11 ماہ بعد ہونے والا پہلا سپر مون ہوگا، اس سے قبل نومبر 2024 میں سپر مون دیکھا گیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں سال مزید دو سپر مون بھی ہوں گے جو 5 نومبر اور 5 دسمبر کو دکھائی دیں گے، ان میں سب سے زیادہ روشن چاند نومبر میں ہوگا، جب وہ زمین سے صرف 221,817 میل کے فاصلے پر ہوگا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جنوری 2026 کا پہلا فل مون بھی سپر مون ہوگا، تاہم وہ 2025 کے سلسلے میں شمار نہیں کیا جائے گا، عموماً سال میں 3 سے 4 سپر مون نمودار ہوتے ہیں۔

44 برس سے مسجد نبویﷺ میں قرآن مجید پڑھانے والے پاکستانی نژاد مدرس انتقال کرگئے

ماہرین فلکیات نے بتایا کہ سپر مون خاص طور پر اُس وقت زیادہ حسین منظر پیش کرتا ہے جب وہ افق کے قریب طلوع ہوتا ہے، کیونکہ اُس وقت وہ معمول سے کہیں زیادہ بڑا دکھائی دیتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ’ریاض پڑھ رہا ہے‘ کتب میلہ علم و ادب کے متوالوں کی توجہ کا مرکز
  • نیند کی کمی دماغ کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہے، تحقیق میں انکشاف
  • رواں سال کا پہلا سپر مون کب دکھائی دے گا؟
  • 7 اکتوبر کو سال کا پہلا سپر مون کیا پاکستان میں بھی دکھائی دے گا؟
  • ملائیشیا کتابوں پر پابندیاں کیوں لگا رہا ہے؟
  • جنتی عورت کون؟
  • زیادہ استعمال پر زیادہ فیس، اسنیپ چیٹ کی صارفین کے لیے نئی پالیسی
  • الزائمر اور پارکنسنز کے علاج میں ’آسٹروکیپسولز‘ نئی امید بن گئے
  • آپ کب تک زندہ رہیں گے؟