بلوچستان میں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پشین اسٹاپ کے قریب حالی روڈ پر خودکش بم دھماکے میں تین ایف سی اہلکاروں سمیت گیارہ افراد شہید جب کہ آٹھ اہلکاروں اور پانچ خواتین سمیت 35 افراد زخمی ہوگئے۔
جن میں بعض کی حالت تشویش ناک ہے، خود کش حملہ آور کے علاوہ فورسز کی بروقت کارروائی میں پانچ دہشت گرد ہلاک کردیے گئے ہیں جن کے قبضے سے اسلحہ اورگولہ بارود برآمد ہوا۔
بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کو مکمل بھارتی مدد حاصل ہونے کی وجہ سے دہشت گرد حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ کالعدم تنظیمیں بھارتی مدد سے مسلسل نہتے بے گناہ بلوچوں کا قتل عام کررہی ہیں جو بلوچ نسل کشی کی ایک بدترین مثال ہے۔ ملک دشمن اور ان کے سہولت کار دہشت گردوں کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا کرتے ہیں۔
صوبہ بلوچستان قیام پاکستان کے ساتھ ہی کئی طرح کی بیرونی سازشوں کا شکار ہوا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ازلی دشمن بھارت نے اس صوبے کو خاص طور پر نشانہ بنایا، پہلے آزاد بلوچستان کی چنگاری سلگائی پھر اس کو ہوا دی گئی۔ دوسری بھارت کی عالمی دہشت گردی صرف بلوچستان، پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وہ پورے خطے کو نشانہ بنا رہا ہے۔ عالمی شواہد اور اعداد وشمار واضح کرتے ہیں کہ بھارت عالمی سطح پر دہشت گردی کا پورا نیٹ ورک چلا رہا ہے۔
ایک طرف وہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہورہا ہے تو دوسری طرف اس نے خود اپنے ملک کے اندر اقلیتوں کا جینا دوبھرکردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھوٹان،سری لنکا،چین ، بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھارتی دراندازی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ عالمی سطح پر بھارتی دہشت گردی،ٹارگٹ کلنگ،ماورائے عدالت قتل اور دوست ممالک کے ساتھ دھوکا دہی کے بے شمار واقعات عالمی میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔
بلوچستان میں بھارتی اسپانسرڈ پراکسیز کی معاونت سے دہشت گرد کارروائیاں ایک بار پھر بے نقاب ہو گئی ہیں۔ معرکہ حق ’’آپریشن بنیان مرصوص‘‘ میں تاریخی شکست کے بعد مودی سرکار بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے، جس کے نتیجے میں فتنہ الہندوستان بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کی سرپرست اعلیٰ بن گئی ہے۔
بھارتی خفیہ ایجنسیاں پراکسیزکو مالی معاونت فراہم کر تی ہیں، بھارتی اسپانسرڈ پراکسیز نہ صرف حملوں کی منصوبہ بندی کرتی ہیں بلکہ کالعدم تنظیموں کو تربیت اور اسلحہ بھی فراہم کرتی ہیں۔ بھارتی اسپانسرڈ پراکسیز کے کالعدم تنظیموں کے علاج معالجے کے ساتھ ساتھ سرکاری روابط بھی قائم ہیں، بھارتی حکومت کے ساتھ ساتھ بھارتی میڈیا بھی دہشت گردوں کی پشت پناہی میں پیش پیش ہے۔
پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کی خبر سب سے پہلے بھارتی میڈیا دیتا ہے، دہشت گردانہ حملے کی خبر بھارتی ذرایع ابلاغ کے اکاؤنٹس سے جاری ہوتی ہے جسے بھارتی میڈیا پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ بھارتی چینلز کے اینکرز نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ کالعدم تنظیموں کا دفتر دہلی میں ہونا چاہیے، بھارتی حکومت ان کالعدم تنظیموں کو سرکاری سطح پر معاونت فراہم کرے تاکہ پاکستان کی علاقائی سالمیت اور داخلی خودمختاری کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھا چکا ہے، آج ہمیں بیرونی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا سامنا ہے، ٹی ٹی پی، فتنہ الخوارج، فتنہ الہندوستان، بی ایل اے اور اس کی مجید بریگیڈ کی دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں، یہ گروہ افغان سرزمین سے آپریٹ کرتے ہیں اور جعفر ایکسپریس جیسے ہولناک حملوں کے ذمے دار ہیں۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناقابلِ تردید قربانیاں دی ہیں اور اس کا اقتصادی خرچہ بھی بھاری رہا۔ اندازے کے مطابق ایک سو پچاس ارب ڈالر سے زائد کا نقصان۔ یہ وہ خسارہ ہے جس نے معاشی ترقی ، ملک کی بنیادی ترقیاتی منصوبہ بندی اور عوامی فلاح و بہبود کے پروگرامز کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔
