بلوچستان میں کوئلے کے کان کنوں کا معاشی استحصال: ایک تحقیقی جائزہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قسط2
بلوچستان کے کان کنوں کی زندگی غربت اور خطرے کے درمیان جھول رہی ہے۔ مزدوروں کو نہ رہائش، نہ صحت، نہ تعلیم کی سہولت میسر ہے۔ وہ ایسے عارضی جھونپڑوں میں رہتے ہیں جہاں پینے کا صاف پانی تک نایاب ہوتا ہے۔ ان کی محنت صوبے کی معیشت کو توانائی فراہم کرتی ہے مگر ان کے اپنے گھروں میں اندھیرا ہے۔
یہ طبقاتی تفاوت دراصل ایک بڑی معاشی ناانصافی کی علامت ہے، جہاں وسائل سے مالا مال صوبے کے باسی اپنی ہی دولت کے ثمرات سے محروم ہیں۔ کان کن بلوچستان کے اصل معمار ہیں، مگر انہیں ریاست کے صنعتی ڈھانچے میں کبھی تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔
ـ-4 جنرل اینڈ مائننگ ڈیپارٹمنٹ کا کردار
بلوچستان میں مائنز اینڈ منرلز ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ وہ سرکاری ادارہ ہے جو کان کنی کے لائسنس، نگرانی اور فلاحی پروگراموں کا ذمہ دار ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حفاظت یقینی بنائی جائے اور کانوں کی پیداوار کو منظم کیا جائے۔ مگر حقیقت میں یہ ادارہ کاغذی ضوابط سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ بیشتر کانوں کا کوئی باقاعدہ معائنہ نہیں ہوتا اور حفاظتی اصولوں کی خلاف ورزی عام ہے۔
حکومت بلوچستان نے مختلف ادوار میں فلاحی فنڈز قائم کیے مگر ان کی شفاف تقسیم نہ ہونے کے باعث مزدوروں کو کوئی حقیقی فائدہ نہیں پہنچا۔ کان کنوں کے ڈیٹا بیس کی عدم موجودگی، تربیت یافتہ انسپکٹرز کی کمی، اور بدعنوانی نے ادارے کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ مزدوروں کے لیے انشورنس اسکیمز صرف کاغذی وعدوں تک محدود ہیں۔
زیادہ تر کانیں نجی ٹھیکیداروں کے کنٹرول میں ہیں، جبکہ حکومت کا کردار محض لائسنس جاری کرنے تک محدود رہ گیا ہے۔ یہ نجی لیز سسٹم مزدوروں کے تحفظ کی مکمل نفی کرتا ہے۔ سرکاری یا نیم سرکاری کانیں (جیسے PMDC یا BMMDC کے منصوبے) نسبتاً بہتر ہیں مگر ان کا دائرہ اثر بہت محدود ہے۔
یوں صوبائی مائننگ ڈیپارٹمنٹ ایک فعال فلاحی ادارہ بننے کے بجائے ایک بیوروکریٹک ادارہ بن گیا ہے جو کان کنوں کی بجائے ٹھیکیداروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ اگر حکومت نے اس محکمے کو مضبوط اور شفاف نہ بنایا تو بلوچستان کی کان کنی مزید انسانی المیہ بنتی جائے گی۔
ـ-5 حادثات اور انسانی جانوں کا ضیاع
بلوچستان کی کانوں میں موت اب معمول کی خبر بن چکی ہے۔ ہر چند ماہ بعد کسی نہ کسی کان میں دھماکہ، زہریلی گیس کا اخراج، یا زمین دھنسنے کا واقعہ درجنوں مزدوروں کی جان لے لیتا ہے۔ حفاظتی تربیت اور مشینری کے فقدان نے ہر کان کو موت کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
2011 میں سور رینج میں گیس دھماکے سے 52 کان کن جاں بحق ہوئے۔ 2018 میں مارواڑ کی د کانوں میں بیک وقت دھماکوں نے 23 مزدوروں کو زندہ دفن کر دیا۔ 2019 میں دکی میں زمین بیٹھ جانے سے 9 مزدور ہلاک ہوئے، جب کہ 2021 میں ہرنائی میں میتھین گیس دھماکے نے 6 مزدوروں کی جان لے لی۔ 2024 میں ایک اور حادثے میں 12 کان کن موقع پر جاں بحق ہوئے۔ یہ اعداد و شمار صرف سانحات نہیں بلکہ ریاستی غفلت کی علامت ہیں۔
