Islam Times:
2025-10-26@10:34:53 GMT

ملت کی فکری تعمیر، تحریکی وحدت اور دینی قیادت کا شعوری سفر

اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT

ملت کی فکری تعمیر، تحریکی وحدت اور دینی قیادت کا شعوری سفر

اسلام ٹائمز: یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ تمام مذہبی شخصیات، تنظیمیں اور ادارے دین کے خیرخواہ ہیں اور وہ اپنے اپنے ذوق، سلیقے اور فہم کے مطابق خدمتِ دین میں مصروف ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی دین کا غدار یا خائن نہیں۔ شخصیت پرستی، جماعتی تعصب اور غیر معصوم افراد کی بلا قید و شرط اطاعت دراصل روحِ توحید اور ملی وحدت کے منافی ہے۔ دینی و اجتماعی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ کسی سے عداوت نہیں اور برّ و تقویٰ کے کاموں میں ہر ایک سے تعاون کی پالیسی پر عمل کیا جائے۔ ہر ادارہ، تنظیم یا جماعت ملی ترجیحات اور دینی اصولوں کے مطابق اپنے بنیادی اہداف کے لیے طویل المدتی منصوبے بنائے اور وقتی مسائل کے لیے الگ لائحۂ عمل تشکیل دے۔ مگر اس عمل میں دوسروں کی تحقیر یا تضعیف سے گریز کرے۔ تحریر: شیخ سجاد حسین مفتی

مجلس وحدتِ مسلمین گلگت بلتستان کی صوبائی کابینہ کی تقریبِ حلف برداری سکردو کے سنگم شادی ہال میں منعقد ہوئی۔ اس پروقار تقریب میں بلتستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے نمائندگان کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی تنظیموں کے صدور اور نمایاں شخصیات کو بھی خصوصی دعوت دی گئی تھی۔ تقریب میں شریک تمام تنظیموں، جماعتوں اور اداروں کے نمائندوں کو اظہارِ خیال کا موقع دیا گیا۔ تمام مقررین نے اپنے خطابات میں مجلس وحدتِ مسلمین کے اہداف، طرزِ عمل اور خدمات کے بارے میں کوئی منفی رائے پیش نہیں کی بلکہ متفقہ طور پر آغا علی رضوی صاحب کی جرات مندانہ قیادت، خطابت اور دینی و قومی مسائل پر ان کے دوٹوک مؤقف کی بھرپور تعریف کی۔ مقررین نے کہا: ''آغا علی رضوی صاحب ہم سب کے پیر و مرشد ہیں، ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں، ہم پہلے بھی ان کے ساتھ تھے، آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔''

تقریب کے دوران بیشتر مقررین نے سیاسی فہم و فراست کے ساتھ اپنی گفتگو میں اتحاد، بصیرت اور اجتماعی جدوجہد کی اہمیت پر زور دیا۔ اس موقع پر صوبائی رہنماء ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان و اپوزیشن لیڈر جی بی اسمبلی محمد کاظم میثم صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجلس وحدتِ مسلمین ایک دینی، سیاسی اور عوامی جماعت ہے اور یہ اپنی اسی خصوصیت کو ہمیشہ برقرار رکھے گی۔ اُنہوں نے جماعت کے نصب العین، طرزِ سیاست اور خدمات کی جامع وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم کا ہر قدم عوامی خدمت، قومی خودداری اور دینی بیداری کے لیے ہے۔

