مصر میں امن مذاکرات کا دوسر ا روز: قیدیوں کے تبادلے پر حماس اور اسرائیل میں اتفاق نہ ہو سکا
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251008-01-18
غزہ /قاہرہ/ واشنگٹن/دوحا/انقرہ (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدرٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے پر اسرائیل اور حماس کے درمیان مصر میں جاری بالواسطہ مذاکرات دوسرے روز بھی جاری رہے۔ فریقین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پر تاحال اتفاق رائے نہ ہوسکا۔امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق حماس نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے لیے اپنی اہم شرائط واضح کر دی ہیں۔حماس کا کہنا ہے کہ وہ ایسے معاہدے کے لیے کوشاں ہے جو فلسطینی عوام کی خواہشات اور بنیادی مطالبات کی عکاسی کرے۔ حماس کے سینئر رہنما اور ترجمان فوزی برھوم نے بتایا کہ ہمارے مذاکراتی وفود اس بات کے لیے کام کر رہے ہیں کہ تمام رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے اور ایسا معاہدہ سامنے آئے جو فلسطینیوں کی امنگوں پر پورا اترے۔ان کے بقول حماس وفد نے جنگ بندی معاہدے کے لیے درج ذیل 6 شرائط پیش کی ہیں۔پہلی شرط :مستقل اور جامع جنگ بندی؛ تاکہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت مکمل طور پر ختم ہو۔دوسری شرط:اسرائیلی افواج کا غزہ سے مکمل انخلا; کسی بھی قسم کی عسکری موجودگی کے بغیر۔تیسری شرط:انسانی ہمدردی کی امداد کا بلا روک ٹوک داخلہ؛ خوراک، پانی، ادویات اور دیگر اشیاء کی رسائی پر کسی قسم کی پابندی نہ ہو۔چوتھی شرط:بے گھر فلسطینیوں کی واپسی کی ضمانت; جبری طور پر نکالے گئے افراد کو اپنے گھروں میں واپس جانے کا حق دیا جائے۔پانچویں شرط:قیدیوں کے منصفانہ تبادلے کامعاہدہ؛ فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنایا جائے۔چھٹی اور آخری شرط:غزہ کی تعمیر نو کا فوری آغاز; جسے ایک قومی فلسطینی آزاد ماہرین کی تکنوکریٹ کمیٹی کی نگرانی میں انجام دیا جائے۔حماس کے ترجمان فوزی برھوم نے بتایا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ماضی کی طرح اس بار بھی مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ نیتن یاہو ہر مرحلے پر جان بوجھ کر رکاوٹ ڈالتے رہے ہیں تاکہ کسی پائیدار امن معاہدے تک نہ پہنچا جا سکے۔حماس رہنما نے کہا کہ فلسطینی عوام اپنی جدوجہد، اتحاد اور انصاف پر مبنی موقف پر قائم ہیں اور کسی بھی ایسے منصوبے کو ناکام بنائیں گے جو ان کے قومی مقصد کو کمزور کرنے کی کوشش کرے۔ ادھر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ حماس کی حکومت کا خاتمہ ضروری ہے اور اگر وہ امریکی قیادت میں پیش کیے گئے جنگ بندی منصوبے کو قبول کر لیتی ہے تو یہ غزہ جنگ کے خاتمے کی شروعات ہوسکتی ہے۔یورونیوز کو دیے گئے انٹرویو ان کا کہنا تھاکہ ہم نے ٹرمپ کے منصوبے کو قبول کرلیا ہے، اب فیصلہ حماس کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ اس پر عمل کرتی ہے تو امن قائم ہوسکتا ہے، ورنہ اسرائیل کو امریکا کی مکمل حمایت کے ساتھ حماس کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔انہوں نے بتایا کہ منصوبے کے دو اہم حصے ہیں، پہلے مرحلے میں تمام یرغمالیوں کی رہائی اور جزوی انخلا شامل ہے، جبکہ دوسرے حصے میں غزہ کو غیر فوجی علاقہ بنانا اور حماس کو غیر مسلح کرنا مقصد ہے۔دوسری جانب روسی صدرپیوٹن اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکیدرمیان ٹیلی فون پررابطہ ہواہے۔کریملن کے مطابق صدر پیوٹن اور نیتن یاہو کے ہمراہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال، صدر ٹرمپ کے امن منصوبے پرگفتگو ہوئی۔کریملن کا بتانا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق مسائل کا بات چیت سے حل نکالنیمیں دلچسپی کا اظہار کیا۔کریملن کے مطابق پیوٹن اورنیتن یاہو کے درمیان شام میں مزید استحکام پربھی گفتگو ہوئی۔ علاوہ ازیں امریکی صدر نے کہا ہے کہ غزہ پر مذاکرات کے لیے ایک اور امریکی ٹیم روانہ ہو گئی ہے، مجھے لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن کا امکان موجود ہے۔ٹرمپ نے کینیڈا کے وزیرِاعظم مارک کارنی کے ہمراہ اوول آفس میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم یقیناً غزہ کے بارے میں بات کریں گے، ہم بہت سنجیدہ مذاکرات میں مصروف ہیں،یہ غزہ کے معاملے سے بھی آگے کی بات ہے۔امریکی صدر نے آخر میں کہا کہ ایک حقیقی امکان ہے کہ ہم کچھ کر سکتے ہیں۔