حادثات کے بعد امدادی کارروائیاں اکثر گھنٹوں یا دنوں بعد شروع ہوتی ہیں، کیونکہ صوبے میں جدید ریسکیو مشینری اور تربیت یافتہ عملہ موجود نہیں۔ اکثر اوقات لاشیں کئی دن بعد نکالی جاتی ہیں۔ زخمی مزدوروں کے علاج کے لیے اسپتال نہ ہونے کے برابر ہیں۔
2021 کے مچھ سانحے میں 11 ہزارہ کان کنوں کا سفاک قتل بلوچستان کے کان کن طبقے کے لیے ظلم کی انتہا تھی۔ یہ سانحہ صرف مذہبی نفرت نہیں بلکہ معاشی کمزوری اور ریاستی بے حسی کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ یہ تمام واقعات اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ بلوچستان کی کان کنی میں انسانی جانوں کی کوئی قدر نہیں۔
ـ-6 مزدور یونینز کا کردار
بلوچستان میں مزدور یونینز محدود وسائل کے باوجود کان کنوں کے حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔ بلوچستان مائن ورکرز فیڈریشن اور آل پاکستان لیبر فیڈریشن جیسی تنظیموں نے کئی بار اجرت میں اضافے، حفاظتی اقدامات، اور فلاحی اسکیموں کے مطالبات کیے۔ مگر ان کی آواز اکثر سیاسی دباؤ اور سرمایہ دارانہ اثر و رسوخ کے باعث دب جاتی ہے۔
یہ یونینز کان کنوں کو منظم کرنے کی کوشش کرتی ہیں مگر زیادہ تر مزدور ناخواندہ اور غیر رسمی معاہدوں کے تحت کام کرتے ہیں، جس سے ان کی شمولیت مشکل ہو جاتی ہے۔ حکومت بھی ان یونینز کو کمزور رکھنے میں غیر محسوس طور پر شریک ہے تاکہ سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج نہ کیا جا سکے۔
اس کے باوجود، مزدور یونینز نے ماضی میں کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں جیسے مائن سیفٹی ایکٹ پر جزوی عمل درآمد، اجرتوں میں معمولی اضافہ، اور حادثات کے بعد احتجاجی دباؤ۔ مگر یہ کامیابیاں عارضی نوعیت کی ہیں۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کان کنوں کے لیے کان کن
پڑھیں:
حیدرآباد: غیر قانونی آتش بازی کے کارخانے میں دھماکے، 4 مزدور جاں بحق، 5 زخمی
حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد نمبر 10 میں غیر قانونی آتش بازی کا سامان تیار کرنے والے کارخانے میں دھماکے کے بعد آگ لگ گئی، جس کے نتیجے میں 4 مزدور ہلاک اور 5 زخمی ہو گئے۔
نجی میڈیا کے مطابق لغاری گوٹھ میں واقع یہ کارخانہ رہائشی علاقے کے درمیان تھا، جس میں دھماکے کے بعد پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ اطلاع ملتے ہی فائر بریگیڈ کی ٹیمیں موقع پر پہنچیں اور آگ بجھانے کی کوششیں جاری ہیں۔
حادثے کے فوری بعد جاں بحق مزدوروں کی لاشیں اور زخمیوں کو مقامی ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے فوری نوٹس لیتے ہوئے زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت دی اور واقعے کی تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔ انہوں نے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر حیدرآباد سے فیکٹری کے حفاظتی انتظامات کا مکمل آڈٹ کرنے کا حکم بھی دیا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ دھماکے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور مزدوروں کے تحفظ میں کسی بھی قسم کی غفلت برداشت نہیں کی جائے گی۔
یہ واقعہ ایک بار پھر غیر قانونی صنعتوں میں حفاظتی انتظامات کی ناکامی کی سنگین یاد دہانی ہے۔