Islam Times:
2025-10-26@22:17:04 GMT

ملت کی فکری تعمیر، تحریکی وحدت اور دینی قیادت کا شعوری سفر

اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT

ملت کی فکری تعمیر، تحریکی وحدت اور دینی قیادت کا شعوری سفر

اسلام ٹائمز: شیخ سجاد حسین مفتی صاحب کی تحریر محض تنقید نہیں بلکہ ایک فکری منشور ہے۔ یہ منشور ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم دین کے لیے سنجیدہ ہوں، قوم کے لیے متحد ہوں اور قیادت کے لیے بااخلاص ہوں۔ شیخ سجاد حسین مفتی صاحب کی یہ تحریر ایک فکری آئینہ ہے۔ جس میں ہر تنظیم، ہر رہنماء اور ہر کارکن کو اپنی صورت دیکھنی چاہیئے۔ اگر ہم نے اس آئینے سے رخ موڑ لیا تو شاید ہماری نسلیں بھی اندھیرے میں بھٹکتی رہیں۔ تبصرہ: آغا زمانی

بلتستان کی علمی و فکری فضا میں کبھی کبھار ایسی تحریریں نمودار ہوتی ہیں، جو فقط نصیحت نہیں بلکہ اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی دعوتِ فکر ہوتی ہیں۔ محترم شیخ سجاد حسین مفتی کی زیرِ نظر تحریر بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہ کسی وقتی جوش یا وقتی سیاسی بیان کی پیداوار نہیں بلکہ ایک مدبر، بصیرت مند عالم دین کے اندرونی اضطراب اور ملت کی فکری بیداری کی پکار ہے۔ یہ تحریر بظاہر مجلسِ وحدت مسلمین گلگت بلتستان کی تقریبِ حلف برداری کے تناظر میں ہے، مگر درحقیقت یہ پورے نظامِ دینی و سیاسی عمل پر ایک سنجیدہ فکری مکالمہ ہے، جسے سمجھنا اور اس پر عمل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

1۔ قیادت اور عوام کا باہمی اعتماد
شیخ سجاد صاحب نے قیادت و عوام کے تعلق پر ایک بنیادی اصول واضح کیا ہے کہ قیادت وہی معتبر ہے، جو عوام کے احساسات و مطالبات کی نمائندہ ہو، نہ کہ ان پر فیصلہ مسلط کرے۔ یہی اصول اسلامی سیاست کا جوہر ہے۔ امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام نے بھی فرمایا: "مجھے تم پر حکومت کا شوق نہیں بلکہ میں تمہارے حق کو تم تک پہنچانے کے لیے کھڑا ہوا ہوں۔" یہ نکتہ آج کے سیاسی ماحول میں ایک صدائے حق ہے، جہاں قیادت اکثر عوام سے فاصلہ پیدا کر لیتی ہے اور فیصلے عوام کی مشاورت سے نہیں بلکہ ذاتی یا جماعتی مفاد سے جڑے ہوتے ہیں۔

2۔ مثبت سیاسی عمل کی ضرورت
شیخ سجاد حسین مفتی صاحب کے مطابق، ایم ڈبلیو ایم اور اس جیسی دینی جماعتوں کا مشن صرف احتجاج یا مزاحمت نہیں بلکہ ایک مثبت سیاسی عمل کے ذریعے دینی اقدار کی ترویج ہے۔ یہی وہ نظریہ ہے، جو انقلاب اسلامی ایران کے رہنماء امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے پیش کیا۔ "سیاست عینِ دیانت ہے۔" بدقسمتی سے ہمارے ہاں مذہبی سیاست کو اکثر منفی معنوں میں لیا گیا ہے۔ شیخ سجاد مفتی صاحب نے بجا فرمایا کہ دین اور سیاست کی جدائی دراصل امت کی فکری موت ہے۔

3۔ خود احتسابی، ایک فکری ضرورت
تقاریر کے بعد شیخ سجاد حسین مفتی صاحب کا غور و فکر دراصل اجتماعی خود احتسابی کی طرف اشارہ ہے۔ یہ سوال کہ ہم نے بطور قوم یا ملت گذشتہ عشروں میں کیا کھویا اور کیا پایا۔؟ یہی وہ سوال ہے، جس سے زندہ قومیں اپنے راستے درست کرتی ہیں۔ بندہ حقیر کے نزدیک یہ خود احتسابی ہی وہ آئینہ ہے، جس میں ملت اپنی کمزوریاں دیکھ کر اصلاح کا آغاز کرسکتی ہے۔

