Express News:
2025-11-18@21:29:01 GMT

بلوچستان میں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی

اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پشین اسٹاپ کے قریب حالی روڈ پر خودکش بم دھماکے میں تین ایف سی اہلکاروں سمیت گیارہ افراد شہید جب کہ آٹھ اہلکاروں اور پانچ خواتین سمیت 35 افراد زخمی ہوگئے۔

جن میں بعض کی حالت تشویش ناک ہے، خود کش حملہ آور کے علاوہ فورسز کی بروقت کارروائی میں پانچ دہشت گرد ہلاک کردیے گئے ہیں جن کے قبضے سے اسلحہ اورگولہ بارود برآمد ہوا۔

 بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کو مکمل بھارتی مدد حاصل ہونے کی وجہ سے دہشت گرد حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ کالعدم تنظیمیں بھارتی مدد سے مسلسل نہتے بے گناہ بلوچوں کا قتل عام کررہی ہیں جو بلوچ نسل کشی کی ایک بدترین مثال ہے۔ ملک دشمن اور ان کے سہولت کار دہشت گردوں کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا کرتے ہیں۔

صوبہ بلوچستان قیام پاکستان کے ساتھ ہی کئی طرح کی بیرونی سازشوں کا شکار ہوا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ازلی دشمن بھارت نے اس صوبے کو خاص طور پر نشانہ بنایا، پہلے آزاد بلوچستان کی چنگاری سلگائی پھر اس کو ہوا دی گئی۔ دوسری بھارت کی عالمی دہشت گردی صرف بلوچستان، پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وہ پورے خطے کو نشانہ بنا رہا ہے۔ عالمی شواہد اور اعداد وشمار واضح کرتے ہیں کہ بھارت عالمی سطح پر دہشت گردی کا پورا نیٹ ورک چلا رہا ہے۔

ایک طرف وہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہورہا ہے تو دوسری طرف اس نے خود اپنے ملک کے اندر اقلیتوں کا جینا دوبھرکردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھوٹان،سری لنکا،چین ، بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھارتی دراندازی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ عالمی سطح پر بھارتی دہشت گردی،ٹارگٹ کلنگ،ماورائے عدالت قتل اور دوست ممالک کے ساتھ دھوکا دہی کے بے شمار واقعات عالمی میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔

 بلوچستان میں بھارتی اسپانسرڈ پراکسیز کی معاونت سے دہشت گرد کارروائیاں ایک بار پھر بے نقاب ہو گئی ہیں۔ معرکہ حق ’’آپریشن بنیان مرصوص‘‘ میں تاریخی شکست کے بعد مودی سرکار بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے، جس کے نتیجے میں فتنہ الہندوستان بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کی سرپرست اعلیٰ بن گئی ہے۔

بھارتی خفیہ ایجنسیاں پراکسیزکو مالی معاونت فراہم کر تی ہیں، بھارتی اسپانسرڈ پراکسیز نہ صرف حملوں کی منصوبہ بندی کرتی ہیں بلکہ کالعدم تنظیموں کو تربیت اور اسلحہ بھی فراہم کرتی ہیں۔ بھارتی اسپانسرڈ پراکسیز کے کالعدم تنظیموں کے علاج معالجے کے ساتھ ساتھ سرکاری روابط بھی قائم ہیں، بھارتی حکومت کے ساتھ ساتھ بھارتی میڈیا بھی دہشت گردوں کی پشت پناہی میں پیش پیش ہے۔

پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کی خبر سب سے پہلے بھارتی میڈیا دیتا ہے، دہشت گردانہ حملے کی خبر بھارتی ذرایع ابلاغ کے اکاؤنٹس سے جاری ہوتی ہے جسے بھارتی میڈیا پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ بھارتی چینلز کے اینکرز نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ کالعدم تنظیموں کا دفتر دہلی میں ہونا چاہیے، بھارتی حکومت ان کالعدم تنظیموں کو سرکاری سطح پر معاونت فراہم کرے تاکہ پاکستان کی علاقائی سالمیت اور داخلی خودمختاری کو نقصان پہنچایا جا سکے۔

دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھا چکا ہے، آج ہمیں بیرونی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا سامنا ہے، ٹی ٹی پی، فتنہ الخوارج، فتنہ الہندوستان، بی ایل اے اور اس کی مجید بریگیڈ کی دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں، یہ گروہ افغان سرزمین سے آپریٹ کرتے ہیں اور جعفر ایکسپریس جیسے ہولناک حملوں کے ذمے دار ہیں۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناقابلِ تردید قربانیاں دی ہیں اور اس کا اقتصادی خرچہ بھی بھاری رہا۔ اندازے کے مطابق ایک سو پچاس ارب ڈالر سے زائد کا نقصان۔ یہ وہ خسارہ ہے جس نے معاشی ترقی ، ملک کی بنیادی ترقیاتی منصوبہ بندی اور عوامی فلاح و بہبود کے پروگرامز کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔

 کینیڈا جیسے ملٹی نیشنل ملک میں گھس کر سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کا قتل بھی بھارتی ریاستی دہشت گردی کی ایک حالیہ مثال ہے۔ حماس اسرائیل جنگ میں انسان دشمنی کی بنیاد پر اسرائیل کا ساتھ دینے اور مظلوم فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری پر خوشی کا اظہار کرنے پر بھارت پوری دنیا کے باشعور اور انسان دوست معاشروں کا اعتماد کھو چکا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے پاکستان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے بھارت کا گھناؤنا کردار بے نقاب کیا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق بھارت پاکستان میں دہشت گردکارروائیوں کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔

 پاکستان کی سلامتی کو کسی بھی طریقے سے نقصان پہنچانے کا بھارتی ایجنڈا تو قیام پاکستان کے وقت ہی طے پا گیا تھا جس پر عمل کرنے میں بھارت کی کسی بھی حکومت نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس ایجنڈے کے تحت ہی پاکستان پر تین باقاعدہ جنگیں مسلط کی گئیں۔1971 کی جنگ میں بھارتی پروردہ دہشت گرد اور عسکری تنظیم مکتی باہنی کی معاونت سے پاکستان کو دولخت کیا گیا جس کے بعد بھارت باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہوگیا۔

اس نے آبی دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو کبھی سیلاب میں ڈبونے اورکبھی بھوکا پیاسامارنے کی سازشیں کیں اور پھر باقاعدہ دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو ٹارگٹ کرنا شروع کردیا گیا۔ بھارت نے افغان حکومت کی معاونت سے افغان سرزمین کو اپنے دہشت گردوں کی تربیت اور انھیں افغان سرحد سے پاکستان میں داخل کرنے کے لیے استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے جس میں افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت بھی اس کی شریک کار بن چکی ہے۔

اس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے جب کہ پاکستانی خفیہ ادارے دہشت گردی کی ان وارداتوں میں بھارت اور افغان حکومت کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد اکٹھے کرکے اقوام متحدہ سیکریٹریٹ،امریکی دفتر خارجہ اور دوسرے عالمی اور علاقائی فورمز کو فراہم کرچکے ہیں۔کچھ عرصہ قبل بھارت کے فوجی سربراہ نے ناعاقبت اندیش بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے اور بھارت کے زیر قبضہ جموں کشمیر میں جو خون ریزی ہورہی ہے وہ پاکستان کے ایماء پر ہورہی ہے‘‘بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اس سے بھی چند قدم آگے بڑھ کر کہا کہ ’’پاکستان بھارت کو غیر مستحکم کرنے میں مستقل لگا ہوا ہے۔‘‘ ان جاہلانہ، اشتعال انگیز اور حقیقت سے عاری بیانات کا آئی ایس پی آر اور وزارت خارجہ پاکستان نے دندان شکن جواب دیا۔ اس طرح کی من گھڑت کہانیاں بھارت کے سیاست دان اور فوجی قیادت کی گھٹی میں ماضی سے لے کر آج تک شامل رہی ہیں جس کے نتیجے انھیں ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی ہے۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف طویل اور صبر آزما جنگ لڑی ہے، جس میں ہمارے ہزاروں فوجی، سویلین اور معصوم بچے شہید ہوئے ہیں۔ اس قربانی کے نتیجے میں ملک میں امن کی بحالی ممکن ہوئی ہے۔ اس وقت پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور انٹیلیجنس ادارے پوری طرح چوکنا ہیں اور دشمن کے ہر وار کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی برادری بھارت کی ان کارروائیوں کا سختی سے نوٹس لے اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے انصاف پر مبنی کردار ادا کرے۔ پاکستان امن کا داعی ضرور ہے، مگر اپنی خود مختاری، سلامتی اور عوام کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