قیادت کا وژن، کارکنوں کا اعتماد
اپنے خطاب میں محمد کاظم میثم صاحب نے کہا کہ مجلس وحدتِ مسلمین کی مرکزی قیادت، بالخصوص علامہ راجا ناصر عباس جعفری صاحب کی قیادت کی انفرادیت یہی ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے عوام پر کوئی فیصلہ مسلط نہیں کرتے۔ ان کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ: گلگت بلتستان کے بارے میں ہمارا مؤقف وہی ہے، جو وہاں کے عوام کا مؤقف ہے۔ آغا علی رضوی اور وہاں کے عوام جو مطالبات پیش کرتے ہیں، میں اسی مؤقف کو قبول کرتا ہوں، اُسی کی ترجمانی سیاسی، مذہبی اور ریاستی فورمز، حتیٰ کہ سینیٹ میں بھی کرتا ہوں اور انہی مطالبات کے حق میں جدوجہد کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ کاظم میثم صاحب نے سوال اٹھایا کہ: کیا دوسری سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادتیں بھی اپنے کارکنوں اور عوام کے مطالبات کے ساتھ اسی طرح کی وابستگی اور احترام کا مظاہرہ کرتی ہیں۔؟

انہوں نے کہا کہ مجلس وحدتِ مسلمین کا یہ امتیاز ہے کہ یہاں کارکنوں کے احساسات اور عوامی مفادات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اور یہی جماعتی استحکام و اعتماد کی بنیاد ہے۔ تقریب میں ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی تقاریر اور خطابات کے بعد جب میں نے گھڑی دیکھی تو اذانِ مغرب میں تقریباً پچیس منٹ باقی تھے، چنانچہ میں وہاں سے روانہ ہوگیا۔ بعد ازاں آغا علی رضوی صاحب نے خطاب فرمایا، جس کا خلاصہ ایک عزیز نے میرے ساتھ شیئر کیا۔ آغا علی رضوی صاحب کے خطاب کا نچوڑ یہ تھا کہ: ہماری جماعت اور قیادت کا وژن، مشن اور ایکشن پلان۔ یعنی نصب العین، مقاصد اور طرزِ عمل۔ دینی اقدار، عوامی مفادات اور عوامی امنگوں کے عین مطابق ہے۔ ہم ان اہداف کے حصول کے لیے مثبت سیاسی عمل کے ذریعے آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور اس راہ میں کسی بھی ظلم، جبر یا سودے بازی کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔

فکری تأمل اور دینی خیر خواہی
تمام سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے صدور و نمائندوں کی تقاریر سننے کے بعد ذہن میں ایک طویل فکری سلسلہ جاگ اُٹھا۔ کئی دہائیوں پر محیط مختلف جماعتوں کے روییّے، ان کے نظریاتی رجحانات، دینی اقدار سے وابستگی اور عملی میدان میں کارکردگی کا موازنہ کرتے ہوئے ذہن میں بہت سی باتیں گردش کرنے لگیں۔ میں نے محسوس کیا کہ اگر ہمارے معاشرے میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک پُرامن، آزاد اور باوقار ماحول پیدا کیا جائے۔ جہاں ہر فرد کو اپنی فکری و تنظیمی سرگرمی کی آزادی حاصل ہو۔ تو یقیناً قوم کی فکری تعمیر اور دینی بیداری میں ایک نیا باب کھل سکتا ہے۔ انہی خیالات کو میں نے چند نکات یا عنوانات کی صورت میں قلم بند کیا ہے، اس امید کے ساتھ کہ محترم قارئین مطالعہ کے بعد اپنی قیمتی آراء سے مجھے ضرور آگاہ فرمائیں گے۔

سیاسی و مذہبی جماعتوں کے تمام معزز کارکنان اور عہدیداران کے نام
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ "وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ"، "تم میں سے ایک ایسی جماعت ضرور ہونی چاہیئے، جو نیکی کی طرف دعوت دے۔" (آلِ عمران: 104) "وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا"، "باطل پرستوں کے مقابلے میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرو اور حق کی خدمت کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہو۔" (آلِ عمران: 200) "وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ"، "اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرتے رہو۔" (العصر: 3) اپنی جماعت یا تنظیم کے کارکنوں اور قیادت کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد دین، ملت اور انسانیت کی خدمت کا جو موقع نئے منتخب عہدیداران کو حاصل ہوا ہے، اس پر میں دل کی گہرائیوں سے ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی دینی و اخلاقی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو اُن گمراہ کن طوفانوں اور ہلاکت خیز بھنوروں سے محفوظ رکھے، جو راہِ حق پر چلنے والوں کے لیے ہمیشہ آزمائش بنتے ہیں۔ آمین یا رب العالمین

