حکومت کے تجارتی ڈیٹا میں 11 ارب ڈالر کے فرق کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 05 اکتوبر2025ء ) حکومت کے تجارتی ڈیٹا میں 11 ارب ڈالر کے فرق کا انکشاف ہوا ہے جس پر عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ گزشتہ دو مالی سالوں کے دوران سرکاری اداروں کے رپورٹ کردہ تجارتی اعداد و شمار میں 11 ارب ڈالر کے فرق کو عوامی طور پر ظاہر کیا جائے جس سے ملک کے بیرونی شعبے کے اعشاریوں پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
صحافی شہباز رانا کی رپورٹ کے مطابق حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (PRAL) کی رپورٹ کردہ درآمدات پاکستان سنگل ونڈو (پی ایس ڈبلیو) کے اعداد و شمار کے مقابلے میں مالی سال 2023/24ء کے دوران 5.1 ارب ڈالر کم تھیں، اگلے مالی سال میں یہ فرق بڑھ کر 5.7 ارب ڈالر ہو گیا، پی ایس ڈبلیو کے اعداد و شمار کو زیادہ جامع سمجھا جاتا ہے اور ان میں تمام درآمدی اندراجات شامل ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)
ذرائع سے پتا چلا ہے کہ پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کو بتایا کہ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کی جانب سے جنیوا میں قائم انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر (ITC) کو جمع کرائے گئے تجارتی اعداد و شمار جامع نہیں تھے اور اس کی رپورٹنگ میں کچھ درآمدی اعداد و شمار غائب تھے، تاہم یہ کمی کسی غلط ارادے کی بجائے تجارتی اعداد و شمار کے ماخذ کے پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ سے پاکستان سنگل ونڈو میں منتقل ہونے کے عمل کی وجہ سے ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کمی اس وقت سامنے آئی جب پاکستانی درآمد کنندگان اور چینی برآمد کنندگان کے اعداد و شمار میں بڑے فرق کی وجوہات کی جانچ پڑتال کی جا رہی تھی، ایک مشترکہ ٹیم کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ پی بی ایس کے تجارتی اعداد و شمار ایک پرانے پروگرامڈ کوئری کے ذریعے حاصل کیے جا رہے تھے جو 2017ء کے بعد اپ ڈیٹ نہیں ہوا تھا، جس کی وجہ سے درآمدات کی مسلسل کمی رپورٹ ہو رہی تھی۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پی ایس ڈبلیو کا ڈیٹا بیس 15 قسم کے گڈز ڈیکلیریشنز پر مبنی تھا جو پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ کے صرف سات اقسام کے ڈیٹا کے مقابلے میں زیادہ جامع تھا، اس فرق کے نتیجے میں مالی سال 2023/24ء میں 5.1 ارب ڈالر اور پچھلے مالی سال میں 5.7 ارب ڈالر کی درآمدات کم رپورٹ ہوئیں، سب سے زیادہ فرق ٹیکسٹائل کے شعبے میں دیکھنے میں آیا جہاں تقریباً 3 ارب ڈالر کی درآمدات کم رپورٹ ہوئیں، دھاتی گروپ کی درآمدات بھی مالی سال 2023/24ء میں تقریباً 1 ارب ڈالر کم دکھائی گئیں۔ ذرئع کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف نے شفافیت کی ہدایت کی اور پاکستانی حکام سے کہا ہے کہ ماضی کے تجارتی اعداد و شمار کو درست اور اپ ڈیٹ کریں اور انہیں آئی ایم ایف اور تمام مقامی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ شیئر کریں، تاہم ذرائع بتاتے ہیں کہ پی بی ایس گزشتہ سالوں کے اعداد و شمار میں ترمیم کو عوامی طور پر ظاہر کرنے سے ہچکچا رہا ہے، وزارت خزانہ کے حکام کو خدشہ ہے ترمیم