ریاستی دہشت گردی کو ریاستی سطح پر ہی جواب ملے گا اور پاکستان اس باب کو بند کرنے کا پختہ ارادہ رکھتا ہے۔اس پس منظر میں بیرونی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی ایک قومی سانحہ ہے جس کا سامنا ہم متحدہ عزم اور ٹھوس حکمتِ عملی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ محض داخلی انتشار یا سرفہرست عسکری چالوں کا معاملہ نہیں، یہ ایک علاقائی اور بین الاقوامی چیلنج ہے جس کے حل کے لیے عالمی برادری کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ سرپرستی اور سرحدوں کے پار موجود معاونت کو روکے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے ٹھوس شواہد بین الاقوامی فورمز پر پیش کریں اور دنیا کو واضح کریں کہ ریاستی دہشت گردی کے اس قسم کے نتائج نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے خطرناک ہیں۔

خاموشی یا مبہم بیانات صرف ان سازشوں کو ہوا دیتے ہیں۔بہتر قومی دفاع کے ساتھ ساتھ ہمیں داخلی سطح پر بھی کمزوریوں کو دور کرنا ہوگا۔ معاشی استحکام، روزگار کے مواقع، تعلیم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینا لازمی ہے تاکہ بنیادیں مضبوط رہیں اور عسکریت پسندی کے بیج پروان نہ چڑھ سکیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طاقت اور خفیہ معلومات کے نظام کو مزید تقویت دینا اور سرحدی نگرانی کو مربوط بنانا وقت کی ضرورت ہے۔پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنے عوام اور خود مختاری کے تحفظ کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ قبول نہیں کرے گا۔

دہشت گردی کی جڑیں جو بیرونی سرپرستی سے مضبوط ہوئیں، انھیں بین الاقوامی تعاون اور داخلی پالیسیوں کے ذریعے منہدم کیا جائے گا۔ قوم کا حوصلہ، افواج کی بہترین صلاحیت اور حکومت کا عزم مل کر اس مہم کو کامیابی کی راہ پر گامزن کریں گے ، تاکہ آیندہ نسلیں دہشت گردی اور انتشار سے آزاد، خوشحال اور باعزت زندگی گزار سکیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان میں دہشت گرد ریاستی دہشت گردی بھارتی اسپانسرڈ کالعدم تنظیموں بلوچستان میں بین الاقوامی دہشت گردی کی دہشت گردی کے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا میں بھارتی پاکستان کے پاکستان کی میں بھارت کے نتیجے کے ذریعے فراہم کر ہیں اور اور ان کے لیے

پڑھیں:

دہشت گردی کی حالیہ لہر …نمٹنے کیلئے قومی وحدت ناگزیر ہے !!

ملک میںدہشت گردی کی ایک نئی لہر آئی ہے جس میں وانا میں کیڈٹ کالج اور اسلام آباد میں جوڈیشل کمپلیکس پر حملے شامل ہیں۔ وانا کیڈٹ کالج میں سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی سے تمام بچوں کو تحفظ مقام پر منتقل اور دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا

۔دوسری طرف اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس پر حملے میں 12 افراد شہید اور دو درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ سکیورٹی فورسز دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے بڑے اقدامات کر رہی ہیں۔

گزشتہ دنوں خیبر پختونخوا پولیس اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے ضلع بنوں اور لکی مروت میں 7 خوارج کو ہلاک کیا جبکہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز بھی جاری ہیں۔ ان تمام واقعات کے پیش نظر ’’ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر اور تدارک کیلئے اقدامات‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی معاشی اور دفاعی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

کرنل (ر) فرخ چیمہ

(دفاعی تجزیہ کار)