کینیڈا جیسے ملٹی نیشنل ملک میں گھس کر سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کا قتل بھی بھارتی ریاستی دہشت گردی کی ایک حالیہ مثال ہے۔ حماس اسرائیل جنگ میں انسان دشمنی کی بنیاد پر اسرائیل کا ساتھ دینے اور مظلوم فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری پر خوشی کا اظہار کرنے پر بھارت پوری دنیا کے باشعور اور انسان دوست معاشروں کا اعتماد کھو چکا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے پاکستان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے بھارت کا گھناؤنا کردار بے نقاب کیا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق بھارت پاکستان میں دہشت گردکارروائیوں کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔
پاکستان کی سلامتی کو کسی بھی طریقے سے نقصان پہنچانے کا بھارتی ایجنڈا تو قیام پاکستان کے وقت ہی طے پا گیا تھا جس پر عمل کرنے میں بھارت کی کسی بھی حکومت نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس ایجنڈے کے تحت ہی پاکستان پر تین باقاعدہ جنگیں مسلط کی گئیں۔1971 کی جنگ میں بھارتی پروردہ دہشت گرد اور عسکری تنظیم مکتی باہنی کی معاونت سے پاکستان کو دولخت کیا گیا جس کے بعد بھارت باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہوگیا۔
اس نے آبی دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو کبھی سیلاب میں ڈبونے اورکبھی بھوکا پیاسامارنے کی سازشیں کیں اور پھر باقاعدہ دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو ٹارگٹ کرنا شروع کردیا گیا۔ بھارت نے افغان حکومت کی معاونت سے افغان سرزمین کو اپنے دہشت گردوں کی تربیت اور انھیں افغان سرحد سے پاکستان میں داخل کرنے کے لیے استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے جس میں افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت بھی اس کی شریک کار بن چکی ہے۔
اس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے جب کہ پاکستانی خفیہ ادارے دہشت گردی کی ان وارداتوں میں بھارت اور افغان حکومت کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد اکٹھے کرکے اقوام متحدہ سیکریٹریٹ،امریکی دفتر خارجہ اور دوسرے عالمی اور علاقائی فورمز کو فراہم کرچکے ہیں۔کچھ عرصہ قبل بھارت کے فوجی سربراہ نے ناعاقبت اندیش بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے اور بھارت کے زیر قبضہ جموں کشمیر میں جو خون ریزی ہورہی ہے وہ پاکستان کے ایماء پر ہورہی ہے‘‘بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اس سے بھی چند قدم آگے بڑھ کر کہا کہ ’’پاکستان بھارت کو غیر مستحکم کرنے میں مستقل لگا ہوا ہے۔‘‘ ان جاہلانہ، اشتعال انگیز اور حقیقت سے عاری بیانات کا آئی ایس پی آر اور وزارت خارجہ پاکستان نے دندان شکن جواب دیا۔ اس طرح کی من گھڑت کہانیاں بھارت کے سیاست دان اور فوجی قیادت کی گھٹی میں ماضی سے لے کر آج تک شامل رہی ہیں جس کے نتیجے انھیں ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی ہے۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف طویل اور صبر آزما جنگ لڑی ہے، جس میں ہمارے ہزاروں فوجی، سویلین اور معصوم بچے شہید ہوئے ہیں۔ اس قربانی کے نتیجے میں ملک میں امن کی بحالی ممکن ہوئی ہے۔ اس وقت پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور انٹیلیجنس ادارے پوری طرح چوکنا ہیں اور دشمن کے ہر وار کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی برادری بھارت کی ان کارروائیوں کا سختی سے نوٹس لے اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے انصاف پر مبنی کردار ادا کرے۔ پاکستان امن کا داعی ضرور ہے، مگر اپنی خود مختاری، سلامتی اور عوام کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
