فلوٹیلا کارکنوں پر بدترین تشدد کیا گیا، اسرائیل فلسطینیوں کو مٹانے کیلیے کوشاں ہے، گریٹا تھنبرگ
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سویڈن کی نوجوان ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ نے رہائی کے بعد اپنے پہلے بیان میں اسرائیل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض جنگ نہیں بلکہ پوری قوم کو مٹانے کی منظم کوشش ہے۔
یہ بیان اُن کی رہائی کے فوراً بعد سامنے آیا جب وہ دیگر درجنوں کارکنان کے ہمراہ “گلوبل صمود فلوٹیلا” مشن کے ذریعے غزہ کے محاصرے کو توڑنے اور امداد پہنچانے کی کوشش پر اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوئیں۔
گلوبل صمود فلوٹیلا کا مقصد غزہ کے بھوکے اور محصور عوام تک انسانی امداد پہنچانا تھا، لیکن اسرائیلی بحریہ نے راستے میں مداخلت کرتے ہوئے سب کو گرفتار کرلیا۔
گریٹا تھنبرگ اور ان کے ساتھیوں کو کئی دن تک اسرائیلی حراست میں رکھا گیا، جہاں رپورٹس کے مطابق انہیں تشدد، بھوک، نیند کی محرومی اور غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ متعدد کارکنان نے الزام لگایا کہ انہیں پنجروں میں بند کیا گیا، مارا پیٹا گیا اور آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر زبردستی اسرائیلی پرچم اٹھانے پر مجبور کیا گیا۔
یونان کے دارالحکومت ایتھنز پہنچنے پر فلسطین کے حامیوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔
جذباتی انداز میں گفتگو کرتے ہوئے گریٹا نے کہا کہ ہم پر جو کچھ بیتا، وہ کچھ بھی نہیں، اصل ظلم غزہ میں ہے جہاں بچے بھوک اور بمباری سے مر رہے ہیں۔ اسرائیل انسانی امداد روک کر بین الاقوامی قانون اور انسانی ضمیر دونوں کی توہین کر رہا ہے۔
انہوں نے عالمی اداروں کی بے حسی پر سخت مایوسی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں فلسطینیوں کو دھوکا دے رہی ہیں۔ گریٹا نے زور دیا کہ دنیا کو صرف بیانات نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ نسل کشی رُک سکے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین کے مظلوم عوام آج بھی مزاحمت کی علامت ہیں اور دنیا بھر کے نوجوان ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم نے فلوٹیلا کے ذریعے دنیا کو دکھا دیا کہ انسانیت ابھی زندہ ہے اور کوئی ظلم ہمیشہ نہیں چل سکتا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
غزہ کا اسرائیلی محاصرہ توڑنے کیلیے فریڈم فلوٹیلا کا نیا مشن غزہ کی جانب روانہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ پر قابض اسرائیل کی سخت ناکابندی اور انسانی بحران کے باوجود عالمی ضمیر ایک بار پھر جاگ اٹھا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے گزشتہ ہفتے 43 امدادی کشتیوں کو روک کر ان میں سوار 500 رضاکاروں کو گرفتار کرنے کے باوجود فلسطینیوں تک امداد پہنچانے کی کوششیں رُکیں نہیں۔ اب بین الاقوامی تنظیم فریڈم فلوٹیلا کولیشن (FFC) نے ایک نیا قافلہ روانہ کر دیا ہے، جس میں 11 کشتیوں پر مشتمل امدادی مشن شامل ہے۔
ترک خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق یہ بحری قافلہ اٹلی کے بندرگاہی شہر اوترانتو سے روانہ ہوا، جہاں سے 25 ستمبر کو اٹلی اور فرانس کے جھنڈے تھامے 2 کشتیاں روانہ ہوئی تھیں۔ یہ کشتیاں بعد ازاں 30 ستمبر کو ایک اور کشتی کنشینس سے جا ملی تھیں، جبکہ اب ان کا اگلا پڑاؤ 8 کشتیوں کے دوسرے گروپ تھاؤزنڈ میڈلینز ٹو غزہ سے ملاقات ہوگا۔
یوں مجموعی طور پر 11 کشتیوں پر مشتمل یہ نیا قافلہ غزہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔
فریڈم فلوٹیلا کولیشن کے مطابق اس وقت قافلے پر 100 کے قریب رضاکار سوار ہیں، جو یونان کے جزیرے کریٹ کے قریب سمندر میں موجود ہیں۔
ان مہمات کا مقصد صرف خوراک اور ادویات پہنچانا نہیں بلکہ دنیا کو غزہ میں جاری انسانی المیے کی یاد دہانی کرانا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیلی محاصرہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے اور یہ تمام مشن انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں۔
یہ نئی کوشش ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیلی بحریہ نے محض ایک روز قبل فلسطین کے لیے روانہ ہونے والے قافلے پر حملہ کر کے درجنوں کشتیوں کو ضبط کیا اور سیکڑوں رضاکاروں کو گرفتار کر لیا۔ ماضی میں بھی اسرائیل کئی مرتبہ فلوٹیلا مشن پر حملے کر کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنا چکا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ پر 18 سالہ محاصرہ نے 24 لاکھ فلسطینیوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ رواں برس مارچ سے تمام زمینی راستے مکمل طور پر بند ہیں، جس کے نتیجے میں خوراک، ایندھن اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی صورت حال اب انسانی زندگی کے لیے ناقابلِ برداشت بنتا جا رہا ہے، جہاں بھوک، بیماری اور قحط تیزی سے پھیل رہے ہیں۔
دوسری جانب اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی بمباری میں اب تک 66 ہزار 200 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی خاموشی کے باوجود دنیا بھر سے امدادی جہازوں کا یہ سفر اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینی عوام کی حمایت کا جذبہ نہ دبایا جا سکتا ہے، نہ روکا جا سکتا ہے۔