Islam Times:
2025-10-06@20:15:41 GMT

غزہ کا امتحان اور مغربی تہذیب کا زوال

اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT

غزہ کا امتحان اور مغربی تہذیب کا زوال

اسلام ٹائمز: غزہ کا امتحان جدید تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔ ایسا موڑ جس نے ثابت کر دیا کہ جب بڑے بڑے تہذیبی دعوے عمل کے میدان میں پابندی پر استوار نہیں ہوتے تو وہ بہت تیزی سے زوال پذیر ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف عوامی بیداری اور قانونی اور سفارتی تحریکیں بین الاقوامی نظام میں نظرثانی اور عدالت و انصاف کی جانب گامزن ہونے کا زمینہ فراہم کر سکتی ہیں۔ اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے وہ اخلاقی غصے اور عالمی یکجہتی کا ایسے اسٹریٹجک اور مسلسل اقدامات میں تبدیل ہو جانا ہے جو انسانی حقوق کی حمایت کے ذریعے غزہ میں نسل کشی اور محاصرے کے خاتمے کا باعث بنیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو آخرکار ان اقدار پر عوامی اعتماد دوبارہ بحال ہونے پر منتج ہو گا جن کا بارہا وعدہ دیا گیا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر احمد مومنی راد
 
مغربی تہذیب نے قرون وسطائی دور کے بعد سے اب تک انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادی جیسے دلفریب نعروں اور دعووں سے پوری دنیا کو سر پر اٹھا رکھا تھا۔ مغربی دنیا میں برپا ہونے والے تین بڑے انقلاب، فرانس کا انقلاب، صنعتی انقلاب اور امریکہ کا انقلاب، مغربی تاریخ کے وہ اہم موڑ جانے جاتے ہیں جنہوں نے مغرب کو ایک بالکل نئے پیراڈائم میں داخل کر دیا اور مغربی سیاست دان، دانشور اور حکمران خود کو دنیا کا ترقی یافتہ ترین اور تہذیب یافتہ ترین حصہ قرار دینا شروع ہو گئے۔ اس کے بعد مغربی حکومتوں نے پورے زور و شور سے خود کو عالمی سطح پر انسانی حقوق اور جمہوریت کا علمبردار ظاہر کرنا شروع کر دیا اور مغرب کو بین الاقوامی نظام کے برتر ماڈل کے طور پر پیش کرنے لگے۔ تاہم، گذشتہ چند سالوں کے دوران پیش آنے والے حالات و واقعات نے ان مغربی دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
 
ایسے ہی واقعات میں سے غزہ میں شروع ہونے والی جنگ اور غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کا آغاز ہے۔ صیہونی حکمرانوں کی جانب سے غزہ کے فلسطینیوں کے خلاف تمام تر مجرمانہ اقدامات اور انسان سوز مظالم کے باوجود امریکہ کی سرکردگی میں مغربی حکمرانوں کی جانب سے اسرائیل کی بھرپور، جامع اور غیر مشروط حمایت جاری رکھے جانے نے عالمی رائے عامہ میں مغربی تہذیب کے خلاف نفرت عروج پر پہنچا دی ہے۔ اس وقت سب کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو چکا ہے کہ مغربی حکمرانوں کی جانب سے انسانی حقوق، جمہوری اقدار اور آزادی جیسے دلفریب نعرے کیا محض زبانی کلامی حد تک تھے یا ان میں کچھ حقیقت بھی پائی جاتی تھی؟ اور کیا مغربی حکمران عمل کے میدان میں بھی اپنے ان دعووں پر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں؟
 
مغرب کا دعوی تھا کہ علمی، سیاسی اور سماجی شعبوں میں ترقی نے بنی نوع انسان کو درپیش تمام مسائل کا بہترین حل فراہم کر دیا ہے۔ "تاریخ کا اختتام" نامی نظریے کی بنیاد بھی یہی تصور تھا کہ لبرل ڈیموکریسی درحقیقت بشریت کی سیاسی ترقی کا آخری مرحلہ ہے اور اب مزید ترقی کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہ گئی۔ لیکن بین الاقوامی سیاست میں رونما ہونے والے حقیقی تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ کوئی بھی نظریہ اور آئیڈیالوجی اس وقت عملی لحاظ سے اہمیت اختیار کرتی ہے جب عمل کے میدان میں بھی اس کی پابندی کی جائے۔ غزہ کا امتحان ایسا ایک منظرنامہ ہے جس سے ثابت ہو گیا کہ مغربی حکومتیں بحرانی حالات کے دوران اپنے اصولوں کی پابند نہیں رہتیں اور ان کے نظریات عدم افادیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
 
امریکہ سمیت کچھ مغربی حکومتوں نے غزہ جنگ کے دوران غاصب صیہونی رژیم کی سیاسی، فوجی، مالی، میڈیا اور سفارتی حمایت جاری رکھی۔ یوں انہوں نے اپنی ہی اعلان کردہ اقدار کو پامال کیا ہے۔ اس طرز عمل نے ثابت کیا ہے کہ محض انسانی حقوق کی پابندی کا اظہار کرنا اور سفارتی سطح پر شدت پسندی سے پرہیز کرنے کا اعلان کرنا کافی نہیں ہے اور ممکن ہے ایک حکومت اس اظہار کے باوجود مختصر مدت کے مفادات کے حصول کے لیے ان سے چشم پوشی اختیار کر جائیں۔ اس ٹکراو کا نتیجہ عالمی رائے عامہ میں ان دعووں کی اخلاقی حیثیت ختم ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سمیت تمام بین الاقوامی ادارے بین الاقوامی منشور اور معاہدوں پر استوار ہیں اور یوں وہ امن کی پاسداری، جارحیت روکنے اور بنیادی انسانی حقوق کی حمایت کے پابند ہیں۔
 
دوسری طرف ان اداروں کے طاقتور اراکین کے مفادات بعض مواقع پر ان اداروں کو بے فائدہ بنا دیتے ہیں اور وہ حتی بین الاقوامی قوانین کے اجرا کی صلاحیت بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ غزہ میں صیہونی رژیم کی بربریت اور مجرمانہ اقدامات پر کچھ مغربی حکومتوں کی خاموشی نے صیہونی حکمرانوں کو "ان لکھا تحفظ" فراہم کر دیا ہے اور وہ خود کو بین الاقوامی قوانین سے ماوراء تصور کرنے لگے ہیں۔ اس صورتحال کے خلاف عالمی سطح پر سامنے آنے والے ردعمل کے تحت دنیا بھر کی عوام نے مظلوم فلسطینیوں سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے جاری ہیں اور مختلف یونیورسٹی، ثقافتی اور دیگر سماجی تنظیموں کی جانب سے بیانیے جاری ہو رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتوں کے موقف اور عوامی ضمیر کے درمیان بہت فاصلہ پایا جاتا ہے۔
 
اس وقت مغربی حکومتیں اور بین الاقوامی ادارے بری طرح اخلاقی رسوائی کا شکار ہو چکے ہیں۔ غزہ کا امتحان جدید تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔ ایسا موڑ جس نے ثابت کر دیا کہ جب بڑے بڑے تہذیبی دعوے عمل کے میدان میں پابندی پر استوار نہیں ہوتے تو وہ بہت تیزی سے زوال پذیر ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف عوامی بیداری اور قانونی اور سفارتی تحریکیں بین الاقوامی نظام میں نظرثانی اور عدالت و انصاف کی جانب گامزن ہونے کا زمینہ فراہم کر سکتی ہیں۔ اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے وہ اخلاقی غصے اور عالمی یکجہتی کا ایسے اسٹریٹجک اور مسلسل اقدامات میں تبدیل ہو جانا ہے جو انسانی حقوق کی حمایت کے ذریعے غزہ میں نسل کشی اور محاصرے کے خاتمے کا باعث بنیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو آخرکار ان اقدار پر عوامی اعتماد دوبارہ بحال ہونے پر منتج ہو گا جن کا بارہا وعدہ دیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: عمل کے میدان میں انسانی حقوق کی غزہ کا امتحان بین الاقوامی اور سفارتی کی جانب سے فراہم کر جاتے ہیں کے خلاف کر دیا