وطن عزیز میں گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کا ناسور موجود ہے جسے کئی بار ختم کیا گیا لیکن یہ کہیں نہ کہیں سے پھوٹ پڑتا ہے۔ دہشگت گردی کی جڑیں کسی ایک جگہ نہیں ہوتیں لہٰذا سب سے پہلے ہمیں بین الاقوامی معاملات کا جائزہ لینا ہے۔اس خطے میں بڑی طاقتیں دلچسپی رکھتی ہیں۔

ان کی توجہ اس خطے خصوصاََ ایران، پاکستان اور افغانستان میں عدم استحکام پیدا کرکے یہاں کی معدنیات اور اپنے سٹرٹیجک اہداف حاصل کرنے پر ہے۔ اس کیلئے بین الاقوامی طاقتیںاپنا زور لگا رہی ہیں اور ان کے درمیان بھی رسہ کشی جاری ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ علاقائی طاقتیں کیا چاہتی ہیں۔ افغانستان اور بھار ت کا گٹھ جوڑ ہمیشہ سے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اورعالمی فوائد حاصل کرنے کیلئے کام کرتا ہے۔ جونہی افغانستان اور ہمارے درمیان معاملات کشیدہ ہوئے تو بھارت نے اس کا فائدہ اٹھانا شروع کر دیا۔

حال ہی میں دہشت گردی کے دو بڑے واقعات ہوئے ہیں، ایک وانا میں کیڈٹ کالج پر اور دوسرا اسلام آباد میں کچہری پر حملہ ہوا۔ کیڈٹ کالج پر پہلے خودکش دھماکہ ہوا اور پھر حملہ کیا گیا، اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارے حملہ آور جہنم واصل کیے گئے ، ہمارا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ دوسری طرف اسلام آباد کچہری پر خودکش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں درجن کے قریب افراد شہید اور دو درجن سے زائد زخمی ہوئے۔

یہ کہنا کہ آج تک دہشت گردوں کو روکا کیوں نہیں گیا درست نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب خودکش بمبار خود کو تیار کرکے نکل پڑے تو وہ نقصان کرکے ہی جاتا ہے۔ اگر اسے ٹارگٹ پر پہنچنے سے پہلے اسے روکا جائے یا تیاری سے پہلے ہی پکڑ لیا جائے تو بچت ہوسکتی ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ہماری سکیورٹی فورسز نے خودکش بمبار کو پہلے ہی گولی سے اڑا دیا۔ اب دہشت گردی کی حالیہ لہر میں دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے کہ دہشت گردی سے خود کو محفوظ کر سکیں۔ہماری انٹیلی جنس ادارے اور فورسز بہترین کام کر رہی ہیں، ہمیں اپنی انٹیلی جنس کو مزید تیز کرنا ہے۔

ہمیں کسی بھی ممکنہ حملے سے پہلے ہی اس کو روکنا ہے۔ اس کیلئے عوام کی شمولیت اور تعاون بہت ضروری ہے۔ عوام اداروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، اسے مزید بہتر بنانا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر ہم صرف لاہور کے سکولوں کا جائزہ لیں تو وہاں سکیورٹی کی صورتحال بہتر نہیں ہے۔

کسی کو نہیں معلوم کہ اگر خدانخواستہ کوئی مشکل صورتحال پیدا ہوجاتی ہے تو کیا کرنا ہے، اس سے کیسے نمٹنا ہے، رپورٹ کیسے کرنا ہے، بچوں کو محفوظ راستہ کیسے دینا ہے؟ اس وقت ہمیں تیاری کی اشد ضرورت ہے، ہمیں لوگوں کو سمجھانا اور تیار کرنا ہے، پھر ہی یہ دہشت گردی کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکیں گے۔ ہمیں ملک اور ملک سے باہر اپنے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید بہتر کرنا ہے اور سفارتی سطح پر بھی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتا ہے، آئندہ بھی جیتے گا، انشاء اللہ!

