UrduPoint:
2025-10-05@14:08:54 GMT

حکومت کے تجارتی ڈیٹا میں 11 ارب ڈالر کے فرق کا انکشاف

اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT

حکومت کے تجارتی ڈیٹا میں 11 ارب ڈالر کے فرق کا انکشاف

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 05 اکتوبر2025ء ) حکومت کے تجارتی ڈیٹا میں 11 ارب ڈالر کے فرق کا انکشاف ہوا ہے جس پر عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ گزشتہ دو مالی سالوں کے دوران سرکاری اداروں کے رپورٹ کردہ تجارتی اعداد و شمار میں 11 ارب ڈالر کے فرق کو عوامی طور پر ظاہر کیا جائے جس سے ملک کے بیرونی شعبے کے اعشاریوں پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

صحافی شہباز رانا کی رپورٹ کے مطابق حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (PRAL) کی رپورٹ کردہ درآمدات پاکستان سنگل ونڈو (پی ایس ڈبلیو) کے اعداد و شمار کے مقابلے میں مالی سال 2023/24ء کے دوران 5.

1 ارب ڈالر کم تھیں، اگلے مالی سال میں یہ فرق بڑھ کر 5.7 ارب ڈالر ہو گیا، پی ایس ڈبلیو کے اعداد و شمار کو زیادہ جامع سمجھا جاتا ہے اور ان میں تمام درآمدی اندراجات شامل ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

ذرائع سے پتا چلا ہے کہ پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کو بتایا کہ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کی جانب سے جنیوا میں قائم انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر (ITC) کو جمع کرائے گئے تجارتی اعداد و شمار جامع نہیں تھے اور اس کی رپورٹنگ میں کچھ درآمدی اعداد و شمار غائب تھے، تاہم یہ کمی کسی غلط ارادے کی بجائے تجارتی اعداد و شمار کے ماخذ کے پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ سے پاکستان سنگل ونڈو میں منتقل ہونے کے عمل کی وجہ سے ہوئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کمی اس وقت سامنے آئی جب پاکستانی درآمد کنندگان اور چینی برآمد کنندگان کے اعداد و شمار میں بڑے فرق کی وجوہات کی جانچ پڑتال کی جا رہی تھی، ایک مشترکہ ٹیم کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ پی بی ایس کے تجارتی اعداد و شمار ایک پرانے پروگرامڈ کوئری کے ذریعے حاصل کیے جا رہے تھے جو 2017ء کے بعد اپ ڈیٹ نہیں ہوا تھا، جس کی وجہ سے درآمدات کی مسلسل کمی رپورٹ ہو رہی تھی۔

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پی ایس ڈبلیو کا ڈیٹا بیس 15 قسم کے گڈز ڈیکلیریشنز پر مبنی تھا جو پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ کے صرف سات اقسام کے ڈیٹا کے مقابلے میں زیادہ جامع تھا، اس فرق کے نتیجے میں مالی سال 2023/24ء میں 5.1 ارب ڈالر اور پچھلے مالی سال میں 5.7 ارب ڈالر کی درآمدات کم رپورٹ ہوئیں، سب سے زیادہ فرق ٹیکسٹائل کے شعبے میں دیکھنے میں آیا جہاں تقریباً 3 ارب ڈالر کی درآمدات کم رپورٹ ہوئیں، دھاتی گروپ کی درآمدات بھی مالی سال 2023/24ء میں تقریباً 1 ارب ڈالر کم دکھائی گئیں۔

ذرئع کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف نے شفافیت کی ہدایت کی اور پاکستانی حکام سے کہا ہے کہ ماضی کے تجارتی اعداد و شمار کو درست اور اپ ڈیٹ کریں اور انہیں آئی ایم ایف اور تمام مقامی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ شیئر کریں، تاہم ذرائع بتاتے ہیں کہ پی بی ایس گزشتہ سالوں کے اعداد و شمار میں ترمیم کو عوامی طور پر ظاہر کرنے سے ہچکچا رہا ہے، وزارت خزانہ کے حکام کو خدشہ ہے ترمیم شدہ اعداد و شمار کے عوامی ہونے سے برآمدات کے خالص حساب کتاب پر اثر پڑ سکتا ہے جو بدلے میں معاشی ترقی کے تخمینوں کو متاثر کر سکتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا جارہا ہے کہ یہ واقعہ پاکستان کے اعداد و شمار کے جمع کرانے کے نظام میں بنیادی خامیوں کو ظاہر کرتا ہے اور ملک کے معاشی اعشاریوں کی شفافیت کے حوالے سے سنجیدہ سوالات کھڑے کرتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت ہے اور معاشی اصلاحات کے ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے تجارتی اعداد و شمار اعداد و شمار کے کے اعداد و شمار آئی ایم ایف کے تجارتی مالی سال ارب ڈالر

