پاکستان میں سیلاب سے محصولات میں کمی ہوگی نہ بڑا معاشی نقصان، یہ آئی ایم ایف کا خیال ہے۔ مزید کہا گیا کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب نے معیشت کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچایا۔اور میں سوچ رہا تھا کہ کاش یہ حساب کتاب لگانے والے کبھی اس گاؤں میں جاتے، جہاں گھرکا دروازہ آج بھی ملبے کے نیچے ہے، جہاں اناج کے ڈھیر کی جگہ پانی کیچڑ ہے، جہاں رات کے کھانے میں بچے ماں کی آنکھوں کو دیکھتے ہیں، پلیٹ کو نہیں اور ماں دور اندھیرے میں اپنے شوہرکا انتظار کر رہی ہوتی ہے جو اب پلٹ کر نہیں آئے گا۔
اخبارات یہی کہتے ہیں کہ یہ کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ عوام کہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ بے شمار نقصان ہوا ہے، مرنے والے بہت سے عزیز و اقارب، زیر آب آنے والی فصلیں، مکانات کا ملبہ، اگر کوئی چھوٹا کسان اپنے مال مویشی کھو دے تو وہی اس کا سب سے بڑا نقصان ہے، اگر کوئی کسان پہلے ہی قرضوں میں ڈوبا ہو تو یہ پانی کے اونچے اونچے ریلے اسے کیا ڈبوئیں گے۔ پہلے ہی وہ قرض میں ڈوبا ہوا ہے پھر اسے اخبار کی سرخیوں میں یہ پڑھنے کو مل جائے کہ بڑا معاشی نقصان نہیں ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے تو اس کے دل پرکیا گزری ہوگی۔
اگر بڑے نقصان کا مطلب مجموعی معیشت میں نمایاں کمی ہے تو آئی ایم ایف اور حکومت اس کو ایک نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں کہ جو اندازے اور ماڈلزکا ڈیٹا انھیں بتائے، لیکن اگر ’’بڑے نقصان‘‘ کا معیار زندگی، انسانی معیشت، غربت، بقا اور معاشرے میں معاشی عدم توازن ہو تو پھر ہر جان، ہر مویشی، ہر فصل، ہرگھرکا نقصان بڑا ہوا ہے۔
کہا گیا کہ حکومت سیلاب سے متعلق اخراجات کو ہنگامی پول سے پورا کرسکتی ہے۔ شرح نمو کا یہ ہدف4.
اس دیہاتی کے خالی باڑے کو دیکھیے جہاں جابجا جانور باندھنے کے کھونٹے ابھی بھی قائم ہیں لیکن وہ کہانی سنا رہے ہیں کہ غریب کسان کے سارے جانور پانی بہا کر لے گیا اور اس کی معیشت بھی دریا برد ہو کر صفر ہو گئی ہے۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات جاری ہیں، ان مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان کو دو قسطوں کے اجرا کی امید ہے۔ یہ قسطیں دو مختلف قرضوں کے پروگراموں کے تحت مجموعی طور پر ایک ارب 20 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان میں کل معاشی نقصانات کا تخمینہ تقریباً 360 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ البتہ ابھی مزید نقصان کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔
2022 میں سندھ میں آنے والے نقصانات کا اندازہ 10 ارب ڈالر لگایا گیا تھا جو کہ اگرچہ کم ہے پھر بھی اس وقت ڈالر ریٹ 300 کے قریب کے لحاظ سے 3 ہزار ارب روپے نقصان بنتا ہے اور فی الحال نقصان کا اندازہ جوکہ 2022 کے مقابلے میں 5 سے 7 گنا زیادہ ہے۔ان تمام باتوں سے فی الحال یہی نظر آ رہا ہے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں معاشی اعداد و شمار اور انسانی حقیقت میں نمایاں فرق ہے۔ نقصان تو غریب کا ہوا ہے، ایسا معلوم دیتا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ انسانی دکھ، بدحالی، فاقہ کشی کو اعداد و شمار میں صفائی کے ساتھ چھپا دیتا ہے۔
ایک ملک کی مجموعی معیشت کو دیکھتے ہیں، لیکن اس حقیقت کو نہیں کہ دیہی معیشت ڈوب گئی ہے اور بہت سے لوگ بچھڑ گئے۔جب رات کے اندھیرے میں ماں خالی نگاہوں سے دور سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہے اور بچہ سامنے رکھی ہوئی پلیٹ کو نہیں دیکھتا۔ ایک بیوی کو اپنے شوہر کا انتظار ہے جو سیلابی پانی کو چیرتا ہوا گیا تھا کہ گھر کے کچھ قیمتی سامان کو لے آؤں۔ آج وہ بھوکی پیاسی حسرت بھری نگاہوں سے اس کے انتظار میں بیٹھی ہے۔ اس کا تو سب کچھ نقصان ہوگیا۔ سب کچھ برباد ہو گیا۔ وہ انتظار کرتی ہے اور اپنے بچے کے بھوک سے ستائے ہوئے چہرے کو دیکھتی ہے۔ بچے کو بھی اپنی بھوک پیاس کی پرواہ نہیں۔ وہ سوال کرتا ہے تو روٹی پانی کا نہیں پوچھتا۔ اپنی ماں سے روتے ہوئے پوچھتا ہے’’ اماں! بابا کب آئیں گے؟‘‘