ڈاکٹر قیس اسلم

(ماہر معاشیات)

جب سے جنرل ضیاء الحق نے سوویت یونین کے خلاف امریکا کے تعاون سے لڑائی کا آغاز کیا تب سے آج تک، ہمارے ہاں دہشت گردی ختم نہیں ہوئی۔ کئی برس تک خیبر پختونخوا میں روزانہ دہشت گردی کے واقعات ہوئے ، پھر بیرونی طاقتوں نے بلوچستان نیشنل آرمی کی فنڈنگ کی تو بلوچستان میں بھی دہشت گردی شروع ہوگئی۔

ہندوستان سے ہماری لڑائی پرانی ہے،ا س کے ساتھ کئی جنگیں بھی ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ملک میں مسائل پیدا ہوئے اور سافٹ ٹارگٹس پر دہشت گردی ہوئی۔ ہماری بہادر افواج نے دہشت گردی کے خلاف ملک بھر میں کارروائیاں کی ہیں، بڑے آپریشنز بھی کیے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں متعدد بڑے آپریشنز ہوچکے ہیں۔ امریکا کی افغانستان میں جنگ کے برے اثرات بھی پاکستان پر پڑے ہیں۔ یہاں طالبان بنے ، وہ استعمال ہوئے اور ہمارے لیے مزید مسائل پیدا ہوگئے۔ آج بھی طالبان کی وجہ سے دہشت گردی ہو رہی ہے، تحریک طالبان پاکستان یہاں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔

دہشت گردی کی ایک وجہ غربت بھی ہے۔ پاکستان میں غربت کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے، بے روزگاری بھی ہے۔ دہشت گرد جو افغانستان میں بیٹھے ہیں، جنہیں بھارت و دیگر مالی تعاون فراہم کر رہے ہیں،وہ 5 لاکھ سے 50 لاکھ روپے میں بچے خرید لیتے ہیں اور ان سے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ عراق اور شام میں داعش بنی۔ اس کا خراسانی حصہ پاکستان اور افغانستان میں آیا ، تحریک طالبان پاکستان بھی یہاں موجود تھی۔

امریکا جب افغانستان سے گیا تو یہ سب افغانستان میں چلے گئے اور اب وہاں سے آپریٹ کرتے ہیں۔ طالبان حکومت ان سے فائدہ بھی اٹھاتی ہے۔ افغانستان میں بعض جگہ تو حکومتیں بھی مختلف گروہوں کی ہیں۔ رواں برس مئی میں ہم نے بھارت کو بدترین شکست دی، اس کے جہاز گرائے جس سے عالمی سطح پر اس کی سبکی ہوئی۔ اپنی خفت مٹانے کیلئے اس نے ان گروہوں کی مدد شروع کر دی ہے۔ جب ہم نے 3 ملین سے زائد افغان مہاجرین کو واپس بھیجنا شروع کیا تو ان کے مسائل پیدا ہوئے،ا فغانستان نے ان کا بدلہ بھی ہم سے لینا شروع کیا ہے۔

یہ سب دہشت گردی کی نئی لہر کے عوامل ہیں۔ ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں 80 ہزار سے زائد قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے بچے محفوظ نہیں ہیں۔ پہلے آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ ہوا تھا، اب کیڈٹ کالج وانا پر حملہ کیا گیا۔ اس مرتبہ شکر ہے کہ ہمارا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی سے سب محفوظ رہے اور دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا۔ دہشت گرد ظالم لوگ ہیں۔ افغانستان میں ان لوگوں کا روزگار ہی قتل و غارت، اغواء برائے تاوان جیسی وارداتوں سے جڑا ہے۔