پڑھیں:

ماہرنگ بلوچ کے والد حکومت کے خلاف مسلح جہدوجہد میں شامل رہے، گلزار امام شمبے کا انکشاف

کالعدم تنظیم کے سابق سربراہ گلزار امام شمبے نے قومی دھارے میں واپسی کے 2 سال بعد اپنے انٹرویو دیتے ہوئے اہم انکشافات کیے ہیں۔

نجی ٹی وی کو انٹرویو میں گلزار امام شمبے نے کہا کہ بی وائی سی اور اس جیسی دیگر طلبا تنظیمیں دراصل بی ایل اے کی نرسری کا کردار ادا کرتی ہیں، جہاں سے نوجوانوں کو عسکریت پسندی کی طرف مائل کر کے بھرتی کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان سے پکڑا جانے والا گلزار امام شمبے کون ہے؟

انہوں نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کے اندرونی اختلافات کے باعث شدت پسند بھی مارے جاتے ہیں، جبکہ ان کی فیملیز کو اصل وجوہات بتانے کے بجائے گمراہ کن بیانیہ دیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2014 اور 2015 کے دوران ان کے اور براہمداخ بگٹی کے حامیوں کے درمیان بھی جھگڑے ہوئے، جبکہ بڑی تنظیموں میں ڈسپلن اور پسند ناپسند کے نام پر گروہی لڑائیاں ایک عام حقیقت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: کالعدم تنظیم کا بانی دہشت گرد گلزار امام عرف شمبے گرفتار

گلزار امام شمبے نے ماہ رنگ بلوچ کے والد غفار لانگو کے حوالے سے بھی انکشاف کیا کہ ڈاکٹر نجیب حکومت کے خاتمے کے بعد جب خیر بخش مری کوئٹہ واپس آئے تو غفار لانگو نے ان کا ساتھ دیا اور بعد ازاں پہاڑوں میں مسلح جدوجہد میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ غفار لانگو ریاست مخالف سرگرمیوں میں متحرک رہے۔

اپنے انٹرویو میں گلزار امام شمبے نے مزید کہا کہ بی ایل اے سمیت دیگر تنظیمیں بھارت کی حمایت سے انکار نہیں کر سکتیں۔ ان کے مطابق عطا اللہ مینگل کہا کرتے تھے کہ پاکستان کے خلاف شیطان بھی مدد کرے تو قبول کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ یہ تنظیمیں منشیات اور دیگر غیر قانونی ذرائع سے بھی سرمایہ اکٹھا کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کالعدم بی این اے کے سربراہ گلزار امام میڈیا کے سامنے پیش

انہوں نے واضح کیا کہ دنیا بھر میں مزاحمتی تنظیمیں آخرکار سیاسی جدوجہد کو اپناتی ہیں، اسی لیے ہم نے بھی عسکریت پسندی کو ترک کر کے سیاسی راستے کو اختیار کیا ہے، کیونکہ مقاصد کا حصول صرف سیاسی جدوجہد کے ذریعے ممکن ہے۔

گلزار امام شمبے نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں افغانستان سے بی ایل اے کو اسلحہ اور پناہ گاہوں کی سپورٹ ملتی رہی ہے، جو آج بھی جاری ہے۔ ان کے مطابق امریکی فوج کے زیر استعمال جدید ہتھیار اور آلات افغانستان کی بلیک مارکیٹ میں دستیاب تھے اور اب بھی وہاں سے اسلحہ اور دیگر سامان سپلائی ہوتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • عثمان بزدار کے دورِ حکومت میں 13 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگی کا انکشاف
  • سابق وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے دور حکومت میں ان کے اپنے ضلع میں 13کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگی سامنے آگئی
  • پی ٹی آئی دور حکومت کی 131 ملین روپے کی مالی بے ضابطگی سامنے آگئی 
  • پنشن اخراجات پر قابو پانے کے لیے حکومت کی کنٹری بیوٹری اسکیم، نیا مالی ماڈل متعارف
  • رکاوٹوں کے باوجود پاکستان آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کیلئے تیار
  • امارات اور آسٹریلیا کے درمیان اقتصادی شراکت داری معاہدہ
  • ماہرنگ بلوچ کے والد حکومت کے خلاف مسلح جہدوجہد میں شامل رہے، گلزار امام شمبے کا انکشاف
  • رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تجارتی خسارے میں 33 فیصد اضافہ
  • رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تجارتی خسارہ 32.92 فیصد بڑھ گیا