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف بڑا نقصان کا اندازہ ہے اور ہیں کہ ہوا ہے
پڑھیں:
سیلاب زدگان کی امداد کا تنازع، پیپلز پارٹی اورن لیگ ایک پیج پرآجائیں گے؟
ملک بھر میں حالیہ سیلابی تباہی نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا ہے، اس بحران کے تناظر میں، وفاقی حکومت اور متعلقہ صوبائی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بروقت اور شفاف امداد فراہم کریں، لیکن سب سے بڑا تنازع یہ ہے کہ امداد کا طریقۂ کار کون طے کرے۔
اسی طرح کون سے ادارے اس میں شامل ہوں؟ یہی معاملہ اب وفاقی اتحادی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے مابین کھلی کشیدگی کا باعث بن گیا ہے، آئے روز پارٹی کے سینیئر رہنما اس معاملے کو زیر بحث لاتے ہوئے ایک دوسرے کو کھل کر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بند ہونا چاہیے‘، رانا ثنا اللہ نے ایسا کیوں کہا؟
پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر کا کہنا ہے کہ ہم نے گزشتہ روز اسحاق ڈار اور رانا ثنااللہ کے سامنے اپنے تحفظات رکھے تھے، ہم نے شروع دن سے کہا تھا کہ ہم حکومت کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں گے اور کر بھی رہے ہیں لیکن ن لیگ کا رویہ ایک مسئلہ ہے۔
’ہم نے ابھی بھی اپنی حمایت جاری رکھی ہے اور ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پارٹی لیڈروں کی عزت کی جائے۔‘
ان کے مطابق اگر کوئی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا سے متعلق اعتراض کرتا ہے تو وہ ڈیٹا پیپلز پارٹی نے تیار نہیں کیا اور اس کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: سیلاب اور گندم پر سیاست کرنے والوں کو جواب ملے گا، مریم اورنگزیب کا پیپلزپارٹی پر وار
نوید قمر نے کہا کہ ہم امداد کے لیے حکومت کو اپنا مشورہ دے رہے ہیں، اگر حکومت کو ہماری تجویز قبول نہیں ہے تو وہ طریقے سے انکار کر سکتی ہے لیکن اس طرح میڈیا میں آ کر بیان بازی نہیں کی جا سکتی۔
’جب آپ کہتے ہیں کہ میرا پانی میری مرضی تو یہ پارٹی کا مسئلہ نہیں ہے۔‘
نوید قمر نے بتایا کہ ان کی پارٹی کی اسحاق ڈار سے ملاقات میں مثبت جواب ملا ہے اور جب ن لیگ کا جواب آئے گا تو معاملات بہتر ہو جائیں گے۔
مزید پڑھیں: سیلاب متاثرین کی مالی مدد کے نظام کا فیصلہ وفاق کرے گا صوبے نہ کودیں، بی آئی ایس پی چیئرپرسن روبینہ خالد
مسلم لیگ (ن) کے رہنما بیرسٹر عقیل احمد نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کے اتحاد کے باعث حکومت میں آئی تھی۔ ہم اپنے اتحادیوں کی قدر کرتے ہیں۔
’اگر کسی بھی قسم کا کوئی تناؤ یا اختلاف پیدا ہوتا ہے تو جیسا کہ کل مذاکرات ہوئے، اسی طرح معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ ہمارے گھر کا مسئلہ ہے اور ہم اس پر مشاورت کے بعد معاملے کو حل کر لیتے ہیں۔‘
بیرسٹر عقیل احمدکے مطابق ہر صوبہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد خودمختار ہے، ہر صوبہ اپنی ترقی کے لیے کوئی بھی منصوبہ بنا سکتا ہے۔ وفاق یا صوبہ کسی دوسرے صوبے کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ کسی بھی کام پر کتنا پیسہ خرچ کرے۔
مزید پڑھیں: ’وفاقی حکومت جواب دے‘، بلاول بھٹو کا ایک بار پھر بینظیر انکم سپورٹ کے تحت سیلاب زدگان کی مدد پر زور
’یہ صوبوں کی خودمختاری ہے۔ جہاں تک مریم نواز کے پانی سے متعلق بیان کی بات ہے تو تمام صوبوں کے اتفاق سے صوبہ اپنا اپنا حصہ استعمال کرتا ہے۔‘