اسلامی فکر کے امتیازات اور ہماری موجودہ زبوں حالی
تبریک اور دعا کے بعد ایک عاجزانہ گزارش ہے کہ ذیل کی تحریر کو صبر و سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ فرمایا جائے، کیونکہ یہ محض تنقید نہیں بلکہ اصلاح و بیداری کی ایک صدا ہے۔

اسلامی فکر و عمل کے امتیازات
خالص محمدی اسلام کی امتیازی خصوصیات وہ روحانی و اخلاقی بنیادیں ہیں، جن پر ایک صالح معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ ان کی چند نمایاں خصوصیات یہ ہیں:
1۔ عبودیتِ خالص: ہر قسم کی پرستش کو ترک کرتے ہوئے صرف خدا کی اطاعت و بندگی کو مقصدِ حیات بنانا۔
2۔ ملتِ واحدہ کا قیام: ہر طرح کی تفرقہ بازی، گروہ بندی اور سیکولر طاقتوں کے اثر و نفوذ سے دُور رہ کر خالص دینی بنیادوں پر امتِ واحدہ کی تشکیل کے لیے عملی جدوجہد۔
3۔ وسعتِ قلبی و رواداری: ہر قسم کی تہمت، افتراء، تنگ نظری اور انتہاء پسندی سے اجتناب کرتے ہوئے اعلائے کلمۂ حق کے لیے ایثار، قربانی، تحمل اور رواداری کا مظاہرہ۔
4۔ عدل پروری: ہر طرح کے ظلم، ناانصافی اور استحصال سے کنارہ کش رہتے ہوئے عدل و انصاف کو ہر اجتماعی نظام کا محور بنانا۔
5۔ حکمت و بصیرت پر مبنی سیاست: ہر قسم کی بچگانہ حرکتوں، جذباتی نعرہ بازی اور زمینی حقائق سے بے خبری سے پرہیز کرتے ہوئے ایک عاقلانہ، سنجیدہ، دوررس اور حکیمانہ پالیسی اختیار کرنا، جو حقیقت سے ہم آہنگ اور عملیت پر مبنی ہو۔

تلخ حقیقت
یہ ایک تلخ مگر ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ ہم نے بحیثیتِ قوم ان تمام اعلیٰ اقدار کو تدریجاً فراموش کر دیا ہے۔ ہم اپنی دینی شناخت، فکری خودی اور اخلاقی تشخص سے کٹ چکے ہیں۔ ہماری اجتماعی زندگی میں طفلانہ حرکات، بچگانہ جوش، شخصیت پرستی، گروہی عصبیت، اپنوں سے دوری اور غیروں سے وابستگی نے گہری جڑیں پکڑ لی ہیں۔ ہم نے وطنِ عزیز میں دین کے استحکام اور ترویج کے لیے نہ کوئی طویل المدتی منصوبہ بندی کی، نہ پچاس یا دس سالہ اہداف مقرر کیے۔ ہماری ساری کوششیں صرف اس بات پر مرکوز رہیں کہ پاکستان کے مغربی جمہوری و سیکولر نظام میں کسی طرح ایک محدود جگہ حاصل کر لی جائے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ضد، انانیت، ہٹ دھرمی، خود پرستی اور "اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی" جیسی نفسیات ہماری سیاسی و مذہبی تنظیموں کے اجتماعی مزاج کا حصہ بن چکی ہیں۔ افسوس کہ شیعہ مذہبی تنظیمیں بھی اس وبائی مرض سے مکمل طور پر محفوظ نہ رہ سکیں۔

