ریلوے زمین پر قبضہ روکنے والا کوئی ہے یا نہیں؟آئینی عدالت کے ریمارکس،ریلوے اراضی پر تجاوزات اور قبضہ کی رپورٹ طلب کرلی
اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)وفاقی آئینی عدالت نے ریلوے اراضی پر تجاوزات اور قبضہ کی رپورٹ طلب کرلی ،جسٹس حسن رضوی نے استفسار کیا کہ ریلوے زمین پر قبضہ روکنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ریلوے کی زمین قوم کی امانت ہے۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ ریلوے نے ملکیتی زمین کی واپسی کیلئے کیا اقدامات اٹھائے؟جسٹس حسن رضوی نے استفسار کیا کہ ریلوے زمین پر قبضہ روکنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ریلوے کی زمین قوم کی امانت ہے،قیام پاکستان کے وقت کتنی ٹرینیں چلتی تھیں؟آج ریلوے کی ٹرینیں اور پٹریاں آدھی رہ گئی ہیں،ریلوے کی زمین پر کچی آبادیاں، انڈسٹری اور گوٹھ بن گئے ہیں۔
اسلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی عدالت کی کازلسٹ منسوخ
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہاکہ کیا ریلوے کو تجاوزات اور قبضہ کیلئے زمین دی گئی تھی،ریلوے کے بہترین کلب اور ہسپتال بھی ختم ہو چکے ہیں،ریلوے کی ساری زمین واپس مل جائے تو کیا کریں گے؟
عدالت نے ریلوے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا ریلوے کی زمین کو زیراستعمال لانے کا کوئی پلان ہے؟
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہاکہ آئینی عدالت کا یہ مطلب نہیں کہ غیر آئینی چیزوں میں چلے جائیں ،وکیل ریلوے نے کہاکہ راولپنڈی میں ریلوے کی 1359کنال زمین کچی آبادی کو دیدی، راولپنڈی کا ریلوے سٹیشن بھی اسی اراضی میں شامل ہے،پنجاب نے غلطی تسلیم کرلی، 1288کنال اراضی واپس ریلوے کے نام انتقال ہو چکی ہے۔
الیکشن خلاف ورزی، طلال چودھری پر جرمانہ، اویس لغاری کو نوٹس
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہاکہ ریلوے افسران ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے رہتے ہیں،افسران اے سی روم میں بیٹھے رہیں تو زمینوں پر قبضہ ہی ہوگا،
عدالت نے کہاکہ صوبائی حکومت نے وفاق کی زمین کچی آبادی کو کیسے الاٹ کردی؟جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہاکہ ریلوے کو تجاوزات کے خاتمے سے کس نے روکا ہے؟وفاقی آئینی عدالت نے ریلوے اراضی پر تجاوزات، قبضہ کی رپورٹ طلب کرلی۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہاکہ استفسار کیا کہ ریلوے کی زمین ہیں ریلوے کی ا ئینی عدالت عدالت نے کہ ریلوے قبضہ کی
پڑھیں:
ٹریک کم، ٹرینیں آدھی، زمینوں پر قبضے، آئینی عدالت میں ریلوے کارکردگی پر کڑی تنقید
وفاقی آئینی عدالت میں ریلوے زمین کی لیز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو درخواست گزاروں سے ملاقات کرکے رقم مارک اپ کے ساتھ واپس لینے یا کوئی متبادل حل تجویز کرنے کی ہدایت کی ہے۔
چیف جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں وفاقی آئینی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کے دوران بلوچستان بار کونسل کو بھی نوٹس جاری کردیا۔
درخواست گزاروں کی نمائندگی کرتے ہوئے بیرسٹر گوہرنے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے ریلوے پراپرٹیز سے متعلق لیز پر ازخود نوٹس کارروائی کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: 5 برس میں ریلوے کے 537 حادثات، غیرمحفوظ پھاٹک بڑی وجہ قرار
ان کے مطابق کوئٹہ میں ریلوے کی مجموعی 117 پراپرٹیز تھیں جن میں سے صرف 4 پراپرٹیز ان کے موکل نے لیز پر حاصل کیں۔
بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ ان 117 میں سے صرف 4 ہی پراپرٹیز پر تعمیر نہیں ہوئی، باقی تمام زمینوں پر تعمیرات ہوچکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لیز کا معاہدہ 8 اکتوبر 2009 کو ہوا اور لیز کی رقم مکمل ادا کردی گئی تھی، تاہم بعد میں 8 دسمبر کو سپریم کورٹ میں لیز کو چیلنج کردیا گیا۔
مزید پڑھیں: ریلوے کی یورپ اور وسطی ایشیا تک رسائی کیسے ممکن ہوگی؟ حنیف عباسی نے بتادیا
انہوں نے مزید کہا کہ زمین استعمال کرنے کے لیے 5 سال کا وقت دیا گیا تھا جبکہ اس مدت میں تعمیر مکمل کرنا ممکن نہیں تھا، لہٰذا لیز کا دورانیہ بڑھایا جائے۔
سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریلوے کی زمینوں پر قبضوں اور تجاوزات کے حوالے سے سخت ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ ریلوے ملکیتی زمین پرقبضہ اور تجاوزات روکنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ ریلوے کی زمین قوم کی امانت ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ قیام پاکستان کے وقت ریلوے کی ٹرینوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی مگر آج ٹرینیں اور پٹریاں نصف رہ گئی ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان ریلوے کی 13,972 ایکڑ اراضی پر غیر قانونی قبضہ، مزید 14,042 لیز پر دیدی
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ریلوے کے بہترین کلب اور اسپتال اب ختم ہوچکے ہیں، جبکہ ریلوے کی زمینوں پر کچی آبادیاں، انڈسٹریاں اور گوٹھ قائم ہوگئے ہیں۔
ریلوے کے وکیل سے استفسار کرتے ہوئے انہوں نے پوچھا کہ ریلوے زمین کو زیرِ استعمال لانے کا کوئی منصوبہ موجود ہے یا نہیں، اور اگر ریلوے کو ساری زمین واپس بھی مل جائے تو اس کا کیا استعمال ہوگا؟
سماعت کے دوران ریلوے کے وکیل نے بتایا کہ راولپنڈی میں ریلوے کی 1359 کنال اراضی پنجاب حکومت نے کچی آبادی کے لیے الاٹ کردی تھی، جس میں ریلوے اسٹیشن کی زمین بھی شامل ہے۔
مزید پڑھیں: سب سے مشکل کام کی انتہائی کم تنخواہ، ریلوے کے گینگ مین نے دلخراش کہانی سنادی
تاہم پنجاب حکومت اپنی غلطی تسلیم کرچکی ہے اور 1288 کنال اراضی واپس ریلوے کے نام منتقل کردی گئی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریلوے حکام کی کارکردگی پر بھی شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریلوے کے افسران اے سی کمروں میں بیٹھے رہتے ہیں تو زمینوں پر قبضہ ہی ہوگا۔ صوبائی حکومت وفاق کی زمین کچی آبادی کو کیسے الاٹ کرسکتی ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان ریلوے اور کے الیکٹرک کے درمیان اصل تنازع ہے کیا؟
انہوں نے استفسار کیا کہ ریلوے کو تجاوزات کے خاتمے سے کس نے روکا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ریلوے نے تجاوزات اور قبضوں کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کیا اور آنکھیں بند کرکے بیٹھی رہی، حالانکہ زمین واگزار کرانے سے کسی نے ریلوے کے ہاتھ نہیں باندھ رکھے۔
بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیس کی سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بیرسٹر گوہر ریلوے کوئٹہ وفاقی آئینی عدالت