بیرسٹر عقیل احمد نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک اچھا پروگرام ہے لیکن اس میں سیلاب متاثرین کا ڈیٹا درج نہیں ہے اور اس میں کچھ مسائل بھی ہیں۔
’آڈیٹر جنرل نے بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ہے۔ لیکن اگر کوئی صوبہ اپنی مرضی سے کوئی نیا پروگرام شروع کر کے امداد دینا چاہتا ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔‘
مزید پڑھیں: بی آئی ایس پی یا وزیراعلیٰ کارڈ: پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سیلاب زدگان کی امداد کے طریقے پر کیوں لڑ رہی ہیں؟
بیرسٹر عقیل احمد کے مطابق پنجاب حکومت نے ’اپنا گھر‘ اور دیگر مختلف منصوبوں کے لیے بھی ڈیٹا جمع کیا ہوا ہے، تو ایسا نہیں ہے کہ پنجاب کے پاس ڈیٹا نہیں ہے۔
’اگر پنجاب حکومت متاثرین کی زیادہ امداد کرنا چاہتی ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔‘
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر تو یہ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ یہ کوئی عام سا اختلاف ہے جو چند دنوں میں ختم ہو جائے گا، تاہم اب ایسا نظر نہیں آ رہا۔
مزید پڑھیں: سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو استعمال نہ کرنا غفلت ہوگی، آصفہ بھٹو
یہ معاملہ صرف امداد تک محدود نہیں بلکہ ایک طاقت کی کھینچا تانی ہے کہ حکومت میں ’فیصلہ کن کردار‘ کون ادا کرے گا۔ اگر ان اختلافات کو فوری طور پر نہ سلجھایا گیا تو آئندہ بجٹ اجلاس اور مشترکہ مفادات کونسل میں مزید کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔
اگر یہ اختلافات وقت پر حل نہ ہوئے تو ممکن ہے کہ امداد کی تقسیم میں تاخیر ہو اور متاثرین کو بروقت مدد نہ پہنچے۔ سیاسی طور پر، اگر پیپلز پارٹی اپنا مؤقف برقرار رکھے اور ن لیگ نہ مانے، تو اتحاد پر تناؤ بڑھ سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ سیلاب متاثرین تک امداد پہنچانے کے لیے سب سے مؤثر اور تیز ترین ذریعہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے، کیونکہ اس کا ڈیٹا بیس مضبوط اور شفاف ہے اور یہ وفاقی سطح پر غریب خاندانوں تک براہِ راست نقد امداد پہنچانے کا نظام رکھتا ہے۔
مزید پڑھیں: وفاقی حکومت کو اقوام متحدہ سے سیلاب زدگان کی امداد کی اپیل کرنی چاہیے، وزیر اعلیٰ سندھ
پیپلز پارٹی کی قیادت کہتی ہے کہ اگر پنجاب حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ڈیٹا استعمال کرے تو امداد بہتر اور جلد پہنچ سکتی ہے۔
پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ امداد کی تقسیم اور انتظام صوبے کا داخلی معاملہ ہے اور وہ اپنی ترجیحات اور اپنے عملے کے ذریعے امداد فراہم کرے گی۔ حکومتی ترجمان نے پیپلز پارٹی کی تنقید کو سیاسی نکتہ چینی قرار دیا ہے۔
پیپلز پارٹی نے ن لیگ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ڈیٹا استعمال کرنے سے گریز کرتی ہے، جو ان کے نزدیک عوام کو بنیادی امداد پہنچانے میں تعطل ہے۔
مزید پڑھیں: بینظر انکم سپورٹ تنازعہ: شازیہ مری کا مریم نواز اور عظمیٰ بخاری کو جواب
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان بڑھتی ہوئی سیاسی دوریوں کے پیش نظر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے چیمبر میں گزشتہ روز اہم ملاقات میں اسحاق ڈار، رانا ثنا اللہ، اعظم نذیر تارڑ، نوید قمر اور اعجاز جاکھرانی شریک ہوئے۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نے وزیرِاعلیٰ پنجاب کے سخت بیانات پر تحفظات کا اظہار کیا جبکہ ن لیگ نے معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔
دونوں جماعتوں نے اتفاق کیا کہ اختلافات کو میڈیا کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسحاق ڈار بیرسٹر عقیل احمد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پیپلز پارٹی ڈیٹا بیس رانا ثنا اللہ مریم نواز مسلم لیگ ن نوید قمر وزیراعلٰی پنجاب