امریکی فوجیوں کی تنخواہیں ادا کرنے کیلیے نامعلوم شخص نے 13 کروڑ ڈالر عطیہ کردیے
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی فوجیوں کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے نامعلوم شخص نے 13 کروڑ ڈالر عطیہ کردیے۔ایک نامعلوم ڈونر کی جانب سے امریکی محکمہ جنگ کو 13 کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا گیا تاکہ حکومتی شٹ ڈاؤن کے دوران امریکی فوجیوں کو تنخواہیں دی جاتی رہیں۔حکام کی جانب سے اس عطیے کی تصدیق کی جاچکی ہے اور اس سے قبل ٹرمپ کی جانب سے سے کہا گیا کہ یہ عطیہ ملک کے 13 لاکھ 20 ہزار فوجیوں کو تنخواہیں ادا کرنے میں مدد دے گا۔ٹرمپ نے عطیہ دینے والے شخص کی شناخت تو ظاہر نہیں کی تاہم یہ ضرور کہا تھا کہ وہ ایک امریکی شہری اور ٹرمپ کا بہت بڑا حامی ہے۔امریکا میں جاری حکومتی شٹ ڈاؤن اب اپنے 25 ویں روز میں داخل ہوچکا ہے اور خیال کیا جارہا ہے کہ یہ امریکی تاریخ کا طویل ترین حکومتی شٹ ڈاؤن ہوسکتا ہے۔پینٹاگون کے ترجمان کے مطابق یہ عطیہ اس شرط پر دیا گیا ہے کہ اسے امریکی فوجیوں کی تنخواہوں اور دیگر مراعات کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ترجمان نے مزید کہا کہ اس عطیے کو محکمے کی ’جنرل گفٹ اکسیپٹنس اتھارٹی‘ کے تحت قبول کیا گیا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق اس عطیے کے حساب سے ہر امریکی فوجی کو کم و بیش 100 ڈالر دیے جاسکتے ہیں۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ عطیہ دینے والا شخص ٹیمتھی میلن ہے، فوربز کے مطابق ٹمتھی میلن ایک ایسے بااثر خاندان کے چشم و چراغ ہیں جس کی دولت کم و بیش 15 ارب ڈالر کی ہے۔یہ خاندان امریکی ریل انڈسٹری میں اپنا اثر و رسوخ رکھتا ہے اور اس کی جانب سے ٹرمپ کی حمایت کرنے والے ایک گروپ کو 5 کروڑ ڈالر کا عطیہ بھی دیا جاچکا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: امریکی فوجیوں کی جانب سے کروڑ ڈالر
پڑھیں:
امریکی عدالت کا لاس اینجلس میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی فوری ختم کرنے کا حکم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کیلی فورنیا: امریکا میں ایک وفاقی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لاس اینجلس میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی کو اختیارات سے تجاوز قرار دیتے ہوئے اسے فوری طور پر ختم کرنے اور فورس کو کیلی فورنیا کے گورنر کے کنٹرول میں واپس دینے کا حکم دیا ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق کیلی فورنیا کی ایک وفاقی عدالت نے بدھ کے روز فیصلہ دیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشنل گارڈ کی تعیناتی کے حوالے سے اپنے صدارتی اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔
سان فرانسسکو میں قائم امریکی ڈسٹرکٹ عدالت کے جج چارلس بریئر کے اس فیصلے کو صدر ٹرمپ کی اس پالیسی کے لیے ایک بڑا قانونی جھٹکا قرار دیا جا رہا ہے، جس کے تحت وہ ڈیموکریٹک کنٹرول والے شہروں میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی جاری رکھے ہوئے تھے، ایک ایسا اقدام جسے اندرونی معاملات میں عسکری طاقت کے غیر معمولی استعمال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق معاملہ بالآخر امریکی سپریم کورٹ تک جا سکتا ہے۔
جج چارلس بریئر نے اپنے فیصلے میں کہا کہ وفاقی امیگریشن پالیسیوں کے خلاف احتجاج کو ’بغاوت‘ قرار دینے کا کوئی ثبوت موجود نہیں اور اس بنیاد پر نیشنل گارڈ کو وفاقی کنٹرول میں لینا قانونی طور پر درست نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے یہ مؤقف اپنا کر صدارتی اختیارات کی ’غیر معمولی توسیع‘ کی کوشش کی۔
جج نے یہ مؤقف بھی مسترد کر دیا کہ عدالتیں ایمرجنسی کے دوران صدر کے اس فیصلے کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں رکھتیں۔
فیصلہ کیلی فورنیا کے گورنر گیون نیوزم کی جانب سے دائر مقدمے کے نتیجے میں آیا، جس میں انہوں نے اگست میں ٹرمپ کی جانب سے 300 نیشنل گارڈ اہلکاروں کو 2 فروری 2026 تک وفاقی کنٹرول میں لینے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔ ریاستی نیشنل گارڈ رسمی طور پر ریاست کے ماتحت ہوتے ہیں تاہم مخصوص حالات میں انہیں وفاقی سروس میں بلایا جا سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان ابیگیل جیکسن نے عدالتی فیصلے کے بعد بیان میں کہا کہ ٹرمپ کو ’’پُرتشدد فسادات‘‘ کے جواب میں فوج تعینات کرنے کا قانونی اختیار حاصل ہے اور انتظامیہ کو یقین ہے کہ وہ بالآخر اس قانونی جنگ میں سرخرو ہوگی۔