4۔ اسلامی فکر و عمل کے امتیازات
شیخ سجاد مفتی صاحب نے دینِ محمدی (ص) کے وہ بنیادی اصول گنوائے ہیں، جو ہمیں عدل، وحدت اور بندگی کی راہ پر قائم رکھتے ہیں۔ یہ وہ اقدار ہیں، جو کسی بھی تحریک یا جماعت کو نظریاتی انحراف سے بچاتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری دینی و سیاسی تحریکوں نے اکثر ان اصولوں کو نعروں میں محدود کر دیا ہے۔ عملی میدان میں تفرقہ، مفاد پرستی اور انا پرستی نے اجتماعی طاقت کو زنگ آلود کر دیا ہے۔

5۔ تلخ حقیقت، فکری زوال کا اعتراف
شیخ سجاد صاحب نے قوم کے فکری زوال پر جس سچائی سے پردہ اٹھایا ہے، وہ ان کی درد مندی کی علامت ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم نے خالص دینی تشخص کو چھوڑ کر مغربی جمہوریت کے سکیولر دھارے میں پناہ لینے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے، جو ہمارے بیشتر مذہبی و سیاسی دھڑوں کی فکری الجھن کو عیاں کرتا ہے۔ راقم کے نزدیک یہ تسلیم کرنا کہ ہم دینی حکمتِ عملی سے محروم ہیں، احیاءِ فکر کی پہلی شرط ہے۔

6۔ افرادی قوت کی تیاری، انقلاب کا تقاضا
شیخ صاحب نے نہایت منطقی انداز میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اگر آج ہمیں اقتدار یا اختیار دیا جائے تو کیا ہمارے پاس اتنے نظریاتی، تربیت یافتہ اور اہل افراد موجود ہیں، جو نظامِ اسلامی کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔؟ یہ سوال فقط تنظیمی نہیں بلکہ ملی سطح کا بحران ہے۔ آج امت کے پاس خطیب بہت ہیں، مگر مدبر کم۔ مقرر بہت ہیں، مگر منتظم کم۔ ایران کی مثال دے کر شیخ صاحب نے یہ واضح کیا کہ انقلاب صرف نعرے سے نہیں بلکہ تیار شدہ فکری فوج سے برپا رہتا ہے۔

7۔ نظریاتی ماڈل کی تلاش
پاکستانی شیعہ معاشرے کے لیے موزوں سیاسی و سماجی ماڈل کی تلاش پر شیخ سجاد مفتی صاحب کی گفتگو نہایت بصیرت افروز ہے۔ انہوں نے چند ممکنہ ماڈلز۔ ایران، لبنان، افغانستان وغیرہ۔ کا ذکر کرکے ایک اہم فکری سوال اٹھایا ہے: کیا ہم نے اپنے سماجی و سیاسی وجود کے لیے کوئی واضح نظریاتی خاکہ متعین کیا ہے۔؟ راقم کے نزدیک یہ بحث مستقبل کی سیاست کی سمت طے کرسکتی ہے، بشرطِ صداقت و اخلاص۔

8۔ تنظیمی روش اور باہمی تعاون
شیخ صاحب نے شخصیت پرستی، تنظیمی تکبر اور محدود اطاعت کے خلاف جو موقف پیش کیا ہے، وہ روحِ توحید کی تفسیر ہے۔ قرآن کہتا ہے: "وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى"، نیکی میں تعاون کرو، دشمنی میں نہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے "اپنوں" سے مقابلہ اور "غیروں" سے نرمی کی روش اپنا لی ہے۔ یہ وہ داخلی کمزوری ہے، جو ملت کو انتشار میں مبتلا کرتی ہے۔


9۔ شورائی نظام کی تجویز اتحاد کی عملی صورت
آخر میں محترم شیخ سجاد حسین مفتی نے ایک نہایت عملی تجویز پیش کی ہے کہ ہر علاقے میں امامِ جمعہ کی سرپرستی میں ایک مشاورتی کونسل تشکیل دی جائے، جس کے سامنے تمام تنظیمیں جواب دہ ہوں۔ یہ تجویز دراصل وحدتِ اجتماعی اور نظمِ دینی قیادت کی بنیاد رکھتی ہے۔ اگر اس اصول کو خلوص سے اپنایا جائے تو بلتستان بلکہ پورے پاکستان میں انتشار کی جگہ نظم اور ذاتی مفادات کی جگہ ملت کی فکر جنم لے سکتی ہے۔