ریاستی دہشت گردی کو ریاستی سطح پر ہی جواب ملے گا اور پاکستان اس باب کو بند کرنے کا پختہ ارادہ رکھتا ہے۔اس پس منظر میں بیرونی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی ایک قومی سانحہ ہے جس کا سامنا ہم متحدہ عزم اور ٹھوس حکمتِ عملی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ محض داخلی انتشار یا سرفہرست عسکری چالوں کا معاملہ نہیں، یہ ایک علاقائی اور بین الاقوامی چیلنج ہے جس کے حل کے لیے عالمی برادری کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ سرپرستی اور سرحدوں کے پار موجود معاونت کو روکے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے ٹھوس شواہد بین الاقوامی فورمز پر پیش کریں اور دنیا کو واضح کریں کہ ریاستی دہشت گردی کے اس قسم کے نتائج نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے خطرناک ہیں۔
خاموشی یا مبہم بیانات صرف ان سازشوں کو ہوا دیتے ہیں۔بہتر قومی دفاع کے ساتھ ساتھ ہمیں داخلی سطح پر بھی کمزوریوں کو دور کرنا ہوگا۔ معاشی استحکام، روزگار کے مواقع، تعلیم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینا لازمی ہے تاکہ بنیادیں مضبوط رہیں اور عسکریت پسندی کے بیج پروان نہ چڑھ سکیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طاقت اور خفیہ معلومات کے نظام کو مزید تقویت دینا اور سرحدی نگرانی کو مربوط بنانا وقت کی ضرورت ہے۔پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنے عوام اور خود مختاری کے تحفظ کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ قبول نہیں کرے گا۔
دہشت گردی کی جڑیں جو بیرونی سرپرستی سے مضبوط ہوئیں، انھیں بین الاقوامی تعاون اور داخلی پالیسیوں کے ذریعے منہدم کیا جائے گا۔ قوم کا حوصلہ، افواج کی بہترین صلاحیت اور حکومت کا عزم مل کر اس مہم کو کامیابی کی راہ پر گامزن کریں گے ، تاکہ آیندہ نسلیں دہشت گردی اور انتشار سے آزاد، خوشحال اور باعزت زندگی گزار سکیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان میں دہشت گرد ریاستی دہشت گردی بھارتی اسپانسرڈ کالعدم تنظیموں بلوچستان میں بین الاقوامی دہشت گردی کی دہشت گردی کے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا میں بھارتی پاکستان کے پاکستان کی میں بھارت کے نتیجے کے ذریعے فراہم کر ہیں اور اور ان کے لیے
پڑھیں:
طالبان کے وزیرِ خارجہ کا اگلے ہفتے بھارت کا دورہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) ایک بڑی اور اہم پیش رفت میں جو خطے کی جغرافیائی سیاست کو بدل سکتی ہے، طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی 9 اکتوبر کو بھارت کا دورہ کریں گے۔ یہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کابل سے نئی دہلی کا پہلا اعلیٰ سطحی دورہ ہو گا، جو بھارت اور طالبان کے درمیان تعلقات کے نئے مرحلے کو ظاہر کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تصدیق کی ہے کہ متقی کو بین الاقوامی سفری پابندیوں سے عارضی استثنیٰ دیا گیا ہے، جس کے تحت وہ 9 سے 16 اکتوبر کے درمیان نئی دہلی کا دورہ کر سکیں گے۔ یہ استثنیٰ اس دورے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے جسے طالبان انتظامیہ اور خطے کی دیگر طاقتیں دونوں ہی اہم سمجھتی ہیں۔
(جاری ہے)
