خیبر پختونخوا: علی امین کے استعفیٰ کے بعد سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ، پشاور میں کیا ہو رہا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے عمران خان کی ہدایت پر اپنا استعفیٰ گورنر خیبر پختونخوا کو ارسال کر دیا ہے۔ اس کے بعد وزیراعلیٰ ہاؤس میں مکمل خاموشی چھا گئی ہے، جبکہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے ساتھ اسپیکر ہاؤس اور گورنر ہاؤس میں سیاسی بیٹھکوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ رات گئے سے جاری ہے۔
وزیراعلیٰ ہاؤس کے مطابق، علی امین گنڈاپور نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب تک اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔ وہ گزشتہ رات اسلام آباد سے پشاور پہنچے اور اپنا استعفیٰ ارسال کیا۔
وزیراعلیٰ ہاؤس کے حکام کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور وزیراعلیٰ ہاؤس میں موجود ہیں تاہم کسی قسم کی میٹنگ یا اجلاس نہیں بلایا گیا۔
کابینہ اجلاس ملتویوزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے آج ہونے والا کابینہ اجلاس بھی ملتوی کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صوبائی کابینہ کا 40واں اجلاس آج دن 2 بجے ہونا تھا، تاہم وزیراعلیٰ کی طرف سے استعفیٰ دینے کے بعد اسے ملتوی کر دیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ کابینہ کا اجلاس اب نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے بعد ہو گا۔
ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ ہاؤس میں مکمل خاموشی ہے، کوئی خاص سرگرمیاں نہیں ہو رہیں، جبکہ سیاسی ملاقاتیں بھی معطل ہیں۔ بتایا گیا کہ علی امین گنڈاپور اپنے دفتر میں موجود ہیں اور ان کے ساتھ اسٹاف کے اعلیٰ حکام بھی ہیں۔ انہوں نے رات کو ہی ہدایت جاری کی تھی کہ کابینہ کا اجلاس نہیں ہو گا۔
‘سرکاری میٹنگز اور اجلاس نہیں ہوں گے’وزیراعلیٰ ہاؤس کے ذرائع نے بتایا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے استعفے کے بعد آج کے لیے شیڈول تمام سرگرمیاں منسوخ کر دی گئی ہیں، اور علی امین پورا دن دفتر میں گزاریں گے۔
ذرائع کے مطابق آج وزیراعلیٰ کا مصروف شیڈول تھا۔ صبح 9 بجے ایک محکمے کی میٹنگ، چند اہم ملاقاتیں، اور دوپہر 2 بجے کابینہ اجلاس تھا، جبکہ شام 5 بجے تک دیگر آفیشل سرگرمیاں بھی طے تھیں۔ تاہم استعفیٰ کے بعد تمام سرگرمیاں، میٹنگز اور ملاقاتیں کینسل کر دی گئی ہیں۔
‘علی امین پرانے کام نمٹا رہے ہیں’وزیراعلیٰ ہاؤس کے ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور آج دفتری امور نمٹا رہے ہیں اور فائلوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ بتایا گیا کہ مصروفیات کے باعث کچھ فیصلوں کی باضابطہ منظوری باقی تھی، جس پر وہ آج دستخط کر رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ آج وزیراعلیٰ کی کوئی سرکاری ملاقات طے نہیں، تاہم چیف سیکریٹری اور دیگر حکام ان سے ملاقات کریں گے، جبکہ شام کو چند قریبی حلقے ان سے الوداعی ملاقات کریں گے۔
وزیراعلیٰ ہاؤس میں خاموشی، اسپیکر ہاؤس میں سیاسی گہماگہمیعلی امین کے استعفیٰ کے بعد وزیراعلیٰ ہاؤس میں خاموشی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی واقع اسپیکر ہاؤس سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے۔ رات گئے نامزد وزیراعلیٰ سہیل آفریدی اور اراکین اسمبلی اسپیکر ہاؤس پہنچے اور مشاورت کی۔ اجلاس میں اسپیکر اور دیگر ہم خیال اراکین نے شرکت کی۔