دعا اور دعوتِ عمل
شیخ سجاد حسین مفتی صاحب کی تحریر محض تنقید نہیں بلکہ ایک فکری منشور ہے۔ یہ منشور ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم دین کے لیے سنجیدہ ہوں، قوم کے لیے متحد ہوں اور قیادت کے لیے بااخلاص ہوں۔ شیخ سجاد حسین مفتی صاحب کی یہ تحریر ایک فکری آئینہ ہے۔ جس میں ہر تنظیم، ہر رہنماء اور ہر کارکن کو اپنی صورت دیکھنی چاہیئے۔ اگر ہم نے اس آئینے سے رخ موڑ لیا تو شاید ہماری نسلیں بھی اندھیرے میں بھٹکتی رہیں۔

آخری گزارش
شیخ سجاد حسین مفتی کا یہ فکری پیغام دراصل ایک نئی فکری و تنظیمی بیداری کی بنیاد رکھتا ہے۔ اس پیغام کی روشنی میں اگر ہر خطیب، ہر کارکن، ہر رہنماء اپنے کردار کا محاسبہ کرے تو بلتستان کا سیاسی و دینی مستقبل یقیناً روشن ہوسکتا ہے۔ ان شاء اللہ

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: شیخ سجاد حسین مفتی صاحب کی نہیں بلکہ ایک ایک فکری کی فکری کے لیے کی فکر

پڑھیں:

مفتی عبدالرحیم کے ٹی ٹی پی اور سانحہ لال مسجد کے حوالے سے چشم کشاء انکشافات

اسلام ٹائمز: جامعۃ الرشید کے مہتمم مفتی عبدالرحیم نے تحریک طالبان پاکستان کے دیوبند مدارس کے حوالے سے تعلق اور سانحہ لال مسجد کے حوالے سے حقائق پر مبنی انکشافات کئے ہیں، اس حوالے سے انکے ویڈیو بیانات توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، جس میں کالعدم دہشتگرد جماعت ٹی ٹی پی کے دیوبند مدارس کے حوالے سے تعلق کا اعتراف کر رہے ہیں۔ متعلقہ فائیلیںرپورٹ: سید عدیل عباس

معروف دیوبند عالم دین اور جامعۃ الرشید کے مہتمم مفتی عبدالرحیم نے تحریک طالبان پاکستان کے دیوبند مدارس کے حوالے سے تعلق اور سانحہ لال مسجد کے حوالے سے حقائق پر مبنی انکشافات کئے ہیں، اس حوالے سے ان کے ویڈیو بیانات توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، جس میں کالعدم دہشتگرد جماعت ٹی ٹی پی کے دیوبند مدارس کے حوالے سے تعلق کا اعتراف کر رہے ہیں اور اس کیساتھ ایک دوسرے بیان میں سانحہ لال مسجد کے حوالے سے کئے جانے والے پروپیگنڈے کی حقیقت بتا رہے ہیں، انہوں نے کیا کہا، آیئے دیکھتے ہیں اس ویڈیو رپورٹ میں۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial

متعلقہ مضامین

  • کوئٹہ: تحریک بیداری امت مصطفیؐ کے سربراہ علامہ جواد نقوی وحدت امت کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں
  • کیا کچھ ہوسکتا ہے؟
  • عون رضا انجم نے عبدالغفار کو مجلس وحدت مسلمین تحصیل جلالپور پیروالا کا آرگنائزر نامزد کردیا 
  • بابا گرونانک کے 556ویں جنم دن کی تقریبات: بھارت سے 2 ہزار 200 سکھ یاتری 4 نومبر کو پاکستان پہنچیں گے
  • سردار مسعود خان کی کشمیری شاعروں اور ادیبوں سے معاشرے کی فکری اور نظریاتی رہنمائی کی اپیل
  • مفتی عبدالرحیم کے ٹی ٹی پی اور سانحہ لال مسجد کے حوالے سے چشم کشاء انکشافات
  • جماعت اسلامی کا اجتماع عام “نظام بدلو تحریک” کا ولولہ انگیز پڑاؤ ہوگا، نگہت قریشی
  •  اگر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی جسارت کی گئی تو پھر حالات کی ذمے داری حکومت پر ہوگی، جے یو آئی(ف) 
  • موضوع: رہبر معظم کا کھلاڑیوں اور نوجوانوں سے خطاب