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی سفارتی حلقے کئی مہینوں سے اس لمحے کی تیاری کر رہے تھے۔
جنوری سے ہی بھارتی حکام بشمول خارجہ سیکرٹری وکرم مِسری اور سینیئر آئی ایف ایس افسر جے پی سنگھ نے امیر خان متقی اور دیگر طالبان رہنماؤں کے ساتھ کئی مذاکرات کیے، جو اکثر دبئی جیسے غیر جانبدار مقامات پر ہوئے۔ دبئی میں وکرم مِسری اور افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے درمیان ملاقات میں افغانستان کے لیے بھارت کی جاری انسانی ہمدردی، خاص طور پر صحت کے شعبے اور پناہ گزینوں کی بحالی پر۔ پر مبنی امداد پر بات ہوئی۔اصل موڑ 15 مئی کو، بھارت کے پاکستان کے خلاف آپریشن سیندور کے فوراً بعد آیا، جب بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے امیر خان متقی سے فون پر بات کی۔ یہ 2021 کے بعد پہلی وزارتی سطح کی بات چیت تھی۔ اس موقع پر جے شنکر نے پہلگام دہشت گرد حملے کی طالبان کی مذمت پر ان کا شکریہ ادا کیا اور افغان عوام کے ساتھ بھارت کی ''روایتی دوستی‘‘ کو دہرایا۔
بھارت کے طالبان سے بڑھتے تعلقاتاس سے قبل اپریل میں طالبان نے کابل میں بھارتی حکام کے ساتھ اعلیٰ سطحی اجلاس میں پہلگام حملے کی مذمت کی تھی، جہاں بھارت نے اس حملے کی تفصیلات شیئر کیں۔ بھارت کے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک اہم اشارہ تھا کہ بھارت اور افغانستان دہشت گردی کے معاملے پر ایک ہی صفحے پر ہیں۔
اس کے بعد بھارت نے افغانستان کو براہِ راست انسانی امداد میں اضافہ کیا، جس میں غذائی اجناس، ادویات اور ترقیاتی تعاون شامل ہے۔
ستمبر میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد بھارت سب سے پہلے امداد بھیجنے والوں میں شامل تھا، جس نے فوری طور پر ایک ہزار خیمے اور 15 ٹن خوراک متاثرہ صوبوں کو روانہ کی۔ اس کے بعد مزید 21 ٹن امدادی سامان بھیجا گیا جس میں ادویات، صفائی کے کٹس، کمبل اور جنریٹر شامل تھے۔ اسے افغان عوام کی مدد کے لیے بھارت کے عزم کا اظہار قرار دیا گیا۔
اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بھارت تقریباً 50 ہزار ٹن گندم، 330 ٹن سے زائد ادویات اور ویکسینز، اور 40 ہزار لیٹر جراثیم کش ادویات فراہم کر چکا ہے۔ یہ مستقل کوششیں لاکھوں افغان عوام کو خوراک کی کمی، صحت کے مسائل اور انسانی بحران سے نمٹنے میں اہم سہارا فراہم کر رہی ہیں۔
پاکستان کے لیے دھچکا؟بھارتی تجزیہ کار اس دورے کو پاکستان کے لیے ایک دھچکا قرار دے رہے ہیں۔
کیونکہ پاکستان طویل عرصے سے کابل پر اثر و رسوخ قائم رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اس سال کے اوائل میں اسلام آباد کی جانب سے 80 ہزار سے زائد افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے نے طالبان کے ساتھ تعلقات کشیدہ کر دیے تھے، جس سے بھارت کو زیادہ فعال کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔تجزیہ کاروں کے مطابق متقی کی نئی دہلی آمد کابل کی پاکستان پر انحصار کم کرنے اور اپنے تعلقات کو متنوع بنانے کی خواہش کی علامت ہے۔
بھارت کے لیے یہ دورہ ایک نازک لیکن حکمتِ عملی پر مبنی قدم بتایا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کے ساتھ براہِ راست تعلقات بھارت کو افغانستان میں اپنے طویل مدتی مفادات کے تحفظ، خطے سے دہشت گردی کے خطرات روکنے، اور چین و پاکستان کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔
افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے دورے کے دوران ہونے والی دوطرفہ ملاقات کو ایک ایسا موڑ سمجھا جا رہا ہے جو بھارت اور افغانستان کو محتاط تعاون کی نئی راہ پر گامزن کر سکتا ہے، ایک ایسی راہ جو پورے جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو دوبارہ ترتیب دے سکتی ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین