Express News:
2025-12-10@22:23:54 GMT

پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے

اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT

 قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی عدم موجودگی کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے نامزد کردہ قائد حزب اختلاف عمر ایوب اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز کو 9 مئی کے مقدمات میں سزا ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے ان دونوں نمایندوں کو نااہل قرار دیا تھا۔

تحریک انصاف نے پشتون ملی عوامی پارٹی کے قائد محمود خان اچکزئی کو قومی اسمبلی اور مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس کو سینیٹ کے لیے قائد حزب اختلاف نامزد کیا تھا مگر قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے محمود خان اچکزئی کا قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے نوٹیفکیشن جاری کرنے سے انکارکیا تھا۔ 

سینیٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی آزادانہ فیصلے کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر اپنے فیصلے کی حمایت میں یہ دلیل دے رہے ہیں کہ عمر ایوب اور شبلی فراز نے اپنی نااہلی کو عدالتوں میں چیلنج کیا ہوا ہے، اس بناء پر وہ نئے قائد حزب اختلاف کا تقرر نہیں کرسکتے۔

دوسری جانب عمر ایوب اور شبلی فراز مفرور ہیں اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے ان کے وارنٹ جاری کیے ہوئے ہیں اور ان دونوں رہنماؤں کی جائیدادوں کی ضبطگی کی کارروائی شروع ہوگئی ہے۔ اس صورتحال میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نہ ہونے سے جمہوریت کے ان دونوں اداروں کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔ 

جمہوری اداروں کی ترقی اور جمہوری رویوں کو مستحکم کرنے کی جستجو کرنے والے غیر ریاستی ادارہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی کے سربراہ احمد بلال محبوب نے پارلیمنٹ میں رونما ہونے والے واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا کہ’’ اگرچہ قومی اسمبلی کے قوانین میں یہ واضح نہیں ہے کہ قائد حزب اختلاف کا تقررکتنے عرصے میں ہونا چاہیے مگر قومی اسمبلی کے قواعد 39 کے تحت یہ واضح ہوتا ہے کہ اس عہدے پر جلد از جلد تقرر ہونا چاہیے۔‘‘

ایک اور غیر ریاستی تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کے روحِ رواں مدثر رضوی نے اس پوری صورتحال پر غورکرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف مقرر نہ ہونے سے ایک غلط روایت کی بنیاد پڑگئی ہے۔

مدثرکہتے ہیں کہ اس مجموعی صورتحال میں مستقبل میں پارلیمنٹ کو اپنے وقار کی بحالی کے لیے ازسرِنو جدوجہد کرنی پڑے گی۔ دونوں ایوانوں میں قائد حزب اختلاف کی عدم تقرری سے پارلیمنٹ کی ساکھ مزید متاثر ہوئی ہے۔

پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل اور سینیٹ کے سابق چیئرمین نیر بخاری نے بھی یہ مؤقف اختیارکیا ہے کہ قوانین میں یہ واضح نہیں ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا تقررکتنی مدت میں ہوگا مگر ان کی ذاتی رائے یہ ہے کہ اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین کو جلد از جلد یہ آسامیاں پرکرنی چاہئیں۔

بخاری صاحب نے ایک رپورٹر سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جب سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں 2002میں قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی ایوان کی سب سے بڑی جماعت تھی مگر پیپلز پارٹی کے بعض اراکین کو توڑ کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کا گروپ بنایا گیا۔

پیپلز پارٹی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بن گئی مگر اس وقت کے اسپیکر چوہدری امیر حسین نے قواعد میں یکطرفہ طور پر ترمیم کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم امین فہیم کے بجائے مولانا فضل الرحمن کو قائد حزب اختلاف نامزد کیا تھا جب کہ ایوان میں الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی کے ارکان کی تعداد متحدہ مجلس عمل کے ارکان کے مقابلے میں خاصی زیادہ تھی۔

سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پیپلز پارٹی کے رہنما میاں رضا ربانی اس بارے میں واضح مؤقف رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے قوانین کے تحت اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین کی واضح ذمے داری ہے کہ یہ اسامیاں فوری طور پر، پُر کریں۔

رضا ربانی نے جو طویل عرصے تک سینیٹ کے رکن رہے، اس باب کی واضح طور پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قائد حزب اختلاف کا دونوں ایوانوں کے ایجنڈا کو طے کرنے اور ہاؤس کا بزنس چلانے میں اہم کردار ہوتا ہے۔