ضرورت اور تیاری کی کیفیت
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں گریڈ ۱۷ تا ۲۲ تک کے تقریباً ۱۲۰,۰۰۰ افسران موجود ہیں۔ گلگت بلتستان کی سطح پر بھی ۱۷ تا ۲۲ گریڈ کے کم از کم ۶۰۰ افسران برائےِ کارِ خدمت مطلوب ہیں، جبکہ تقریباً ۷۵۰ اسامیاں خالی ہیں۔ یعنی مجموعی طور پر تقریباً ۱,۳۵۰ (تقریباً چودہ سو) افسران کی فوری ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آج ملک کی حکومت ہمیں سونپ دی جائے اور ہم اسے محمدی علوی اصولوں کے مطابق چلانا چاہیں تو ہمیں کتنے اہل، دین شناس اور نظریاتی تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہوگی۔؟ میرا محتاط تخمینہ یہ ہے کہ کم از کم ۳۵۰,۰۰۰ (ساڑھے تین لاکھ) ایسے مخلص، تربیت شدہ افراد درکار ہوں گے۔ اس لیے کہ کسی منصب پر واقع شخص کے شہید ہونے، منحرف ہو جانے یا جھک جانے کی صورت میں فوراً کام سنبھالنے کے لیے تین درجوں پر ایک مضبوط ریزرو موجود ہونا لازم ہے:
1۔ اعلٰی سطح۔۔ وہ سینیئر رہنماء جو پالیسی اور وژن کو آگے بڑھائیں۔
2۔ درمیانی سطح۔۔ وہ مینیجرز اور منتظمین جو نظام کو چلائیں۔
3۔ نچلی سطح۔۔ وہ عملی کارکن اور فیلڈ اہلکار جو روزمرہ امور سنبھالیں۔

تاریخی مشاہدہ: ایران کے انقلاب کا حوالہ ہمارے لیے عبرتِ آمیز ہے۔ انقلاب کے دورِ احتجاج، انتقام یا دہشت گردی کے مرحلوں میں سینکڑوں اعلیٰ، ہزاروں درمیانی اور لاکھوں نچلی سطح کے مخلص کارکن شہید یا ضائع ہوگئے، مگر وہاں پہلے سے تیار کردہ ریزرو نیرویِ تربیت یافتہ نے فوراً خلا پورا کر دیا، اس لیے انقلاب مسلسل و مؤثر رہا۔ تو ہمارا سوال واضح ہے: کیا ہم نے یہ افرادی قوت تربیت کی ہے؟ کیا ہمارے ادارتی، تعلیمی اور جماعتی ڈھانچے نے ایسے مخلص اور نظریاتی اہل افراد کی تربیت و جانچ کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی؟ یا ہم پھر اسی عارضی نظام پر انحصار کر رہے ہیں، جس میں چند شخصیات کے گرد سب کچھ مرکوز رہتا ہے اور جب وہ کم پڑ جائیں تو خلا پیدا ہو جاتا ہے۔؟

فکری رہنمائی اور قومی ماڈل کی تلاش
زندگی کے مختلف شعبوں میں عصری تقاضوں کے مطابق رہنمائی فراہم کرنے اور ملت کی درست تعلیم و تربیت کے لیے ایسی علمی و نظریاتی شخصیات کی ضرورت ہے، جو فقاہت، اجتہاد اور اجتماعی بصیرت کے اعلیٰ معیار پر فائز ہوں۔ آج کے حالات میں امت کو دسیوں فقیہ اور ہزاروں مخلص و بصیر علماء درکار ہیں۔ مگر سوال یہ ہے: کیا ہمارے پاس مطلوبہ مقدار میں ایسے اہل عالم موجود ہیں، جو اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھا سکیں۔؟

کون سا ماڈل؟
پاکستان کے مذہبی و سماجی جغرافیے، اس کی اکثریتی سنی فضا اور اپنے مخصوص عقیدۂ امامت کی روشنی میں یہ طے کرنا ازبس ضروری ہے کہ پاکستانی شیعہ کمیونٹی کے لیے کون سا نظریاتی، سماجی اور سیاسی ماڈل ایسا ہوسکتا ہے جو: انہیں اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی آزادی دے، اکثریت کے ساتھ پرامن ہم آہنگی کو ممکن بنائے اور انہیں فکری، سماجی، معاشی اور سیاسی سطح پر منصفانہ شرکت و مؤثر کردار کا موقع فراہم کرے۔