پڑھیں:

پاکستانی فلم ’موکلانی‘ نے آسکر کا ہم پلہ عالمی ایوارڈ جیت لیا

پاکستانی فلم ’موکلانی دی لاسٹ موہناز‘ نے بین الاقوامی سطح پر ایک تاریخی کامیابی حاصل کرتے ہوئے جیکسن وائلڈ میڈیا ایوارڈ 2025 جیت لیا ہے۔

یہ فلم پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے بحران کے پس منظر میں منچھر جھیل کی مقامی ماہی گیر برادری ’موہنا‘ کی جدوجہد کی داستان پیش کرتی ہے۔

فلم کے ہدایت کار جواد شریف نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری کردہ ایک جذباتی پیغام میں کہا کہ ’’تاریخ رقم ہوگئی، ہماری فلم ’موکلانی‘ پہلی پاکستانی فیچر فلم ہے جس نے جیکسن وائلڈ میڈیا ایوارڈز 2025 اپنے نام کیا ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ فلمی دنیا میں اس ایوارڈ کو آسکر ایوارڈ کے برابر کی اہمیت حاصل ہے۔

        View this post on Instagram                      

A post shared by Jawad Sharif (@jawadshariffilms)

یہ ایوارڈ فلم کو 500 سے زائد بین الاقوامی فلموں میں سے منتخب کرکے دیا گیا، جو اس کی معیاری تخلیق اور پاکستان کے ماحولیاتی مسائل کے بارے میں اس کے مؤثر بیانیے کی عکاسی کرتا ہے۔

فلم ’موکلانی‘ کا پہلا ٹیزر 4 اکتوبر 2025 کو جاری کیا گیا تھا، جسے قومی اور بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی تھی۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق جیکسن وائلڈ میڈیا ایوارڈز کو فلمی دنیا میں آسکر ایوارڈز کے متوازی حیثیت حاصل ہے، جو اسے پاکستانی سنیما کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی بناتی ہے۔ یہ فلم نہ صرف پاکستانی فلم انڈسٹری بلکہ پورے خطے کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے، جو ثابت کرتی ہے کہ معیاری مواد تخلیق کرنے والے پاکستانی فنکار عالمی سطح پر اپنا لوہا منوا سکتے ہیں۔

یہ کامیابی پاکستانی فلم انڈسٹری کے عروج کی ایک نئی داستان رقم کرتی ہے اور آنے والے وقتوں میں پاکستانی فلم میکرز کے لیے بین الاقوامی سطح پر کامیابیاں سمیٹنے کے نئے دروازے کھولتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ میں ہلاکتوں کی تعداد 28 تک جا پہنچی
  • مودی کے ساتھی مغربی بنگال میں عوام کے ہتھے چڑھ گئے، خوب درگت بنائی
  • بھارت: مغربی بنگال میں شدید بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ سے 24 افراد ہلاک، درجنوں لاپتہ
  • پاکستانی فلم ’موکلانی‘ نے آسکر کا ہم پلہ عالمی ایوارڈ جیت لیا
  • مغربی میڈیا کا دہشتگردی کے حوالے سے دہرا معیار کھل کر سامنے آ گیا
  • شدید سمندی طوفان ’’شکتی‘‘ کمزور ہوگیا، سندھ اور بلوچستان میں بارش کا امکان
  • میرپور خاص: انسانی حقوق کے تحت منعقدہ سیمینار کے شرکاء کا وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی راجویر سنگھ کے ساتھ گروپ فوٹو
  • صمود فلوٹیلا: گریٹا تھنبرگ سمیت دیگر انسانی حقوق کے کارکنوں پر اسرائیلی فوج کے تشدد کا انکشاف
  • وزیراعلیٰ پنجاب کا جامعہ حنفیہ بوریوالا کے میڑک کے امتحان میں پوزیشنز حاصل کرنے والے طلبا اور اساتذہ کیلئے 10 لاکھ روپے کا انعام