ادھر قطری وزارتِ خارجہ کے عہدیدار ماجد الانصاری نے الجزیرہ کو بتایا کہ قطر کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم آل ثانی اور ترکیے کے انٹیلی جنس چیف ابراہیم قالن آج بدھ کو مصر میں غزہ جنگ بندی مذاکرات میں شریک ہوں گے۔دیگر ثالثوں، جن میں امریکی نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف اور جیرڈ کشنر شامل ہیں۔قبل ازیں 7اکتوبر کو اسرائیلی جارحیت کے 2 سال مکمل ہوگئے ،اس دوران غزہ کی 3 فیصد آبادی شہید اور 90 فیصد مکانات تباہ کردیے گئے۔شہید ہونے والوں میں کم از کم 20 ہزار بچے بھی شامل ہیں، یعنی گزشتہ 24 مہینوں کے دوران اسرائیل نے اوسطاً ہر گھنٹے میں ایک بچے کو شہید کیا۔غزہ میں 7 اکتوبر 2023ء کو شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی آج 2 سال بعد بھی جاری ہے۔2 سال سے جاری اسرائیلی حملوں میں کم از کم 67 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جنگ سے قبل غزہ کی آبادی کا تقریباً 3 فیصد، یعنی ہر 33 میں سے ایک شخص شہید ہو چکا ہے۔شہید ہونے والوں میں کم از کم 20 ہزار بچے بھی شامل ہیں، یعنی گزشتہ 24 مہینوں کے دوران اسرائیل نے اوسطاً ہر گھنٹے میں ایک بچے کو شہید کیا۔فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق یہ اعداد و شمار صرف ان افراد پر مشتمل ہیں جن کی لاشیں اسپتالوں میں لائی گئیں یا جن کی اموات سرکاری طور پر درج ہوئیں۔شہدا کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ ان اعداد و شمار میں وہ لوگ شامل نہیں جو لاپتا ہیں یا جن کی لاشیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کی جیلوں میں 11 ہزار ایک سو فلسطینی قیدی سخت مشکلات کا شکارہیں‘ قیدیوں میں 49خواتین اور 400معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ 7اکتوبر کو بھی اسرائیل نے غزہ پر 143فضائی وزمینی حملے کیے جس کے نتیجے میںمزید 106 فلسطینی شہید ہوگئے ۔ متحدہ عرب امارات کی ڈاکٹر ظہیرہ سومر نے اطلاع دی ہے کی چند امدادی کشتیاں اسرائیلی بحریہ کے شکنجے کو توڑتے ہوئے غزہ کے قریب پہنچ چکی ہیں۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق غزہ جانے والی 40 سے زاید امدادی کشتیوں کو یرغمال بنالیا گیا تھا تاہم چند کشتیاں اب بھی غزہ کی جانب رواں دواں ہیں۔ایسی ہی ایک کشتی میں سوار متحدہ عرب امارات کی خاتون شہری نے خلیج ٹائمز کو بتایا کہ “ہم نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ تیزی سے غزہ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔خاتون نے مزید بتایا کہ اب بھی کچھ کشتیاں اسرائیلی قبضے سے محفوظ ہیں اور امید ہے کہ کم از کم چند جہاز غزہ تک پہنچ کر امداد فراہم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نیتن یاہو بتایا کہ کے مطابق شامل ہیں حماس کے شہید ہو رہے ہیں نے کہا کے لیے غزہ کی کہا کہ
پڑھیں:
شرم الشیخ، حماس کی جنگ بندی کے بدلے قیدیوں کی رہائی اور امداد کی شرطیں
SHARM EL-SHEIKH:غزہ میں دو سال سے جاری خونریز جنگ کے خاتمے کے لیے مصر کے شہر شرم الشیخ میں اہم مذاکرات جاری ہیں، جن میں فلسطینی تنظیم حماس اور اسرائیلی نمائندوں کے درمیان ثالثی کا کردار مصر اور امریکا ادا کر رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق حماس نے جنگ بندی کے لیے کئی اہم شرائط سامنے رکھی ہیں، جن میں چھ سرکردہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور غزہ کے لیے بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی شامل ہے۔
حماس وفد کی قیادت سینئر رہنما خلیل الحیہ کر رہے ہیں جو اسرائیلی حملے کے بعد پہلی بار منظر عام پر آئے ہیں۔
امریکی صدر کے داماد اور مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی جیرڈ کشنر اور امریکی سفارت کار اسٹیو وٹکوف بھی مذاکرات میں شریک ہیں۔
مذاکرات کا محور یرغمالیوں اور سیاسی قیدیوں کی فہرستیں ہیں جن پر بات چیت جاری ہے تاکہ ممکنہ رہائی کی راہ ہموار کی جا سکے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیویٹ کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ قیدیوں کی رہائی جلد ممکن بنائی جائے تاکہ مذاکرات اگلے مرحلے میں داخل ہو سکیں۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ نے مذاکراتی عمل میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقت ضائع کیے بغیر جنگ بندی کو حتمی شکل دی جائے بصورت دیگر اگر حماس نے غزہ کا کنٹرول چھوڑنے سے انکار کیا تو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