ممکنہ ماڈلز کے طور پر چند مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں:
1۔ پاکستان کا 1973ء کا آئینی ڈھانچہ: کیا موجودہ آئین میں رہتے ہوئے ملت کے تشخص اور حقوق کا تحفظ ممکن ہے۔؟
2۔ افغانستان کا "شمالی اتحاد" ماڈل (برہان الدین ربانی کے زمانے کا): جہاں شیعہ اقلیت نے مخصوص سیاسی و انتظامی خود مختاری کے ذریعے کردار ادا کیا۔
3۔ ایران کے سنّیوں کے لیے اختیار کردہ ماڈل: جس میں مذہبی اقلیتوں کو شہری اور مذہبی آزادی کے ساتھ ریاستی سطح پر نمائندگی دی گئی۔
4۔ لبنان کا شیعہ ماڈل: جہاں شیعہ عوام نے ایک منظم سیاسی و سماجی ڈھانچہ تشکیل دیا اور ریاستی معاملات میں متوازن شرکت کو یقینی بنایا۔
5۔ یا کوئی نیا، خالصتاً پاکستانی ماڈل: جو ہمارے مذہبی، ثقافتی اور آئینی تناظر میں خود تیار کیا جائے۔

ماڈل کی وضاحت اور قبولیت
جب ایک ماڈل متعین ہو جائے تو لازم ہے کہ اسے اپنی ملت، ریاستی اداروں اور دیگر مسالک کے رہنماؤں کے سامنے مدلّل انداز میں پیش کیا جائے، انہیں سمجھایا جائے کہ پاکستان میں ملتِ تشیع کے لیے اسی ماڈل کا تسلیم کیا جانا عدل، انصاف، قومی یکجہتی اور مذہبی ہم آہنگی کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔

اخلاص و ہم آہنگی کا پیغام
یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ تمام مذہبی شخصیات، تنظیمیں اور ادارے دین کے خیرخواہ ہیں اور وہ اپنے اپنے ذوق، سلیقے اور فہم کے مطابق خدمتِ دین میں مصروف ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی دین کا غدار یا خائن نہیں۔ شخصیت پرستی، جماعتی تعصب اور غیر معصوم افراد کی بلا قید و شرط اطاعت دراصل روحِ توحید اور ملی وحدت کے منافی ہے۔ دینی و اجتماعی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ کسی سے عداوت نہیں اور برّ و تقویٰ کے کاموں میں ہر ایک سے تعاون کی پالیسی پر عمل کیا جائے۔ ہر ادارہ، تنظیم یا جماعت ملی ترجیحات اور دینی اصولوں کے مطابق اپنے بنیادی اہداف کے لیے طویل المدتی منصوبے بنائے اور وقتی مسائل کے لیے الگ لائحۂ عمل تشکیل دے۔ مگر اس عمل میں دوسروں کی تحقیر یا تضعیف سے گریز کرے۔ تمام دینی و سماجی قوتوں پر لازم ہے کہ وہ حسن نیت سے ایک دوسرے کی موقع و صلاحیت کے مطابق مدد کریں اور ملت کے اجتماعی نصب العین کی تکمیل کے لیے باہمی تعاون کے ساتھ آگے بڑھیں۔

منظم شورائی قیادت کی ضرورت
ہر علاقے یا گاؤں میں امامِ جمعہ یا امامِ جماعت کی سرپرستی میں ایک مجلسِ شوریٰ یا مشاورتی کونسل تشکیل دی جائے، جو سنجیدہ، فعال، دینی جذبہ رکھنے والے اور عوام کے اعتماد کے حامل مومنین کے ساتھ ساتھ انہی اوصاف کے حامل تنظیمی نمائندوں پر مشتمل ہو۔ یہ کونسل اس علاقے میں موجود تمام شیعہ اداروں اور تنظیموں کے لیے بالادست و مشاورتی حیثیت رکھے۔ یعنی علاقے میں جو بھی دینی یا تنظیمی ادارے اس وقت موجود ہیں یا آئندہ قائم ہوں گے، وہ اس امر کے پابند ہوں کہ اپنے مرکز سے موصولہ یا دیگر اہم فیصلوں پر عمل درآمد سے قبل اس کونسل کی منظوری حاصل کریں