ہم ان کا قلع قمع تو کرتے رہے ہیں لیکن غربت کی وجہ سے دونوں اطراف کے لوگ استعمال ہوجاتے ہیں۔ دہشت گردی کی وجہ سے یہاں بیرونی سرمایہ کاری نہیں آتی۔ چین بھی رکا ہوا ہے، بڑی کمپنیاں یہاں سے جا رہی ہیں۔ ہم نے اپنی معیشت کو ٹھیک نہیں کیا۔ یہاں گورننس کے مسائل بھی ہیں۔ عوام اور حکومت کے درمیان عدم اعتماد کا معاملہ بھی ہے۔ صوبوں اور وفاق کے درمیان لڑائی بھی موجود ہے۔ فاٹا کے عوام کو ان کا حق نہیں مل رہا۔ بلوچستان کی معدنیات کا فائدہ ان کے عوام نہیں وڈیروں کو مل رہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ ہماری تجارت تھی،ا سے بند کرنے سے نقصان ہو رہا ہے۔ انار 1500 روپے ، ٹماٹر 500 روپے اور پیاز 250 روپے فی کلو تک مہنگا ہوگیا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری فصلیں تو سیلاب کی نذر ہوگئیں، یہ سبزیاں افغانستان سے آتی تھیں، تجارت بند ہونے سے یہاں قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا۔ افغانستان اور ایران سے سمگلنگ تو ہو رہی ہے لیکن اصل تجارت کو نقصان ہوا ہے۔ اس وقت ہمیںخطے کے تمام ممالک سے تعلقات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے ساتھ مذاکرات اس لیے ڈیڈلاک کا شکار ہوئے کیونکہ افغان حکومت دہشت گرد گروہوں پر قابو نہیں پاسکتی۔میرے نزدیک گفتگو صرف ان گروہوں سے ہو سکتی ہے جو ہتھیار پھینک دیں، دہشت گردوں سے بات چیت نہیں ہوسکتی۔ ہمیں افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملے کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ ایسے بے شمار افراد ہیں جو یہاں کاروبار کر رہے ہیں، ان کی شادیاں یہاں ہوئی ہیں، بچے یہاں پیدا ہوئے، ان کے زندگی کے معاملات یہاں سے جڑے ہیں۔

انہیں فوری واپس نہ بھیجیں،ا س کا ہماری معیشت پر برا اثر پڑے گا۔ دہشت گردی اب اسلام آباد تک پہنچ چکی ہے ۔ یہ اس وقت پہنچی جب ملک میں 27 ویں آئینی ترمیم اور عالمی پارلیمانی کانفرنس ہو رہی تھی۔ ہم دنیا کو امن دکھا رہے تھے لیکن دہشت گردی کا افسوسناک واقعہ ہوگیا۔ میرے نزدیک ہمیں بھارت کے ساتھ سنجیدگی سے بات کرنا ہوگی، اب جہاز گرانے کی باتیں چھوڑ کر تجارت کی طرف جانا چاہیے۔ ہمیں ایران کے ساتھ بھی تجارت کو فروغ دینا ہے۔ ہمیں سی پیک منصوبے کو آگے بڑھانا ہے، اس میں افغانستان کوبھی شامل کیا جائے۔ ہمیں خطے کے تمام ممالک کو انگیج کرنا اور تجارت کو فروغ دینا ہے۔ ہمیں اس خطے کے بچوں کو جدید تعلیم، ہنر اور روزگار دینا ہوگا۔ اگر یہ کام ہوگیا تو خطے سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔

ڈاکٹر زمرد اعوان

(ماہر امور خارجہ)

دہشت گردی کے حالیہ حملوں کے بارے میں پاکستان کا موقف یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے جبکہ دوسری طرف افغان حکومت کا موقف ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کا معاملہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، اس میں افغانستان کی سرحد استعمال نہیں ہو رہی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ’بی ایل اے‘ کی پشت پناہی میں بھی افغانستان کا اہم کردار ہے۔

پاک افغان کشیدگی ختم کرنے میں قطر، سعودی عرب اور ترکیہ نے کردار بھی ادا کیا، معاہدہ بھی ہوا لیکن زیادہ دیر چل نہیں سکا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ معاہدہ تو کرلیں لیکن اسے پورا کرنے کیلئے جس کمٹمنٹ کی ضرورت ہے وہ نہ ہو۔ یہاں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس خطے میں امریکا، یورپ اور مغربی طاقتیں جس طریقے سے متحرک رہیں اور افغانستان ہی وہ وجہ تھی جس کیلئے یہ طاقتیں یہاں آئیں، وہ حالات آج نہیں ہیں۔ اب خطے کو خود سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے اور ان مسائل کیلئے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو یقینی بنانا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے نسلی اور مذہبی حوالے سے بھی گہرے تعلقات ہیں۔

