اے آئی میں حیاتیاتی مسائل کی سوجھ بوجھ، سائنسدانوں کو زندگی کے ایک اہم راز سے روشناس کرادیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
چینی اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹیٹیوٹ آف زولوجی کے سائنس دانوں کی ایک تحقیقی ٹیم نے مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی پروٹین لینگویج ماڈل کی مدد سے زندگی کے ارتقا کا اہم راز دریافت کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانت نے مذہبی معاملات کا بھی رخ کرلیا، مذاہب کے ماننے والے کیا کہتے ہیں؟
مذکورہ ٹیم نے زندگی کے ارتقائی عمل کا ایک اہم میکانزم دریافت کیا جو یہ وضاحت کرتا ہے کہ مختلف جاندار ایک جیسے ماحولیاتی حالات کے تحت کیسے خود بخود ملتے جلتے افعال اختیار کر لیتے ہیں۔
اس سائنسی تصور کو ‘Convergent Evolution’ کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ مختلف انواع میں ایک جیسی خصوصیات کا آزادانہ اور بار بار ظہور جو مخصوص ماحولیاتی دباؤ یا ضروریات کے تحت وقوع پذیر ہوتا ہے۔
سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ پروٹینز کی اعلیٰ سطحی ساختی خصوصیات اس ہمگرائی کے عمل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر چمگادڑوں اور دانتوں والی وہیلوں کے درمیان جینیاتی فاصلے کے باوجود دونوں نے ماحول کو جانچنے کے لیے ایک جیسی صلاحیت، ایکو لوکیشن، آزادانہ طور پر حاصل کی ہے۔
مزید پڑھیے: لاکھوں ملازمتیں مصنوعی ذہانت کے نشانے پر، کون بچ پائے گا؟
تحقیق کی قیادت کرنے والے سائنس دان زو ژینگٹنگ نے ایک نیا کمپیوٹیشنل تجزیاتی فریم ورک متعارف کرایا ہے جسےاے سی ای پی کا نام دیا گیا ہے۔ اس فریم ورک کی بنیاد ایک پہلے سے تربیت یافتہ پروٹین لینگویج ماڈل پر رکھی گئی ہے۔
زو نے وضاحت کی کہ پروٹین لینگویج ماڈل امینو ایسڈز کے سلسلوں کے پیچھے پوشیدہ ساختی و فعالی خصوصیات اور پیٹرنز کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق نہ صرف زندگی کے ارتقائی قوانین کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کس طرح پیچیدہ حیاتیاتی مسائل کو حل کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتی ہے۔
مزید پڑھیں: لاہور پولیس کا ’مشینی مخبر‘: اب مصنوعی ذہانت چور ڈکیت پکڑوائے گی!
تحقیقی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں ارتقائی حیاتیات کے میدان میں مصنوعی ذہانت کی مزید وسیع اور مؤثر اطلاق کی امید رکھتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اے آئی اے آئی اور حیاتیاتی مسائل اے اور زندگی کے راز مصنوعی ذہانت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اے ا ئی اے اور زندگی کے راز مصنوعی ذہانت مصنوعی ذہانت زندگی کے اے ا ئی
پڑھیں:
برطانیہ نے امیگریشن قوانین سخت کردیے، غیر قانونی افراد کے لیے بڑے مسائل
لندن: برطانوی حکومت نے امیگریشن پالیسی کے حوالے سے ایک اہم اور غیر معمولی فیصلہ کرتے ہوئے رہائش کے لیے درکار مدت میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے، جس کے بعد ملک میں رہنے والے لاکھوں تارکینِ وطن کے مستقبل پر براہِ راست اثر پڑے گا۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق نئی مجوزہ پالیسی کے تحت برطانیہ آنے والے افراد کو مستقل رہائش حاصل کرنے کے لیے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ وقت انتظار کرنا ہوگا۔ حکومت نے واضح کیا ہے کہ قانونی طور پر آنے والے افراد کے لیے مستقل رہائش تک رسائی کا وقت بڑھا کر 20 برس تک کیا جا رہا ہے، جب کہ غیر قانونی طور پر پہنچنے والوں کو اس عمل کے لیے 30 برس تک انتظار کرنا پڑے گا۔
یہ قواعد برطانیہ میں پہلے سے مقیم تارکین پر بھی لاگو ہوں گے، جس سے ہزاروں خاندان متاثر ہوسکتے ہیں۔
برطانوی وزیرِ داخلہ شبانہ محمود نے پارلیمنٹ میں نئی امیگریشن پالیسی پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مستقل رہائش کے لیے درخواست دینے والے افراد کو لازمی طور پر سخت شرائط پوری کرنا ہوں گی۔ ان شرائط میں صاف کریمنل ریکارڈ، اے لیول کے معیار کی انگریزی بولنے کی صلاحیت، مالی ذمہ داریوں سے پاک ہونا اور ملک میں کسی قسم کا قرض نہ ہونا شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت امیگریشن کے ٹوٹے ہوئے نظام کو زیادہ منصفانہ اور شفاف طریقہ کار سے بدلنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ بہتر انضمام کے عمل کو فروغ دیا جا سکے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق نئی پالیسی میں قیام کی مدت میں بڑا اضافہ کرتے ہوئے مستقل رہائش کے لیے ضروری رہائشی مدت کو 5 برس سے بڑھا کر 10 برس کر دیا گیا ہے، تاہم کچھ شعبوں میں نرمی بھی رکھی گئی ہے۔
وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ نیشنل ہیلتھ سروس کے تحت خدمات انجام دینے والے ڈاکٹرز اور نرسیں بدستور 5 برس بعد رہائش کے لیے درخواست دے سکیں گے، جب کہ اضافی آمدنی رکھنے والے افراد، باصلاحیت پروفیشنلز اور انٹرپینیورز کے لیے یہ مدت 3 برس مقرر کی گئی ہے۔ بہترین مہارت رکھنے والے افراد کو فاسٹ ٹریک چینل کے تحت رہائش کے عمل میں سہولت دی جائے گی۔
شابانہ محمود نے اپنی تقریر میں اس حقیقت کا بھی ذکر کیا کہ ان کے اپنے والدین بہتر مستقبل کی تلاش میں برطانیہ آئے تھے اور وقت کے ساتھ مقامی کمیونٹی کا حصہ بن گئے۔ ان کے مطابق وہ چاہتی ہیں کہ ایسا نظام قائم کیا جائے جو آنے والے افراد کو ایک واضح اور منصفانہ راستہ فراہم کرے، لیکن ساتھ ہی ملک کے مفادات کا خیال بھی رکھا جائے۔