Jasarat News:
2025-11-22@09:28:23 GMT

دنیا کے سرد ترین قصبے میں درجہ حرارت منفی 42 تک جا پہنچا

اشاعت کی تاریخ: 22nd, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

روس کے برف پوش خطے سائبریا میں واقع چھوٹا مگر دنیا بھر میں مشہور قصبہ اویمیاکون ایک بار پھر شدید سردی کے باعث عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے، جہاں درجہ حرارت رواں ہفتے منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر چکا ہے۔

ماہرین کے مطابق آنے والے دنوں میں یہ سردی مزید بڑھ سکتی ہے اور درجہ حرارت منفی 49 سے 50 ڈگری تک پہنچنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یہ قصبہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سرد ترین مستقل رہائشی مقام سمجھا جاتا ہے، جہاں شدید سرد موسم میں عام زندگی کو برقرار رکھنا بجا طور پر ایک چیلنج بن جاتا ہے۔

تقریباً 500 سے 900 افراد پر مشتمل یہ چھوٹا سا بستی نما قصبہ یاکوتیا کے پہاڑی سلسلے کے قریب آباد ہے۔ 1924ء  میں یہاں منفی 71.

2 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا، جسے غیر مصدقہ قرار دیا جاتا ہے، تاہم مصدقہ تاریخ میں یہاں سب سے کم درجہ حرارت 1933ء  میں منفی 67.7 ڈگری سینٹی گریڈ نوٹ کیا گیا، جو آج بھی ایک عالمی ریکارڈ تصور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مقام ’دنیا کا سرد ترین رہائشی قصبہ‘ کہلاتا ہے۔

اویمیاکون نامی اس بستی کا مطلب ’’کبھی نہ جمنے والا پانی‘‘ ہے، کیونکہ یہاں ایک گرم چشمہ موجود ہے جو سال بھر بہتا رہتا ہے۔ مگر نام کے برخلاف موسم سرما میں یہاں بہتا ہوا پانی تقریباً نظر نہیں آتا۔ حد تو یہ ہے کہ گھروں سے باہر موجود گاڑیوں کو 24 گھنٹے مسلسل چلانا پڑتا ہے، ورنہ دوبارہ اسٹارٹ کرنا ممکن نہیں رہتا۔

یہاں کے مقامی لوگ اکثر منجمد گوشت کھاتے ہیں کیونکہ کھانا پکانے کے لیے درکار پانی جمع کرنا اور گرم رکھنا ایک الگ آزمائش بن جاتا ہے۔

حد درجہ سردی کے باعث یہاں تدفین کا عمل بھی نہایت مشکل ہے۔ کسی فرد کے انتقال کی صورت میں پہلے کئی دن تک زمین کی سطح پر آگ جلائی جاتی ہے تاکہ سخت برف پگھلے اور قبر کھودی جا سکے۔ یہاں کے رہائشی اس قدر سردی کے عادی ہیں کہ باہر نکلتے ہوئے کبھی وقفہ لینے یا کھڑے ہونے کا سوچتے بھی نہیں کیونکہ جسمانی درجہ حرارت چند لمحوں میں خطرناک حد تک کم ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ چشمہ پہن کر باہر نہیں نکلتے، کیونکہ شیشے چہرے کی جلد سے چپک جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔

یہ قصبہ یاکوتسک نامی شہر سے 577 میل کے فاصلے پر واقع ہے جو دنیا کا سرد ترین بڑا شہر بھی کہلاتا ہے۔ وہاں سے اویمیاکون تک ایک ہی سڑک جاتی ہے اور اس سفر میں تقریباً 2 دن لگتے ہیں۔

شدید سرد موسم میں یہاں سورج کی روشنی 21 گھنٹے تک غائب رہتی ہے جبکہ صرف تین سے چار گھنٹے دھندلکی جیسی روشنی محسوس ہوتی ہے۔ سرد ہوا پہاڑی سلسلے کے بیچ پھنس جاتی ہے جس کے نتیجے میں درجہ حرارت ریکارڈ حد تک گر جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ موسم گرما میں یہی مقام کئی بار 30 سے 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے اور برف پگھلنے کے بعد زندگی نسبتاً معمول پر آ جاتی ہے۔ سخت موسم ہونے کے باوجود یہاں اسکول، پوسٹ آفس، بینک اور ایک چھوٹا سا ایئرپورٹ رن وے تک موجود ہے۔