شدہ اعداد و شمار کے عوامی ہونے سے برآمدات کے خالص حساب کتاب پر اثر پڑ سکتا ہے جو بدلے میں معاشی ترقی کے تخمینوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا جارہا ہے کہ یہ واقعہ پاکستان کے اعداد و شمار کے جمع کرانے کے نظام میں بنیادی خامیوں کو ظاہر کرتا ہے اور ملک کے معاشی اعشاریوں کی شفافیت کے حوالے سے سنجیدہ سوالات کھڑے کرتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت ہے اور معاشی اصلاحات کے ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے تجارتی اعداد و شمار اعداد و شمار کے کے اعداد و شمار آئی ایم ایف کے تجارتی مالی سال ارب ڈالر
پڑھیں:
بھارت کو ’غیر مسلم اور اسلام مخالف‘ ملک قرار دینے سے دہلی کی دلالی تک افغان طالبان کی قلابازیاں
افغانستان کے وزیر صنعت و تجارت نورالدین عزیزی بھارت کے دورے پر ہیں۔ طالبان حکومت کے اس اقدام کو افغانستان میں بھارت کی تجارت اور سرمایہ کاری کی بڑھتی ہوئی شمولیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
طالبان کی پالیسی میں تبدیلی
طالبان کی حکمت عملی میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں بھارت کو ’غیر مسلم‘ اور افغان سیاست میں مداخلت کرنے والا بتایا گیا، تاہم اب طالبان حکومت اقتصادی اور تجارتی مفادات کے لیے بھارت کے ساتھ تعلقات مضبوط کر رہی ہے۔
بی بی سی اور ٹولو نیوز کے مطابق یہ دورہ وزیر خارجہ امیر خان متقی کے اکتوبر کے دورے کے بعد ہو رہا ہے، جس میں بھارت نے طالبان کو غیر رسمی طور پر ملاقات کی اجازت دی تھی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان اب بھارت سے گندم، سرمایہ کاری، اور تجارتی راہداریوں تک رسائی چاہتے ہیں، جبکہ ماضی میں انہی ممالک کو ’اسلام مخالف‘ قرار دیا گیا تھا۔
مذہبی اصول بمقابلہ عملی سفارتکاری
تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان اپنے داخلی قوانین میں سختی رکھتے ہیں، لیکن خارجی پالیسی میں انتہائی لچک دکھا رہے ہیں۔
ماضی میں کشمیر، ہندوستانی اقلیتوں اور بھارت مخالف رائے کو بڑھاوا دیا جاتا رہا، لیکن اب بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات میں پرامن رویہ اپنایا جا رہا ہے۔
طالبان کی یہ پالیسی اقتصادی ضرورت اور بین الاقوامی تسلیم حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھی جا رہی ہے، جبکہ مذہبی اور تاریخی بیانات کو عارضی طور پر پس پشت رکھا گیا ہے۔
طالبان حکومت کے اس قدم سے افغانستان کے تجارتی مستقبل پر اثرات مرتب ہوں گے، اور اس سے پاکستان سمیت خطے میں سیاسی توازن پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔
یہ دورہ نہ صرف تجارتی تعلقات مضبوط کرے گا بلکہ خطے میں طالبان حکومت کی بین الاقوامی پوزیشن کی عکاسی بھی کرے گا۔
افغان عبوری حکومت کے وزیر کی جانب سے دورہ بھارت پر تبصرہ کرتے ہوئے ’ایکس‘ صارف افشاں اعوان (@AdvAfshanAwan) نے اس دورے کو سیاسی زاویے سے دیکھا اور کہا کہ
’نئی دہلی کا یہ دورہ ظاہر کرتا ہے کہ طالبان حکومت بھارت کو افغانستان میں دوبارہ جگہ دے رہی ہے‘۔
افشاں اعوان کے مطابق ’بظاہر تجارتی ایجنڈا دراصل ایسے راستے کھول سکتا ہے جنہیں بھارت پاکستان کے خلاف دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کرے‘۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں