غزہ جنگ بندی مذاکرات میں شامل تمام فریق ’پرامید‘ ہیں، حماس
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
قطر اور ترکی غزہ امن مذاکرات کے تیسرے دن میں شامل ہوں گے اسرائیل نے غزہ کی طرف جانے والے ایک اور امدادی فلوٹیلا کو روک لیا قطر اور ترکی غزہ امن مذاکرات کے تیسرے دن میں شامل ہوں گے
قطر کے وزیر اعظم اور ترکی کے وفود بدھ کے روز مصر میں حماس اور اسرائیلی مذاکرات کاروں کے ساتھ تیسرے دن کے مذاکرات میں شامل ہوں گے، جن کا مقصد غزہ کی جنگ کا خاتمہ ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات ساحلی شہر شرم الشیخ میں ہو رہے ہیں، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے گزشتہ ماہ پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے پر مبنی ہیں۔
صدر ٹرمپ نے منگل کو وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں صحافیوں سے کہا، ’’ہم کچھ کر سکتے ہیں، اس کا ایک حقیقی موقع ہے۔
(جاری ہے)
‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی مذاکرات کار بھی بات چیت میں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں مشرق وسطیٰ میں امن کا امکان موجود ہے۔ یہ غزہ کی صورتحال سے بھی آگے کی بات ہے۔ ہم یرغمالیوں کی فوری رہائی چاہتے ہیں۔‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگر حماس اور اسرائیل جنگ بندی پر متفق ہو جاتے ہیں تو امریکہ ’’ہر ممکن کوشش کرے گا تاکہ ہر کوئی معاہدے پر عمل کرے۔‘‘
حماس کی طرف سے ضمانتوں کا مطالبہحماس کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیہ نے کہا کہ وہ ’’صدر ٹرمپ اور اسپانسر ممالک سے یہ ضمانت چاہتے ہیں کہ جنگ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔
‘‘ٹرمپ کا منصوبہ جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی، حماس کو غیر مسلح کرنے اور غزہ سے اسرائیل کی بتدریج فوجی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے۔
اس منصوبے کو اسرائیل اور حماس دونوں کی طرف سے حمایت ملی ہے اور پیر سے مصر میں بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں۔
حماس کی مذاکراتی ٹیم کے ایک قریبی ذریعے نے بتایا کہ منگل کے اجلاس میں حماس نے ’’اسرائیلی فریق کی طرف سے پیش کردہ فوجی انخلا کے ابتدائی نقشوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کے طریقہ کار اور ٹائم ٹیبل پر بات چیت کی۔
‘‘آج بدھ کو مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف بھی مذاکرات میں شامل ہوں گے۔
قطر نے کہا ہے کہ اس کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی شرکت کریں گے، جبکہ ترکی کے سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا کہ ملک کے انٹیلیجنس چیف ابراہیم کالن مصر میں وفد کی قیادت کریں گے۔
اسرائیلی بحریہ نے غزہ کے لیے امداد لے جانے کی کوشش کرنے والے فلسطین نواز کارکنوں کے ایک اور فلوٹیلا کو روک لیا ہے۔
دوسری جانب ترکی نے غزہ فلوٹیلا میں شامل کشتیوں کی روک تھام کو ’’قزاقی‘‘ قرار دیا ہے۔ترکی نے بدھ کے روز اسرائیلی افواج کی طرف سے غزہ کے لیے امداد پہنچانے کی کوشش کرنے والے فلوٹیلا کے خلاف مداخلت کو ’’قزاقی‘‘ اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ فریڈم فلوٹیلا کے خلاف مداخلت، جس میں ترک شہری اور اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہیں، سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’نسل کشی‘‘ کرنے والی اسرائیلی حکومت تمام پرامن اقدامات کو نشانہ بناتی ہے اور خطے میں کشیدگی کو بڑھاتی ہے۔
فریڈم فلوٹیلا کولیشن نے سوشل میڈیا پر کہا کہ تقریباً 30 ممالک سے تعلق رکھنے والے 150 کے قریب کارکنوں کو لے جانے والے نو بحری جہازوں کو بدھ کی صبح غزہ کے ساحل سے تقریباً 220 کلومیٹر دور روک لیا گیا۔
اس گروپ نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ اسرائیلی بحری افواج نے جہازوں پر ’’حملہ کیا اور انہیں غیر قانونی طور پر روک لیا۔‘‘
اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس روک تھام کی تصدیق کرتے ہوئے اسے ’’قانونی بحری ناکہ بندی کو توڑنے اور جنگی زون میں داخل ہونے کی ایک اور ناکام کوشش‘‘ قرار دیا ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں شامل ہوں گے فلوٹیلا کو کی طرف سے ایک اور روک لیا نے کہا غزہ کی کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
غزہ امن منصوبہ مذاکرات، حماس نے اپنی شرائط پیش کر دیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے پر مذاکرات کے دوران حماس نے اپنی شرائط پیش کر دیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے پر فریقین کے درمیان مصر میں مذاکرات جاری ہیں۔ جس میں حماس نے جنگ بندی کے معاہدے کے لیے اپنی شرائط واضح کر دیں۔
حماس نے کہا ہے کہ وہ ایسے معاہدے کے لیے کوشاں ہیں۔ جو فلسطینی عوام کی خواہشات اور بنیادی مطالبات کی عکاسی کرے۔
فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے رہنما فوزی برھوم نے کہا ہے کہ ہمارے مذاکرات وفود اس بات کے لیے کام کر رہے ہیں۔ کہ تمام رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔ اور ایسا معاہدہ سامنے آئے جو فلسطینیوں کی امنگوں پر پورا اترے۔
انہوں نے کہا کہ حماس نے جنگ بندی کے لیے جو شرائط رکھی ہیں۔ ان میں مستقل اور جامع جنگ بندی، اسرائیلی افواج کا غزہ سے مکمل انخلا، انسانی ہمدردی کی امداد کا بلا روک ٹوک داخلہ، بے گھر فلسطینیوں کی واپسی کی ضمانت، قیدیوں کے منصفانہ تبادلے کا معاہدہ اور غزہ کی تعمیر نو کا فوری آغاز شامل ہیں۔
فوزی برھوم نے اسرائیلی وزیر اعظم پر الزام عائد کیا کہ نیتن یاہو ماضی کی طرح اس بار بھی مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اور ہم جانتے ہیں کہ نیتن یاہو ہر مرحلے پر جان بوجھ کر رکاوٹ ڈالتے رہتے ہیں۔ تاکہ کسی پائیدار امن معاہدے تک نہ پہنچا جا سکے۔