ایڈونچر کے شوقین افراد کے لیے یہ جگہ خاص کشش رکھتی ہے اور ہر سال یہاں دنیا کی سرد ترین میراتھن بھی منعقد کی جاتی ہے جس میں شرکا 35 کلومیٹر دوڑتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق لوگوں کا یہاں رہنا صرف مجبوری نہیں بلکہ ایک روایت بھی ہے۔ مقامی باشندے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ وہ دنیا کے سرد ترین مقام پر رہتے ہیں اور شدید ترین حالات کے باوجود زندگی کی گاڑی پوری ہمت کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ڈگری سینٹی گریڈ میں یہاں جاتا ہے جاتی ہے میں یہ ہے اور

پڑھیں:

خیبر پختونخوا میں کارروائیاں: سیکورٹی فورسز نے 17 دہشتگردوں کو انجام تک پہنچا دیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پشاور: خیبر پختونخوا میں کارروائیوں کے دوران سیکورٹی فورسز نے 17 دہشت گردوں کو انجام تک پہنچا دیا۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بنوں ریجن میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سیکورٹی فورسز، پولیس، سی ٹی ڈی اور امن کمیٹیوں نے مشترکہ کارروائیوں سے واضح کردیا کہ ریاست اپنی سرزمین سے فتنہ اور دہشتگردی ختم کرنے کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہے۔

مختلف علاقوں میں ہونے والے آپریشنز بیک وقت منظم، مربوط اور انتہائی حساس نوعیت کے تھے جن میں کسی بڑے نقصان کے بغیر اہم کامیابیاں حاصل کی گئیں۔ اطلاعات کے مطابق مجموعی طور پر 17 دہشتگردوں کو ان کارروائیوں کے دوران ہلاک کیا گیا جن میں تین انتہائی مطلوب اور خطرناک کمانڈرز بھی شامل تھے۔

ان کارروائیوں کا آغاز اس وقت ہوا جب شیری خیل اور پکہ پہاڑ خیل کے سنگلاخ علاقوں میں فتنۂ خوارج کے جتھوں کی موجودگی کی تصدیق ہوئی۔ مقامی پولیس، سی ٹی ڈی بنوں اور سیکورٹی فورسز نے مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے علاقے کو گھیرے میں لیا۔ شدید مقابلے کے نتیجے میں 10 دہشتگرد مارے گئے جبکہ 5 زخمی ہوئے۔

سیکورٹی ذرائع کے مطابق ایک سہولت کار کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جو ان جتھوں کو رسد اور نقل و حرکت میں مدد فراہم کرتا تھا۔ آپریشن کے دوران 7 لاشیں موقع سے مل گئیں جب کہ 3 دہشتگرد دشوار گزار پہاڑی دروں میں گرنے کے باعث موقع پر نہیں نکالی جا سکیں۔

ہلاک ہونے والوں میں 2 اہم کمانڈرز نیاز علی عرف اکاشا اور عبداللہ عرف شپونکوئی شامل تھے، جو طویل عرصے سے پولیس اور سیکورٹی فورسز کو مطلوب تھے اور متعدد کارروائیوں میں ملوث سمجھے جاتے تھے۔  اُدھر نصر خیل میں بھی ایک الگ کارروائی کے دوران ایک اور مطلوب دہشتگرد مارا گیا۔

بنوں کے علاقے ہوید میں بھی دہشتگردوں سے جھڑپ ہوئی مگر وہ تاریکی اور پہاڑی راستوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوگئے، تاہم ڈومیل کے علاقے میں دہشتگردوں نے پولیس کی اے پی سی پر اچانک فائرنگ کردی۔ فورسز نے فوری کمک طلب کی اور 8 گھنٹے طویل آپریشن کے بعد 6 دہشتگردوں کو ہلاک کردیا جن میں بدنام کمانڈر رسول عرف کمانڈر آریانہ بھی شامل تھا۔

کارروائی کے دوران بڑی مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • خیبر پختونخوا میں کارروائیاں: سیکورٹی فورسز نے 17 دہشتگردوں کو انجام تک پہنچا دیا
  • پاکستان کی تقدیر بدلنے کا عزم
  • اگر حسینہ کی سزا پر عمل در آمد ہو جاتا ہے تو…
  • اس موسم میں روزانہ مونگ پھلی کھانے کے جسم پر مثبت اور منفی اثرات کیا ہیں؟
  • بلوچستان : سردی کی شدت میں اضافہ، درجہ حرارت 1 ڈگری تک گر گیا
  • بارڈر کی بندش نے طالبان کو دہلی کی دہلیز تک پہنچا دیا، آگے کیا ہوگا؟
  • جاپان کے قصبے اوئیتا میں آتشزدگی،170 گھر جل کر خاکستر
  • کوئٹہ کے مقبول ترین روایتی کلچوں کا سفر، تندور کی دھیمی آنچ سے دلوں تک
  • یادوں کا شہر لندن