خاص طور پر پاکستان میں ایک بہت بڑی آبادی پشتون ہے، سرحدی وقبائلی علاقوں کے لوگوں کی دونوں ممالک میں آپس میں شادیاں اور رشتے داریاں ہیں۔ اس حساب سے دونوں ممالک کو بڑی احتیاط کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اب بات صرف حکومتوں کی کشیدگی کی نہیں ہے بلکہ اس کا اثر دونوں ممالک کی آبادی پر بھی ہو رہا ہے۔ جب بھی پاک افغان کشیدگی ہوتی ہے تو بارڈر بند کر دیا جاتا ہے، تجارت روک دی جاتی ہے جس کا خاص طور پر سرحدی علاقوں میں رہنے والی آبادی پر برا اثر پڑتا ہے۔ یہ اس وقت زیادہ اہم اس لیے ہے کہ فاٹا کے یہ علاقے کچھ عرصہ قبل ہی خیبر پختونخوا میں ضم ہوئے ہیں۔

یہ اپنے حساب سے بہت سارے معاشی اور علاقائی مسائل سے گزر رہے ہیں لہٰذا ضروری یہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں، کشیدگی جتنی بھی ہو، دونوں ممالک بعض معاملات پر اتفاق کر لیں جن میں سب سے پہلا یہ ہے کہ سرحد کسی بھی حالت میں تجارت کیلئے بند نہ کی جائے۔ بہت سارے ٹرک جو بارڈر پر رکے ہوتے ہیں ان میں پھل یا ایسی اشیاء ہوتی ہیں جو خراب ہو جاتی ہیں اور لوگوں کا بڑا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سرحدی آبادی کی معاشی اور انسانی حفاظت بہت ضروری ہے۔افغانستان سے بہت سارے لوگوں کو یہاں سے مدد کی ضرورت ہوتی ہے، ان کے خاندان یہاں ہیں، لوگ علاج کیلئے بھی یہاں آتے ہیں لہٰذا وہ پابندی سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ افغان سرزمین دہشت گرد ی کیلئے استعمال نہیں ہونی چاہیے، دونوں ممالک کو معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیے۔

بھارت کے ساتھ پاکستان کا جنگ کا ماحول رہا۔ اب افغانستان کے ساتھ مسائل پیدا ہو رہے ہیں، پاکستان یہاں سرحدی مسائل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس کیلئے علاقائی تعاون کویقینی بنانا ضروری ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت یہ کا موقف یہ ہے کہ جب تک عوامی نمائندے پالیسی نہیں بنائیں گے تب تک اس خطے میں امن نہیں آسکتا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاہدوں کو لے کر اعتماد کا فقدان ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ ہونے کے باوجود حالات خراب ہوئے۔ دونوں ممالک کی معیشت اس قابل نہیں ہے کہ وہ جنگ کا بوجھ اٹھا سکیں۔ اگر جنگ ہوئی تو خطے میں پھیلے گی جس میں گروہ بندیاں بھی ہوں گی۔ ممکن ہے کہ بھارت افغانستان کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالے لہٰذا پاکستان اور افغانستان دونوں کو اس معاملے میں احتیاط کرنی چاہیے۔  

Tagsپاکستان

متعلقہ مضامین

  • قوم دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاک افواج کے ساتھ کھڑی ہے: وزیراعظم
  • دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے پر عزم ہیں،پوری قوم اپنی افواج کے ساتھ کھڑی ہے:وزیراعظم
  • محسن  نقوی  سے  ملاقات  ‘ پاکستان کیساتھ  تعاون  جاری  رکھیں  گے : چینی  سفیر 
  • چار محاذ، ایک ریاست؛ پاکستان کی بقا کی حقیقی لڑائی
  • دہشت گردی کی حالیہ لہر …نمٹنے کیلئے قومی وحدت ناگزیر ہے !!
  • کینیڈا، امریکا میں بھارتی مبینہ مداخلت سے متعلق نئے انکشافات
  • مودی سرکار کی کینیڈا اور امریکا میں مبینہ مداخلت پر نئے انکشافات
  • پاکستان اور چین میں انسدادِ دہشتگردی، سکیورٹی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • دہشت گردی کی حالیہ لہر ...نمٹنے کیلئے قومی وحدت ناگزیر ہے !!
  • افغانستان اور دہشت گردی