اگر کونسل کسی اقدام کو مفید اور موزوں سمجھے تو تمام ادارے باہم اتفاق و تعاون سے اسے انجام دیں اور اگر منظوری نہ دے تو وہی ادارہ یا تنظیم بھی اس پر عمل نہ کرے، تاکہ تمام فیصلے زمینی حقائق کے مطابق، ملت و دین کے مفاد میں اور داخلی اتحاد کے ضامن بن سکیں۔ یوں علاقے کے مومنین داخلی انتشار اور اختلافات سے محفوظ رہیں گے اور اجتماعی بصیرت و نظم پیدا ہوگا۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں درست انداز میں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: آغا علی رضوی صاحب گلگت بلتستان تنظیموں کے کرتے ہوئے اور عوام کیا جائے افراد کی کے مطابق قیادت کا اور دینی یہ ہے کہ کے ساتھ کو اپنی ہیں اور کہا کہ دین کے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

ایف سی کی جانب سے اسپین کئی میں بائی پاس روڈ کی تعمیر مکمل

اسلام آباد:

ایف سی خیبر پختونخوا (ساؤتھ) کی جانب سے اسپین کئی میں بائی پاس روڈ کی تعمیر مکمل کرلی گئی۔

اسپن کئی بائی پاس روڈ کی تکمیل سے جنوبی وزیرستان کے عوام کا ایک اور مطالبہ پورا ہوگیا۔

9 اگست کے کنونشن میں محسود اور برکی قبائل کے مشران اور عمائدین نے بائی پاس روڈ کا مطالبہ کیا تھا۔ ایف سی خیبر پختونخوا (ساؤتھ) نے جنوبی وزیرستان کے مشران سے کیا گیا وعدہ پورا کردیا۔

کیڈٹ کالج اسپین کئی کے قریب بائی پاس روڈ کا منصوبہ مکمل کر کے عوامی سہولت فراہم کر دی گئی، بائی پاس سڑک عوام کی آمدو رفت آسان اور روزمرہ زندگی میں سہولت فراہم کرے گی۔

منصوبہ تعلیم، صحت اور تجارت میں بہتری کے ساتھ علاقے کی سماجی و معاشی ترقی میں مدد دے گا، مقامی عوام نے اس اقدام کو خوش آئند قرار  دیا ہے۔

 ایف سی (ساؤتھ) امن و سیکیورٹی کے ساتھ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں بھی سرگرمِ عمل ہے، ترقیاتی منصوبے عوامی زندگی میں مثبت تبدیلیوں کا تسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کیا کچھ ہوسکتا ہے؟
  • عون رضا انجم نے عبدالغفار کو مجلس وحدت مسلمین تحصیل جلالپور پیروالا کا آرگنائزر نامزد کردیا 
  • سردار مسعود خان کی کشمیری شاعروں اور ادیبوں سے معاشرے کی فکری اور نظریاتی رہنمائی کی اپیل
  • پولینڈ کے ساتھ سیاسی و معاشی تعلقات مزید مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں، صدر مملکت
  • جماعت اسلامی کا اجتماع عام “نظام بدلو تحریک” کا ولولہ انگیز پڑاؤ ہوگا، نگہت قریشی
  • پاکستان پولینڈ کے ساتھ سیاسی و معاشی تعلقات مزید مضبوط بنانے کا خواہاں ہے: صدر آصف علی زرداری
  • ایف سی کی جانب سے اسپین کئی میں بائی پاس روڈ کی تعمیر مکمل
  • موضوع: رہبر معظم کا کھلاڑیوں اور نوجوانوں سے خطاب
  • ڈی ڈبلیو پی گروپ کے انٹرن شپ پروگرام “تعمیر مستقبل “بیچ 2025کی گریجویشن تقریب