ٹریک کم، ٹرینیں آدھی، زمینوں پر قبضے، آئینی عدالت میں ریلوے کارکردگی پر کڑی تنقید
اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT
وفاقی آئینی عدالت میں ریلوے زمین کی لیز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو درخواست گزاروں سے ملاقات کرکے رقم مارک اپ کے ساتھ واپس لینے یا کوئی متبادل حل تجویز کرنے کی ہدایت کی ہے۔
چیف جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں وفاقی آئینی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کے دوران بلوچستان بار کونسل کو بھی نوٹس جاری کردیا۔
درخواست گزاروں کی نمائندگی کرتے ہوئے بیرسٹر گوہرنے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے ریلوے پراپرٹیز سے متعلق لیز پر ازخود نوٹس کارروائی کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: 5 برس میں ریلوے کے 537 حادثات، غیرمحفوظ پھاٹک بڑی وجہ قرار
ان کے مطابق کوئٹہ میں ریلوے کی مجموعی 117 پراپرٹیز تھیں جن میں سے صرف 4 پراپرٹیز ان کے موکل نے لیز پر حاصل کیں۔
بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ ان 117 میں سے صرف 4 ہی پراپرٹیز پر تعمیر نہیں ہوئی، باقی تمام زمینوں پر تعمیرات ہوچکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لیز کا معاہدہ 8 اکتوبر 2009 کو ہوا اور لیز کی رقم مکمل ادا کردی گئی تھی، تاہم بعد میں 8 دسمبر کو سپریم کورٹ میں لیز کو چیلنج کردیا گیا۔
مزید پڑھیں: ریلوے کی یورپ اور وسطی ایشیا تک رسائی کیسے ممکن ہوگی؟ حنیف عباسی نے بتادیا
انہوں نے مزید کہا کہ زمین استعمال کرنے کے لیے 5 سال کا وقت دیا گیا تھا جبکہ اس مدت میں تعمیر مکمل کرنا ممکن نہیں تھا، لہٰذا لیز کا دورانیہ بڑھایا جائے۔
سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریلوے کی زمینوں پر قبضوں اور تجاوزات کے حوالے سے سخت ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ ریلوے ملکیتی زمین پرقبضہ اور تجاوزات روکنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ ریلوے کی زمین قوم کی امانت ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ قیام پاکستان کے وقت ریلوے کی ٹرینوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی مگر آج ٹرینیں اور پٹریاں نصف رہ گئی ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان ریلوے کی 13,972 ایکڑ اراضی پر غیر قانونی قبضہ، مزید 14,042 لیز پر دیدی
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ریلوے کے بہترین کلب اور اسپتال اب ختم ہوچکے ہیں، جبکہ ریلوے کی زمینوں پر کچی آبادیاں، انڈسٹریاں اور گوٹھ قائم ہوگئے ہیں۔
ریلوے کے وکیل سے استفسار کرتے ہوئے انہوں نے پوچھا کہ ریلوے زمین کو زیرِ استعمال لانے کا کوئی منصوبہ موجود ہے یا نہیں، اور اگر ریلوے کو ساری زمین واپس بھی مل جائے تو اس کا کیا استعمال ہوگا؟
سماعت کے دوران ریلوے کے وکیل نے بتایا کہ راولپنڈی میں ریلوے کی 1359 کنال اراضی پنجاب حکومت نے کچی آبادی کے لیے الاٹ کردی تھی، جس میں ریلوے اسٹیشن کی زمین بھی شامل ہے۔
مزید پڑھیں: سب سے مشکل کام کی انتہائی کم تنخواہ، ریلوے کے گینگ مین نے دلخراش کہانی سنادی
تاہم پنجاب حکومت اپنی غلطی تسلیم کرچکی ہے اور 1288 کنال اراضی واپس ریلوے کے نام منتقل کردی گئی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریلوے حکام کی کارکردگی پر بھی شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریلوے کے افسران اے سی کمروں میں بیٹھے رہتے ہیں تو زمینوں پر قبضہ ہی ہوگا۔ صوبائی حکومت وفاق کی زمین کچی آبادی کو کیسے الاٹ کرسکتی ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان ریلوے اور کے الیکٹرک کے درمیان اصل تنازع ہے کیا؟
انہوں نے استفسار کیا کہ ریلوے کو تجاوزات کے خاتمے سے کس نے روکا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ریلوے نے تجاوزات اور قبضوں کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کیا اور آنکھیں بند کرکے بیٹھی رہی، حالانکہ زمین واگزار کرانے سے کسی نے ریلوے کے ہاتھ نہیں باندھ رکھے۔
بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیس کی سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بیرسٹر گوہر ریلوے کوئٹہ وفاقی آئینی عدالت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بیرسٹر گوہر ریلوے کوئٹہ وفاقی ا ئینی عدالت سماعت کے دوران مزید پڑھیں میں ریلوے نے ریلوے ریلوے کے ریلوے کی انہوں نے کہ ریلوے کی زمین کے لیے
پڑھیں:
خیبرپختونخوا کی زمین دہشت گردوں پر تنگ، سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں مزید 23 خواج ہلاک
سیکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا کے دو اضلاع میں کارروائیاں کرتے ہوئے بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہ فتنہ الخوارج کے 23 خوارج کو ہلاک کردیا، دو روز میں مجموعی طور پر 36 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق 16 اور 17 نومبر کو خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر باجوڑ اور بنوں میں انسداد دہشت گردی کی دو بڑی اور کامیاب کارروائیاں کی گئیں۔
ان کارروائیوں میں بھارتی پراکسی فتنہ الخوارج سے تعلق رکھنے والے 23 دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق باجوڑ میں خفیہ اطلاع پر سیکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے دہشتگردوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں اہم سرغنہ سجاد عرف ابوزر سمیت 11 خوارج ہلاک ہوئے۔
دوسری اسی نوعیت کی ایک اور کارروائی بنوں میں کی گئی، جس میں سیکیورٹی فورسز نے مؤثر حکمت عملی کے تحت 12 مزید خوارج کو ٹھکانے لگایا۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق مذکورہ علاقے میں سینیٹائزیشن آپریشن جاری ہے تاکہ کسی بھی بھارتی سرپرستی یافتہ دہشتگرد عناصر کو بھی ختم کیا جا سکے۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ’’عزمِ استحکام‘‘ کے تحت جاری ملک گیر انسدادِ دہشتگردی مہم پوری طاقت سے جاری ہے اور سیکیورٹی فورسز، قانون نافذ کرنے والے ادارے ملک سے بیرونی حمایت یافتہ دہشتگردی کے مکمل خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔
اس سے قبل 15 اور 16 نومبر کو سیکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا کے دو اضلاع میں کارروائیاں کرتے ہوئے فتنہ الخوارج کے 15 دہشت گردوں کو ہلاک کیا تھا۔
پہلی کارروائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں کی گئی، جس میں کراس فائرنگ کے نتیجے میں 10 خوارج ہلاک ہوئے ہلاک ہونے والوں میں گروہ کا سرکردہ کمانڈر عالم محسود بھی شامل تھا۔
دوسری کارروائی شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں کی گئی، جس میں سیکیورٹی فورسز نے مزید 5 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