data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251027-03-2
کراچی میں گرد وغبار، دھوئیں اور زہریلے ذرات کے ساتھ لوگ زندگی بسر کررہے ہیں۔ ائر کوالٹی انڈیکس کے مطابق کراچی کا فضائی معیار ’’انتہائی مضر ِ صحت‘‘ درجے پر پہنچ چکا ہے، اور شہر دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔ کراچی کی فضا میں آلودگی 260 پرٹیکیولیٹ میٹر تک پہنچ گئی ہے، جو عالمی معیار کے لحاظ سے ’’شدید آلودہ‘‘ درجہ تصور کیا جاتا ہے۔ سادہ زبان میں کہا جائے تو یہ فضا ہر سانس کے ساتھ زہر بن چکی ہے۔ ایسے ماحول میں سانس لینے والے شہری دل، پھیپھڑوں اور دماغی امراض کے خطرات سے دوچار ہیں، خاص طور پر بچے، بزرگ اور وہ افراد جو پہلے ہی کسی بیماری کا شکار ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ صورتِ حال کوئی اچانک پیدا ہونے والا بحران نہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ماہرین ماحولیات، شہری تنظیمیں اور میڈیا مسلسل خبردار کرتے آرہے ہیں کہ کراچی تیزی سے ماحولیاتی تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لیکن حکومت اور شہری انتظامیہ کی بے حسی اور ناقص پالیسیوں نے اس بحران کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ اب شہریوں کے لیے صاف ہوا بھی ایک مشکل ہو گئی ہے۔ کراچی میں آلودگی کے بڑے اسباب سب کے سامنے ہیں: سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک، پرانی اور دھواں چھوڑتی گاڑیاں، غیر منظم صنعتی اخراج، کچرا جلانے کا کلچر، تعمیراتی سرگرمیوں میں احتیاطی اصولوں کی خلاف ورزی اور سب سے بڑھ کر درختوں کی کٹائی۔ شہر کا سبزہ تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے، اور اس کے بدلے کنکریٹ کے جنگل اْگائے جا رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کراچی کی فضا گرد، زہریلے ذرات اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ جیسے خطرناک مادوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس کے باوجود حکومتی اقدامات صرف بیانات اور وقتی مہمات تک محدود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فضائی آلودگی کو قومی سلامتی کے مسئلے کے طور پر دیکھا جائے۔ شہر میں صاف توانائی کے ذرائع کو فروغ دیا جائے، صنعتی اخراج کے لیے سخت قوانین نافذ کیے جائیں، اور درختوں کی بڑے پیمانے پر شجرکاری مہم شروع کی جائے۔ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں ماحولیاتی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ نئی نسل فضا کی اہمیت کو سمجھے اور اس کے تحفظ میں کردار ادا کرے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
موبائل فون میں بیوی کا نمبر موٹی کے نام سے محفوظ کرنا شہری کا جرم بن گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اوسک : ترکیہ میں عدالت نے ایک شہری کو اس جرم میں اپنی بیوی کو زرتلافی ادا کرنے کا حکم دیا کیونکہ اس نے اپنے موبائل فون میں بیوی کا نمبر موٹی کے نام سے محفوظ کیا تھا۔
شہر اوسک کی عدالتی کاروائی میں یہ بات سامنے آئی کہ شوہر نے اپنی بیوی کا فون نمبر اپنے موبائل میں ایسے نام سے محفوظ کیا تھا جو بیوی کے لیے توہین آمیز سمجھا گیا۔
عدالت نے اس کو جذباتی تشدد کی شکل میں دیکھا کیونکہ ایک ازدواجی رشتہ عزت، احترام اور برابر رویے پر مبنی ہونا چاہیے اور اس قسم کا نام رکھنے کا عمل اس کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔یہ فیصلہ ترکیے میں ایک قانونی مثال بن چکا ہے، یعنی مستقبل میں ایسے معاملات میں اس فیصلے کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔
یہ فیصلہ ترکیے کی اعلیٰ عدالت یعنی نے دیا ہے جس نے نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شوہر کا اس طرح نام محفوظ کرنا ازدواجی رشتہ کی وفاداری، عزت اور احترام کے تقاضوں کے خلاف ہے۔