علی امین گنڈاپور وزیر اعلیٰ ہاؤس چھوڑنے کی تیاری میںوزیراعلیٰ ہاؤس کے ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور نے وزیراعلیٰ ہاؤس چھوڑنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ بتایا گیا کہ وہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں اکیلے رہائش پذیر تھے، ان کی فیملی ساتھ نہیں تھی۔ ان کے بھائی اور بیٹا وقتاً فوقتاً آتے رہے، جبکہ دیگر اہل خانہ اسلام آباد میں مقیم تھے۔
ذرائع کے مطابق علی امین زیادہ تر وقت پختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں گزارنے کو ترجیح دیتے تھے۔
علی امین کے استعفے کے بعد اپوزیشن جماعتیں سرگرموزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے استعفے کے بعد خیبر پختونخوا میں اپوزیشن جماعتیں بھی سرگرم ہو گئی ہیں۔ اپوزیشن لیڈر اور (ن) لیگ کے ایم پی اے عباد اللہ اسلام آباد سے پشاور پہنچ گئے۔ انہوں نے گورنر سے ملاقات کی۔
ذرائع کے مطابق آج اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہو گا، جس میں وزارت اعلیٰ کے لیے مشترکہ امیدوار لانے پر بات چیت کی جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: علی امین گنڈاپور ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا اسپیکر ہاؤس اسلام آباد ہاؤس میں رہے ہیں ہاؤس کے کے بعد
پڑھیں:
خیبر پختونخوا میں کارروائیاں: سیکورٹی فورسز نے 17 دہشتگردوں کو انجام تک پہنچا دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور: خیبر پختونخوا میں کارروائیوں کے دوران سیکورٹی فورسز نے 17 دہشت گردوں کو انجام تک پہنچا دیا۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بنوں ریجن میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سیکورٹی فورسز، پولیس، سی ٹی ڈی اور امن کمیٹیوں نے مشترکہ کارروائیوں سے واضح کردیا کہ ریاست اپنی سرزمین سے فتنہ اور دہشتگردی ختم کرنے کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہے۔
مختلف علاقوں میں ہونے والے آپریشنز بیک وقت منظم، مربوط اور انتہائی حساس نوعیت کے تھے جن میں کسی بڑے نقصان کے بغیر اہم کامیابیاں حاصل کی گئیں۔ اطلاعات کے مطابق مجموعی طور پر 17 دہشتگردوں کو ان کارروائیوں کے دوران ہلاک کیا گیا جن میں تین انتہائی مطلوب اور خطرناک کمانڈرز بھی شامل تھے۔
ان کارروائیوں کا آغاز اس وقت ہوا جب شیری خیل اور پکہ پہاڑ خیل کے سنگلاخ علاقوں میں فتنۂ خوارج کے جتھوں کی موجودگی کی تصدیق ہوئی۔ مقامی پولیس، سی ٹی ڈی بنوں اور سیکورٹی فورسز نے مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے علاقے کو گھیرے میں لیا۔ شدید مقابلے کے نتیجے میں 10 دہشتگرد مارے گئے جبکہ 5 زخمی ہوئے۔
سیکورٹی ذرائع کے مطابق ایک سہولت کار کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جو ان جتھوں کو رسد اور نقل و حرکت میں مدد فراہم کرتا تھا۔ آپریشن کے دوران 7 لاشیں موقع سے مل گئیں جب کہ 3 دہشتگرد دشوار گزار پہاڑی دروں میں گرنے کے باعث موقع پر نہیں نکالی جا سکیں۔
ہلاک ہونے والوں میں 2 اہم کمانڈرز نیاز علی عرف اکاشا اور عبداللہ عرف شپونکوئی شامل تھے، جو طویل عرصے سے پولیس اور سیکورٹی فورسز کو مطلوب تھے اور متعدد کارروائیوں میں ملوث سمجھے جاتے تھے۔ اُدھر نصر خیل میں بھی ایک الگ کارروائی کے دوران ایک اور مطلوب دہشتگرد مارا گیا۔
بنوں کے علاقے ہوید میں بھی دہشتگردوں سے جھڑپ ہوئی مگر وہ تاریکی اور پہاڑی راستوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوگئے، تاہم ڈومیل کے علاقے میں دہشتگردوں نے پولیس کی اے پی سی پر اچانک فائرنگ کردی۔ فورسز نے فوری کمک طلب کی اور 8 گھنٹے طویل آپریشن کے بعد 6 دہشتگردوں کو ہلاک کردیا جن میں بدنام کمانڈر رسول عرف کمانڈر آریانہ بھی شامل تھا۔
کارروائی کے دوران بڑی مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا۔