Jasarat News:
2025-11-15@23:00:20 GMT

ترمیمی سیاست کے ماہر؛ ایم کیو ایم اور کراچی کا دائمی المیہ

اشاعت کی تاریخ: 15th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی… روشنیوں کا شہر، محنت کشوں کا مسکن، اور پاکستان کی معاشی شہ رگ، مگر افسوس! سیاسی مفادات کی بندر بانٹ نے اس شہر کو اندھیروں، خوف اور محرومیوں کے گڑھ میں بدل دیا ہے۔ اس شہر کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ نہیں کہ اسے وفاق نے نظر انداز کیا، بلکہ یہ ہے کہ اس کے اپنے نمائندے بار بار اسے بیچ کر، اپنی جیبیں بھرتے رہے۔ ایم کیو ایم؛ وہ جماعت جو کبھی مہاجروں کی شناخت اور امید کی علامت سمجھی جاتی تھی آج سیاسی موقع پرستی، وزارتوں کی بھوک اور خود غرضی کی علامت بن چکی ہے۔

ایم کیو ایم نے اپنے قیام سے لے کر آج تک ’’مہاجر حقوق‘‘ کے نام پر جو سیاست کی، وہ دراصل اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کا شارٹ کٹ تھی۔ ہر دورِ حکومت میں اس جماعت نے وزارتوں، مشاورتوں، اور مراعات کے بدلے کراچی کے عوام کے مسائل کا سودا کیا۔ کبھی مشرف کے ساتھ، کبھی پیپلزپارٹی کے ساتھ، کبھی مسلم لیگ ن کے ساتھ، اور کبھی تحریک انصاف کے ساتھ۔ ہر اقتدار کے دسترخوان پر ان کا حصہ یقینی رہا۔ مگر جب عوام نے پوچھا کہ کراچی کو کیا ملا؟ تو جواب میں صرف نعروں اور بہانوں کا شور سنائی دیا۔ یہ جماعت ہمیشہ ’’اقتدار میں شمولیت‘‘ کو شہر کے مسائل کا حل سمجھتی رہی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے مزے لیتے ہوئے انہوں نے کراچی کی سڑکوں، نکاسی ِ آب، تعلیم، صحت اور روزگار جیسے مسائل کو پس پشت ڈال دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج کراچی کا شہری بارش میں ڈوبتا ہے، دھوپ میں جلتا ہے، اور بلدیاتی ادارے محض نعرے بازی کا میدان بن چکے ہیں۔

ایم کیو ایم کے رہنما جلسوں میں پیپلزپارٹی پر برسنے کے ماہر ہیں۔ مگر جیسے ہی وزارت یا کمیٹی کا عہدہ سامنے آتا ہے، ان کی للکار فوراً معذرت میں بدل جاتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے کراچی کے بلدیاتی اختیارات سلب کیے، شہری اداروں کو تباہ کیا، مگر ایم کیو ایم نے کبھی سنجیدہ مزاحمت نہیں کی۔ جب بھی کوئی آئینی یا انتظامی ترمیم سامنے آتی ہے، یہ پارٹی یا تو خاموش رہتی ہے یا پیپلزپارٹی کی زبان بولنے لگتی ہے۔ نتیجہ؟ سندھ کے شہری علاقے مسلسل پسماندگی، بدانتظامی اور ناانصافی کا شکار ہیں، جبکہ ایم کیو ایم کے رہنما ٹی وی پر صرف ’’بیانات‘‘ دے کر اپنی سیاسی موجودگی کا ثبوت دیتے ہیں۔ اگر پاکستان کی پارلیمانی تاریخ دیکھی جائے تو ایک بات واضح ہے کہ ایم کیو ایم نے ہر آئینی ترمیم، بل یا قرارداد کو اپنے مفاد کے مطابق تول کر فیصلہ کیا۔ کبھی اصولوں کی خاطر نہیں، بلکہ ’’فائدے‘‘ کی بنیاد پر۔ کبھی وہ ’’متحدہ‘‘ تھی، کبھی ’’پاکستان‘‘ بنی، کبھی ’’بحالی‘‘ ہوئی، کبھی ’’رابطہ کمیٹی‘‘ نئی بن گئی مگر عوامی مسائل وہیں کے وہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کراچی کا عام شہری خود سے سوال کرتا ہے: ’’آخر ایم کیو ایم نے ہمیں کیا دیا؟‘‘ جواب واضح ہے کچھ نہیں، سوائے تقسیم، انتشار، اور مایوسی کے۔