رضا ربانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ قائد حزب اختلاف کو یہ استحقاق حاصل ہوتا ہے کہ جب بھی ضرورت محسوس کرے تو ایوان سے خطاب کرسکتا ہے۔ رضا ربانی نے اپنے مؤقف کے حق میں یہ دلیل دی کہ عمر ایوب اور شبلی فراز کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوچکے اور دونوں ایوان مکمل ہیں، اس بناء پر قائد حزب اختلاف کے تقرر میں دیرکرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔

پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کرنے والے ایک سینئر رپورٹر جاوید الرحمن نے اس پوری صورتحال کے بارے میں اپنی رائے یوں بیان کی ہے کہ دونوں ایوانوں سے قائد حزب اختلاف کی عدم موجودگی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے قائدین کے درمیان 2006 میں ہونے والے میثاق جمہوریت کی واضح خلاف ورزی ہے۔

میثاق جمہوریت میں قائد حزب اختلاف کے ادارے کو مستحکم کیا گیا تھا اور اس بات پر بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان اتفاق ہوا تھا کہ پارلیمنٹ کی سب سے مضبوط پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین قائد حزب اختلاف کو مقررکیا جائے گا۔

پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کرنے والے ایک اور سینئر رپورٹرکا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کے 76 اراکین نے محمود خان اچکزئی کو قائد حزب اختلاف نامزد کیا ہے، اس صورتحال میں اچکزئی کو قائد حزب اختلاف تسلیم نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے تحت قائد حزب اختلاف کی ذمے داریاں بڑھ گئی ہیں۔ قومی اسمبلی ٹوٹنے کے بعد عبوری وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت ضروری ہے، اگر دونوں میں اتفاق نہ ہو تو یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جاتا ہے، اگر وہاں بھی اس پر اتفاق نہ ہو تو پھر چیف الیکشن کمشنرکی رائے حتمی ہوجاتی ہے۔

اس طرح چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے اراکین کا انتخاب وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ہوتا ہے ۔ حکومت نے آئین میں کی گئی 26ویں ترمیم میں وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق نہ ہونے کی صورت میں موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو نئے الیکشن کمشنر کے تقرر تک کام کرنے کا آئینی جواز تلاش کیا ہے مگر آخرکار نئے چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب ہونا ہی ہے۔ 

اخبارات میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران شایع ہونے والی خبروں کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمن کو قائد حزب اختلاف بنانے کے لیے ان سے مذاکرات کیے ہیں مگر یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔

کچھ صحافیوں کا مفروضہ ہے کہ 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت کے اقتدار سے نکلنے کے بعد اسمبلی سے مستعفیٰ نہ ہونے والے تحریک انصاف کے منحرف رہنما راجہ ریاض نے جس طرح فرینڈلی قائد حزب اختلاف کا کردار ادا کیا تھا حکومت کو اب بھی ایسے ہی فرینڈلی قائد حزب اختلاف کی تلاش ہے مگر یہ صورتحال پارلیمنٹ کی بالادستی اور جمہوری نظام کے استحکام کے تناظر میں مایوس کن ہے، حکومت کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ 
 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

سیکریٹری جنرل قومی اسمبلی طاہر حسین مستعفی

—فائل فوٹو

قومی اسمبلی کے سیکریٹری جنرل طاہر حسین مستعفی ہو گئے۔

اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے طاہر حسین کا استعفیٰ منظور کرلیا

سیکریٹری جنرل طاہر حسین کا استعفیٰ یکم جنوری 2026 سے مؤثر ہوگا۔

قومی اسمبلی کے سیکریٹری جنرل طاہر حسین نے ذاتی وجوہات کی بنیاد پر استعفیٰ دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایس ایچ او تھانہ اڈیالہ نے پی ٹی آئی ارکان کی توہین کی، قومی اسمبلی میں تحریکِ استحقاق جمع
  • پی ٹی آئی کا پیپلز پارٹی سے رابطے کا فیصلہ
  • پنجاب اسمبلی: دشمن ملک کی آلہ کار پارٹی پر پابندی کی قرار داد منظور
  • قومی اسمبلی کے سیکریٹری جنرل مستعفی
  • سیکریٹری جنرل قومی اسمبلی طاہر حسین مستعفی
  • فوج کو کمزور کرکے پارلیمنٹ مضبوط نہیں ہوسکتی، اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان
  • عابدشیرعلی پارلیمنٹ مین واپس آگئے
  • ایوان میں بغیر قائد حزب اختلاف کے نظام چلایا جا رہا ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا چیف وہپ حزبِ اختلاف کو خط، سابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے کیسز سے متعلق وضاحت طلب