24 گھنٹوں کے دوران پی آئی اے کے 11 طیاروں میں فنی خرابی
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
کراچی:
قومی ایئرلائن کے طیاروں میں فنی خرابیوں کے واقعات میں اچانک اضافے سے پروازوں میں کئی گھنٹے کی تاخیر معمول بن گیا۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران فنی خرابیوں کے باعث پی آئی اے کی 11 پروازیں غیر معمولی تاخیر کا شکار رہیں جبکہ کئی طیارے زمینی عملے کی تکنیکی ٹیموں کے زیرِ معائنہ رہے۔
اسلام آباد سے دبئی جانے والی پرواز ایئربس طیارے کے ہفتہ وار چیک کی وجہ سے دو گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئی۔ اسی طرح کراچی سے لاہور پرواز پی کے 177 اور اسلام آباد سے کراچی پرواز پی کے 309 طیاروں کے نوز ویل میں فنی خرابی کے باعث تاخیر سے روانہ ہوئیں۔
کراچی سے سکھر جانے والی اے ٹی آر پرواز لینڈنگ لائٹس میں خرابی کے باعث ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر کا شکار ہوئی، جبکہ مدینہ سے ملتان پرواز پی کے 716 طیارے کے پارکنگ بریک میں خرابی کے باعث تین گھنٹے تاخیر سے روانہ ہوئی۔
اسلام آباد سے کراچی پرواز پی کے 301 بھی فنی خرابی کے باعث آدھا گھنٹہ تاخیر کا شکار رہی جبکہ کراچی سے ٹورونٹو جانے والی بین الاقوامی پرواز پی کے 783 کے بوئنگ طیارے میں ری فیولنگ سسٹم کی خرابی پر کئی گھنٹے تاخیر ہوئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کے پاس طیاروں کے فاضل پرزہ جات کی شدید کمی ہے جس کے باعث ایک طیارے سے پرزہ نکال کر دوسرے طیارے میں نصب کرکے کام چلایا جارہا ہے۔
مسلسل فنی خرابیوں اور تاخیر کے باعث قومی ایئرلائن کا فلائٹ شیڈول بری طرح متاثر ہو رہا ہے، جبکہ مسافروں کو شدید مشکلات اور پریشانی کا سامنا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خرابی کے باعث تاخیر کا شکار پرواز پی کے
پڑھیں:
امریکا کے بعد فرانسیسی کمانڈر نے بھی پاک بھارت جنگ میں بھارتی شکست کی تصدیق کر دی
فرانس کے شمال مغربی علاقے میں واقع نیول ائیر بیس کے کمانڈر کیپٹن "یوک لونے" نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ "خرابی رافیل طیارے میں نہیں تھی بلکہ اسے اڑانے والے بھارتی پائلٹس میں تھی۔" اسلام ٹائمز۔ پاکستان کے ساتھ جنگ میں بھارت کی شکست سے متعلق دنیا بھر سے مسلسل نئی رپورٹس سامنے آرہی ہیں اور امریکا کے بعد اب فرانسیسی کمانڈر نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ 6 اور 7 مئی کی رات پاکستان نے بھارتی رافیل طیارے مار گرائے تھے۔ دنیا کی مسلح افواج نے مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی فضائی جھڑپ کو بہت قریب سے دیکھا۔ اس غیر معمولی فضائی جنگ نے مختلف ممالک کی افواج کو پائلٹس، لڑاکا طیاروں اور میزائلوں کی کارکردگی جانچنے کا نادر موقع فراہم کیا۔ فرانس کے شمال مغربی علاقے میں واقع نیول ائیر بیس کے کمانڈر کیپٹن "یوک لونے" نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ "خرابی رافیل طیارے میں نہیں تھی بلکہ اسے اڑانے والے بھارتی پائلٹس میں تھی۔" یہ بیس 40 سے زائد جوہری میزائلوں سے لیس رافیل لڑاکا طیاروں کے اسکواڈرن کی وجہ سے مشہور ہے اور کیپٹن لونے یہاں 94 بحری جنگی جہازوں، 10 جوہری آبدوزوں اور 190 جنگی طیاروں کی نگرانی کرتے ہیں۔
کیپٹن لو نے گذشتہ 25 سال سے رافیل اڑا رہے ہیں اور مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور یورپ تک کئی اہم مشنز سرانجام دے چکے ہیں۔ عالمی نمائندوں کی موجودگی میں انہوں نے پاکستانی فضائی صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ "پاکستانی فضائیہ نے صورتحال کو انتہائی مؤثر انداز میں سنبھالا۔" انڈو پیسفک کانفرنس کے بین الاقوامی سیشن سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ مئی 2025ء میں بھارتی فضائیہ کے رافیل طیارے چینی طیاروں کی تکنیکی برتری کے باعث نہیں گرے تھے بلکہ پاکستان کے مضبوط دفاع اور مؤثر حکمتِ عملی کی وجہ سے تباہ ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ صورتحال بہت پیچیدہ تھی، کیونکہ اس لڑائی میں 140 سے زائد لڑاکا طیارے شامل تھے۔ اتنی زیادہ تعداد میں اہداف موجود ہونے کے باعث کسی بھی طیارے کو نشانہ بنانا نسبتاً آسان تھا، مگر پاکستان نے اسے بھارت کے مقابلے میں کہیں بہتر انداز میں ہینڈل کیا۔ اس موقع پر بھارتی مندوب نے مداخلت کرتے ہوئے اسے چین کا پھیلایا ہوا پروپیگنڈا قرار دیا لیکن کیپٹن "لونے" نے اس اعتراض کو نظر انداز کر دیا۔
کیپٹن لونے سے سوال کیا گیا کہ جنگ کے دوران رافیل کا ریڈار سسٹم کیوں فیل ہوا؟ جس پر کیپٹن "لونے" نے جواب دیا کہ "مسئلہ مشین میں نہیں، اسے استعمال کرنے میں تھا۔" انہوں نے کہا کہ رافیل کسی بھی جنگی صورتحال میں چینی طیاروں کو شکست دے سکتا ہے، مگر سب کچھ استعمال کے طریقے پر منحصر ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ بھارتی حکومت اب رافیل کے نیول ورژن کی خریداری میں دلچسپی رکھتی ہے، جو سمندر میں موجود ائیرکرافٹ کیریئر پر لینڈ کرسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ نیول رافیل جوہری میزائل بھی لے جاسکتے ہیں اور دنیا میں صرف فرانسیسی بحریہ کے پاس یہ صلاحیت ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان فضائی جنگ کا تفصیلی تجزیہ عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، کیونکہ اس سے مستقبل کی جنگوں میں ملٹری اسٹریٹجی بہتر بنانے کے لیے اہم سبق حاصل ہوسکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ ایک نایاب موقع تھا، جس میں پائلٹس، لڑاکا طیاروں اور ائیر ٹو ائیر میزائلوں کی کارکردگی کو حقیقی جنگی ماحول میں پرکھا گیا۔