ایم کیو ایم کے اندرونی اختلافات نے اس جماعت کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔ کبھی ایک دھڑا لندن کا وفادار، کبھی ایک پاکستان کا محب وطن، کبھی کوئی پاک سرزمین پارٹی بناتا ہے، تو کبھی ’’اتحاد‘‘ کے نام پر نئی پریس کانفرنس ہوتی ہے۔ یہ وہ قیادت ہے جو مہاجر قوم کو متحد کرنے نکلی تھی، مگر خود ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ اب ان کے جلسے خالی، نعرے مدھم، اور ووٹ بینک سکڑ چکا ہے۔ کراچی کا نوجوان اب ان چہروں پر اعتماد نہیں کرتا، جو ہر پانچ سال بعد نئے وعدے اور پرانے بہانے لے کر آتے ہیں۔ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی، کراچی سب کے لیے ایک ’’کماؤ گائے‘‘ ہے، مگر کسی کے لیے ذمے داری نہیں۔ یہی حال ایم کیو ایم کا بھی ہے۔ جب اقتدار میں ہوں تو کراچی کے نام پر فنڈز لیتے ہیں، جب اقتدار سے باہر ہوں تو کراچی کی بدحالی پر آنسو بہاتے ہیں۔ ان کی سیاست نے شہر کو لسانیت، خوف اور مفاد پرستی کا اکھاڑا بنا دیا ہے۔ کراچی اب ایم کیو ایم جیسے سیاسی تاجر برداشت نہیں کر سکتا۔ اس شہر کو ایسی قیادت چاہیے جو اقتدار نہیں، خدمت کے لیے سیاست کرے۔ ایسی قیادت جو پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی یا ن لیگ کے دروازے پر وزارت کی بھیک مانگنے نہ جائے، بلکہ عوام کے حق کے لیے لڑے۔ کراچی کے ووٹرز کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ جو لوگ تمہیں بار بار بیچتے رہے، وہ تمہارے خیرخواہ نہیں، تمہارے اصل دشمن ہیں۔

ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو اب آئینہ دیکھنا چاہیے۔ وہ ’’حقوق‘‘ کی بات کرتے ہیں، مگر ان کے اپنے دفاتر عوام کے خون پسینے سے تعمیر ہوئے۔ وہ ’’اختیارات‘‘ مانگتے ہیں، مگر جب ملتے ہیں تو عوامی خدمت کے بجائے ذاتی کاروبار چمکانے میں لگ جاتے ہیں۔ ایم کیو ایم نے مہاجروں کی شناخت کو ذاتی مفادات کا ہتھیار بنا دیا۔ وہ ایک نظریہ تھی، مگر اب ایک سیاسی دکان بن چکی ہے۔ کراچی کا زوال اس وقت شروع ہوا جب اس کے نمائندے خود اس کی محرومی کے ذمے دار بن گئے۔ اب وقت ہے کہ کراچی کے عوام اٹھیں، ان سیاسی ترمیمی ماہرین کو مسترد کریں، اور ایک نئی سیاسی قوت کو جنم دیں جو کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنا سکے، نہ کہ ترمیموں اور وزارتوں کا کھیل۔ یہی پیغام وقت کا تقاضا ہے: کراچی اب کسی ترمیم کا محتاج نہیں؛ اسے تحریک ِ خدمت کی ضرورت ہے، سیاست ِ تجارت کی نہیں۔

میر بابر مشتاق.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ایم کیو ایم کے ایم کیو ایم نے کراچی کا کراچی کے کے ساتھ ہے کہ ا کے لیے

پڑھیں:

چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ معاشی خوشحالی لائے گا، ڈاکٹر شاہدہ وزارت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(اسٹاف رپورٹر)چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ترقی پذیر ممالک کے لیے اقتصادی ترقی اور معاشی خوشحالی کے نئے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے ممالک اپنے بنیادی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنا سکتے ہیں، جدید سڑکیں، ریلویز، بندرگاہیں اور اقتصادی زون قائم کر کے عالمی تجارت سے براہِ راست فائدہ حاصل کرنے کے ساتھ مقامی صنعتوں کو فعال اور روزگار کے مواقع بڑھاسکتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے کیا۔ وہ گزشتہ روز ہمدرد کارپوریٹ مرکزی دفتر میں اسپیکر جنرل (ر) معین الدین حیدر کے زیر صدارت منعقدہ ہمدرد شوریٰ کراچی کے اجلاس بعنوان’’عالمی امن، فلسطین کی جنگ بندی، پاکستان کی خارجہ پالیسی اور اْمت مسلمہ کا کردار‘‘ سے خطاب کررہی تھیں۔ اجلاس کی میزبان ہمدرد فائونڈیشن پاکستان کی صدر سعدیہ راشد (ہلال امتیاز)تھیں۔ ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے کہاکہ مغرب کا اقتصادی ماڈل قرضوں پر چلتا ہے جس سے دنیا بھر میں غربت اور مہنگائی بڑھتی جارہی ہے۔ غربت کے شکارترقی پذیر ممالک کے لیے چین کایہ پروگرام پیغامِ خوش حالی اور کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی لیے استعماری ممالک کی جانب سے اس پروگرام کی شد و مد سے مخالفت جاری ہے۔بی آر آئی کے پہلے حصے یعنی پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کے لیے بھارت سمیت دیگر کی جانب سے دہشت گردوں کی ہر قسم کی معاونت کی جارہی ہے۔ پاکستان کو سنجیدگی کے ساتھ پاک چین اقتصادی راہداری پروگرام کے فیز IIکو آگے بڑھانا چاہیے۔ اس کے لیے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سیکورٹی صورت حال بہتر بنانا ہوگی۔ بی آرآئی کو کام یاب بنانے میں ہی پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کی بقا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ لسانی اورمذہبی سیاست سے پاکستان کے معاشر ے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ سوچ نوآبادیاتی نظام کی باقیات ہے جس کا قلع قمع کرنا ضروری ہے۔سیاست کے ذریعے اجتماعی مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔قومی اتحاد اور ایماندارانہ سیاست سے ہی ملک کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہوا جاسکتا ہے۔ مغربی استعماری قوتیں آج بھی ترقی پذیر ممالک میں لسانی، نسلی اور دیگر تفریق پیدا کرکے بلاواسطہ قابض ہیں۔ ممالک کو جنگوں اور سرحدی تنازعات کی جانب دھکیل رہے ہیں۔قدرتی وسائل سے مالامال ممالک میں تقسیم کی سیاست کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ علیحدگی پسند جماعتوں کی مالی اور بسااوقات عسکری تعاون بھی دیا جاتا ہے۔ ان مسلح گروہوں کے ذریعے ممالک کو کمزور کرکے قدرتی وسائل و معدنیات اونے پونے داموں خرید کے مہنگے داموں اسلحہ بیچا جاتا ہے۔ لیکن اب مغرب کے دانشور اور عوام بھی فکری طور پر بیدار ہورہے ہیں۔جس طرح اْنہوں نے فلسطین کے حق میں بڑے اجتماع کیے وہ یقیناً ایک بڑی مثبت تبدیلی ہے۔ اراکینِ شوریٰ انجینئر انوار الحق صدیقی ، بریگیڈیئر (ر) طارق خلیل، مبشر میر، ظفر اقبال، انجینئر ابن الحسن رضوی، افضل حمید، سینیٹر عبدالحسیب خان، ڈاکٹر امجد جعفری، جسٹس(ر)ضیا پرویز، پروفیسر ڈاکٹر حکیم عبدالحنان ، کرنل(ر)مختار احمد بٹ،ڈاکٹر حنا خان، بریگیڈئر (ر) ڈاکٹر ریاض الحق، پروفیسر ڈاکٹر نسرین افضل، سید مظفر اعجاز ، ڈاکٹر عامر طاسین اور دیگر نے کہا کہ فلسطین اور سوڈان میں ظلم و جبر کے خلاف پاکستان نے اصولی سفارتی موقف اپنایا ہے جس کی زیادہ تر ممالک کی تائیدبھی حاصل رہی۔ کشمیر میں مظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارت نے پاکستان پر جارحیت کی لیکن فیلڈ مارشل عاصم منیر اور افواج پاکستان کی بہترین عسکری حکمت عملی کی بدولت اقوام عالم میں پاکستان کا وقار بلند ہوا۔

اسٹاف رپورٹر گلزار

متعلقہ مضامین

  • رانا ثنااللہ: جو کرو گے وہ بھروگے، خدمت کی سیاست ہی کامیاب
  • عمران خان کی سیاست جھوٹ اور بہتان کے سوا کچھ نہیں تھی، تمام فیصلے بشریٰ بی بی کرتی تھیں: عطا تارڑ
  • افغانستان میں بچوں کی غذائی قلت انسانی المیہ کی دہلیز پر
  • عسکری اور معاشی دہشت گردی کبھی اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے مجبور نہیں کر سکتی، ایران
  • سیاست، روحانیت اور اسٹیبلشمنٹ کا متنازع امتزاج،  عمران خان اور بشریٰ بی بی پر عالمی رپورٹ
  • علامہ اقبال اور جدید سیاسی نظام
  • ظہران ممدانی: دہلی کے بے گھر بچوں کے خواب سے نیویارک تک
  • چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ معاشی خوشحالی لائے گا، ڈاکٹر شاہدہ وزارت
  • سندھ طاس معاہدہ، ثالثی عدالت اور غیر جانبدار ماہر کے فیصلوں کا خیر مقدم: پاکستان