سندھ پولیس گیمز، 14 برس کا تعطل ختم، ہیڈکوارٹرز میں تقریب کے ساتھ گیمز کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 19th, November 2025 GMT
کراچی:
سندھ پولیس گیمز کا14 برس سے جاری تعطل اختتام کو پہنچا اور پولیس ہیڈ کوارٹرز گارڈن میں افتتاحی تقریب کے ساتھ پولیس گیمز 2025 کا آغاز ہوگیا۔
سندھ پولیس گیمز 2025 کی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر داخلہ، قانون و پارلیمانی امور ضیا الحسن لنجار تھے جہاں آئی جی سندھ غلام نبی میمن، سابق مشہور کھلاڑیوں، سیاست دانوں اور فن کاروں سمیت دیگر بھی شریک تھے۔
ڈی آئی جی ٹریفک اور سندھ پولیس اسپورٹس بورڈ کے چیئرمین سید پیر محمد شاہ کی زیر نگرانی 4روزہ گیمز میں 18 مختلف کھیلوں کے مقابلوں میں 900 میڈلز اور 78 ٹرافیز کے لیے مختلف یونٹس کے12دستوں میں شامل بشمول 117 خواتین 1570 اہلکار اپنی اہلیت اور صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کررہے ہیں۔
سندھ پولیس گیمز 2025 میں ایتھلیٹکس، باکسنگ، باڈی بلڈنگ، کرکٹ، فٹ بال، ہینڈ بال، ہاکی، ہاف میراتھن، جوڈو، کراٹے، نیٹ بال، سوئمنگ، شوٹنگ بال، شوٹنگ، ٹگ آف وار اور والی بال کے مقابلے ہوں گے جبکہ اسلٹ کورس کو نمائشی مقابلہ کی حیثیت حاصل ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے مہمان خصوصی وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار نے کہا کہ پولیس پر ماضی میں بہت تنقید ہوتی رہی ہے، ہماری کوشش تھی کہ عوام کو پولیس کا مثبت اور حقیقی چہرہ دکھائیں، پولیس کی کوششوں سے ہی کراچی کے حالات بہت بہتر ہوئے ہیں اور امن قائم ہوا۔
انہوں نے کہا کہ کھیلوں کے میدان آباد کرنا چاہتے ہیں، محکمہ پولیس میں کھیلوں اور فن کاروں کا بھی کوٹا ہونا چاہیے۔
آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا کہ 14سال بعد سندھ پولیس گیمز کا انعقاد خوش آئند ہے، کراچی اور اندرون سندھ پولیس کو مختلف جرائم کے چیلنجز درپیش تھے، 3سال مسلسل آپریشن کلین اپ جاری رہا، تمام اداروں نے مل کر اقدامات کیے جن کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے بھی اپنا کردار ادا کیا، ہم نے جارحانہ پولیسنگ کی، نوگو ایریاز کا خاتمہ کیا،کراچی میں اسٹریٹ کرائمز میں 30فیصد کمی آئی، اغوا برائے تاوان نہ ہونے کے برابر ہے اور محکمہ پولیس میں فٹنس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے جس کے لیے کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دیں گے۔
ایڈیشنل ائی جی کراچی جاوید اوڈھو نے کہا کہ امن کے قیام کے لیے پولیس نے بے انتہا قربانیاں دی ہیں، جرائم کی شرح میں بہت کمی دیکھنے میں آرہی ہے،کچے کے علاقے میں قانون کی رٹ قائم کرنے میں کامیابی ملی ہے، دیگر محکموں کی طرح پولیس میں بھی کھیلوں کو فروغ دیا جائے گا۔
ڈی آئی جی ٹریفک اور سندھ اسپورٹس بورڈ کے چیئرمین پی سید پیر محمد شاہ نے کہا کہ 14 برس کے بعد پولیس کے لیے کھیلوں کا انعقاد ایک اہم ٹاسک تھا جس کو مکمل کرنے میں کامیابی ملی،گیمز کی کامیابی سے انعقاد سے مثبت پیغام جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سندھ پولیس گیمز نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
پی پی نے بلدیاتی نظام پر بات نہ کی تو 18ویں ترمیم ختم ہوگی ‘سندھ میں صوبہ بھی بنے گا‘ایم کیو ایم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251118-08-20
کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلدیاتی نظام سے متعلق ترمیم پر پیپلز پارٹی کو سخت وارننگ دی ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کو مقامی حکومتوں کے معاملے پر بات چیت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے اس بل پر بات نہ کی تو ’’18 ویں ترمیم بھی ختم ہوگی اور سندھ میں صوبہ بھی بنے گا‘‘۔ مصطفی کمال نے دعویٰ کیا کہ آنے والے مہینوں میں یہ ترمیم لازمی آئے گی اور منظور بھی ہوگی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’کراچی دودھ دینے والی گائے ہے، اسے چارہ نہیں دو گے تو کیسے چلے گا‘‘ اور یہ بھی واضح کیا کہ پی پی پی 27ویں ترمیم میں اس بل کو شامل کرنے کیلیے تیار نہیں تھی تاہم حکومت نے آئندہ ترمیم میں اسے لازمی دیکھنے کا وعدہ کیا ہے۔ دوسری جانب سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر نے آج بغیر تیاری کے پریس کانفرنس کرکے پیپلز پارٹی پر بے بنیاد الزام تراشی کی، سندھ کی تقسیم ناممکن ہے، دنیا میں ایسی کوئی طاقت نہیں جو سندھ کو تقسیم کرے۔ تفصیلات کے مطابق بہادرآباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا کہ بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے لیے ایم کیو ایم پاکستان کی مجوزہ آئینی ترمیم اب صرف کراچی کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ پورے پاکستان کا معاملہ بن چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2024 میں پہلی بار پاکستان کی تاریخ میں ایم کیو ایم نے وزارتیں، عہدے اور پیکیجز مانگنے کے بجائے صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ ہم نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو ایگریمنٹ کیا وہ صرف اور صرف ہماری آئینی ترمیم کی حمایت کیلیے تھا۔ لیکن جب ایم کیو ایم نے 26ویں ترمیم کے موقع پر اپنا بل پیش کیا تو ہمارے پاس نمبرز کم تھے، اور ملک کو درپیش چیلنجز کی وجہ سے اس بل کو اس وقت موخر کر دیا گیا۔ ہمارا بل لاء اینڈ جسٹس کی قائمہ کمیٹی میں رہا، ایک سال بعد جب 27 ویں ترمیم کا موقع آیا تو پیپلز پارٹی کے علاوہ پاکستان کی تمام پارٹیز نے ایم کیو ایم کے بل کی حمایت کی۔ جس کی وجہ سے ایک ڈیڈلاک پیدا ہوا اور قومی مفاد میں وزیراعظم نے ہم سے گزارش کی کہ اس معاملے کو اگلی ترمیم کیلیے روک دیا جائے۔ یہ بل مردہ نہیں ہوا، یہ زندہ ہے۔ جیسے 26ویں ترمیم کے بعد یہ زندہ رہا، ویسے ہی 27ویں ترمیم کے بعد بھی زندہ ہے۔ عوام کے حقوق کا یہ آئینی بل آنے والے مہینوں میں اسمبلی میں آئے گا اور عوام کے گھروں تک اختیارات اور وسائل پہنچیں گے۔ مصطفی کمال نے کراچی کے معاشی استحصال پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کراچی کو 2006ء تک جی ایس ٹی کا 2.5% براہ راست ملتا تھا بعد میں جی ڈی پی کا 1/6 براہ راست ڈسٹرکٹ کو جاتا تھا لیکن 2010 کی 7ویں این ایف سی ترمیم کے بعد سب پیسہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں پارک ہونے لگا، کراچی کو اس سال 850 ارب روپے ملنے چاہیے تھے جبکہ حقیقت میں 100 ارب روپے بھی نہیں دیے گئے۔ پچھلے 17 سالوں میں کراچی کو 3000 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ مصطفی کمال نے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے تاریخی فیصلے کا حوالہ دیا جس میں سپریم کورٹ نے واضح کیا تھا کہ آرٹیکل 140 اے صرف ایک روایتی شق نہیں، بلکہ آئین کی اس روح کی علامت ہے جو عوام کو بااختیار بنانے کا تقاضا کرتی ہے۔ بلدیاتی حکومتیں آئینی ادارے ہیں اور صوبے ان کے اختیارات ختم نہیں کر سکتے۔ جسٹس گلزار احمد کے فیصلے نے یہ مؤقف مضبوط کیا کہ اختیارات کی مرکزیت قومی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اور پاکستان میں دیرپا ترقی اسی وقت ممکن ہے جب شہر اپنے فیصلے خود کر سکیں۔