وزیرِاعظم آزاد کشمیر کیخلاف تحریکِ عدم اعتماد کب جمع کرائی جائیگی؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
ذرائع کے مطابق وزیرِاعظم آزاد کشمیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منگل کو اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرائے جانے کا امکان ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیرِاعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کب جمع کرائی جائے گی؟ اس کے حوالے سے تفصیلات سامنے آ گئیں۔ ذرائع کے مطابق وزیرِاعظم آزاد کشمیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منگل کو اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرائے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے ساتھ متبادل قائدِ ایوان کا نام پیش کرنا بھی لازمی ہے، پیپلز پارٹی نے تاحال نام کا اعلان نہیں کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق چوہدری لطیف اکبر، چوہدری یاسین اور سردار یعقوب وزیرِاعظم آزاد کشمیر کے لیے متوقع امیدوار ہو سکتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
فوج کے خلاف مہم پر سخت ردعمل، پی ٹی آئی قیادت کو واضح ہدایت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت کو دوٹوک انداز میں آگاہ کر دیا گیا ہے کہ عمران خان یا پارٹی کے سوشل میڈیا سے فوج اور اعلیٰ عسکری قیادت کے خلاف کسی بھی قسم کی تضحیک یا مہم اب برداشت نہیں کی جائے گی۔
پارٹی ذرائع کے مطابق پیغام انتہائی سخت لہجے میں دیا گیا ہے اور اسے “بس بہت ہو چکا” کے زمرے میں سمجھا جا رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین برس سے جاری تنقید کے باوجود اب مزید کسی بھی قسم کے حملے یا بیانات کی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ عظمیٰ خانم کی اپنے قید بھائی عمران خان سے حالیہ ملاقات بھی کشیدگی میں اضافہ کا باعث بنی، جبکہ اس ملاقات کا انتظام کرنے والے کئی حکومتی و پارلیمانی شخصیات کو بھی بعد ازاں شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
پارٹی کے اندرونی حلقوں کے مطابق عمران خان کی بہن کی جانب سے ملاقات کے بعد دیے گئے بیانات سے پارٹی رہنماؤں میں بےچینی پائی جاتی ہے۔ کئی سینئر افراد سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے اہلخانہ کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے، کیونکہ سخت بیانات اس وقت پارٹی کی سیاسی گنجائش اور مکالمے کی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی کو تفصیل کے ساتھ یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کا مواد کون تیار کرتا ہے، کیسے آگے بڑھایا جاتا ہے اور کس طرح عمران خان کے اکاؤنٹس سے اسے پھیلایا جاتا ہے۔ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ مستقبل میں فوج یا عسکری قیادت پر تنقید بالکل برداشت نہیں ہوگی۔
پارٹی کے پارلیمانی حلقوں میں عمومی رائے یہ ہے کہ موجودہ حالات میں سیاسی حل کا واحد راستہ مکالمہ ہے، تاہم زیادہ تر ارکان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان کے بیانات اور سوشل میڈیا بیانیہ کسی بھی پیش رفت میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق جس طرح 9 مئی کے بعد کسی قسم کی نرمی نہیں برتی گئی تھی، اسی طرح فوج کے خلاف بیان بازی پر بھی کوئی ریایت نہیں دی جائے گی۔ ایک رکن قومی اسمبلی کے مطابق اگر عمران خان جذبات میں کچھ کہہ بھی دیں تو ان کے قریبی لوگ، خصوصاً اہلخانہ، اس کی تشہیر سے گریز کریں کیونکہ اس سے صرف پارٹی کو نقصان پہنچتا ہے اور ریلیف کی کوششیں کمزور پڑتی ہیں۔