اگرکسی کی نمبر گیم پوری ہے تو عدم اعتماد کیوں نہیں لاتے؟ وزیراعظم آزادکشمیر کا استعفیٰ دینے سے انکار
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
اگرکسی کی نمبر گیم پوری ہے تو عدم اعتماد کیوں نہیں لاتے؟ وزیراعظم آزادکشمیر کا استعفیٰ دینے سے انکار WhatsAppFacebookTwitter 0 27 October, 2025 سب نیوز
مظفرآباد(سب نیوز) وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری انوار الحق کا کہنا ہے کہ اگر کسی کی نمبر گیم پوری ہے تو عدم اعتماد کیوں نہیں لاتے؟ جب تک اختیار ہے اپنے فرائض سرانجام دیتا رہوں گا۔
صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے چوہدری انوار الحق کا کہنا تھا کہ جلد پریس کانفرنس کروں گا جس میں تفصیلی بات ہو گی، عدم اعتماد جمہوریت کا حسن ہے، میری قدر جانے کے بعد ہوگی۔چوہدری انوار الحق کا کہنا تھا کہ جس گھر میں جنم لیا اپنی خاطر اس کو آگ نہیں لگاسکتا، میرے چہرے پرکوئی ندامت دکھائی نہیں دیگی۔چوہدری انوار الحق کا مزیدکہنا تھا کہ میں واحد وزیراعظم ہوں جس نے خزانہ بھرا، خالی نہیں کیا۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ آزادکشمیر میں وزیراعظم تبدیل کرنے کا آخری دور شروع ہونیکا امکان ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی اکثریت ہے، چوہدری انوارالحق اپنے ساتھیوں سمیت اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی نے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے کا دعوی کیا ہے جبکہ مسلم لیگ ن نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ میں شامل وزرا نے پیپلزپارٹی کے نئے قائد ایوان کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم آزاد کشمیر کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار بھی موجود ہے۔وزیراعظم کے مستعفی ہونے کی صورت میں صدر اسمبلی کا اجلاس طلب کریں گے۔ریاستی آئین کے تحت وزیراعظم کے مستعفی ہونے کی صورت میں 14روز کے اندر نئے قائد ایوان کا انتخاب ضروری ہے۔موجودہ اسمبلی چوتھے وزیراعظم کا انتخاب عمل میں لائے گی۔ وزیراعظم اپنا استعفی صدر آزادکشمیر کو بھجوائیں گے۔اگر اسمبلی ان سیشن ہوتو فوری طور پر نئے وزیراعظم کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔ اگر اسمبلی ان سیشن نہ ہو تو صدر 14 ایام میں نئے وزیراعظم کے انتخاب کیلئے اجلاس بلانے کا پابند ہے۔
تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں موجود کل اراکین کی تعداد کے 25 فیصد اراکین کے دستخطوں سے جمع کروائی جاسکتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنیوالے محرک آئندہ وزیراعظم کا نام بھی پیش کرنے کے پابند ہوں گے۔ کوئی بھی رکن سیکرٹری اسمبلی کو قرارداد پیش کرنے کا نوٹس دے سکتا ہے۔سیکرٹری اسمبلی ایک نقل صدر اور ممکنہ اراکین کو نوٹس تقسیم کرے گا۔اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجاتی ہے تو اس صورت میں آئندہ 6 ماہ تک دوبارہ تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جاسکے گی۔ وزیراعظم آزاد کشمیر کسی بھی وقت اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے۔ اسمبلی اس وقت تحلیل ہوسکتی ہے اگر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع نہ کرادی گئی ہو۔صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرے گا۔اگر صدر اسمبلی تحلیل نہیں کرتا تو اسمبلی اگلے 48 گھنٹوں میں خود بخود تحلیل ہوجائے گی، اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز میں عام انتخابات کروانا لازمی ہوں گے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرشہباز شریف فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو کانفرنس میں شرکت کیلئے سعودیہ پہنچ گئے شہباز شریف فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو کانفرنس میں شرکت کیلئے سعودیہ پہنچ گئے فیلڈ مارشل کی اردن کے شاہ عبداللہ سے ملاقات، دفاع تعاون بڑھانے پر گفتگو اسلام آباد ،آئی ایٹ میں پٹرول پمپ پر ڈکیتی کی واردات ، ڈاکووں نے شہری سے 55لاکھ روپے لوٹ لئے الیکشن کمیشن کی نگران حکومت کی مدت بڑھانے کیلئے آئین میں ترمیم کی سفارش بھارتی ہٹ دھرمی امن کیلئے خطرہ، کشمیریوں کی حمایت جاری رکھیں گے، اسحاق ڈار دربارِ عالیہ موہڑہ شریف مری میں سالانہ بڑا عرس مبارک 7سے9نومبرکو منعقد ہو گاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
یورپین کونسل کا امریکی مداخلت قبول کرنے سے صاف انکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یورپین کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا کا کہنا ہے کہ یورپ اپنی سیاست میں کسی بھی قسم کی امریکی مداخلت کو قبول نہیں کرے گا۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یورپین کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا کا برسلز میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم جو بات قبول نہیں کر سکتے، وہ یورپی سیاست میں مداخلت کی دھمکی ہے۔
صدر یورپین کونسل نے کہا کہ امریکا یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ یورپ میں کون سی سیاسی جماعتیں اچھی ہیں اور کون سی اچھی نہیں ہیں، امریکا یہ بھی طے نہیں کر سکتا کہ یورپ کے نزدیک آزادی اظہار کا کیا تصور ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اگرچہ ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسائل پر ٹرمپ انتظامیہ سے اختلافات پہلے ہی سے موجود تھے، مگر نئی حکمتِ عملی اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ اس حکمتِ عملی میں یورپ کو اتحادی کہا گیا ہے، جو ٹھیک ہے لیکن اگر ہم اتحادی ہیں تو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اتحادیوں جیسا سلوک کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکا ایک اہم اتحادی ہے، ایک اہم اقتصادی شراکت دار بھی ہے لیکن یورپ کو خودمختار رہنا چاہیے۔
صدر یورپین کونسل نے کہا کہ یہ تشویشناک ہے کہ روس نے امریکا کی نئی حکمتِ عملی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے اپنے نقطہ نظر سے بڑی حد تک مطابقت رکھنے والی قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکمتِ عملی میں یوکرین کی جنگ کے بارے میں جو مؤقف اپنایا گیا ہے، وہ اس منصفانہ اور پائیدار امن کی حمایت نہیں کرتا جس کی یورپ طویل عرصے سے حمایت کرتا آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ حکمتِ عملی صرف محاذ آرائی کے خاتمے اور روس کے ساتھ استوار تعلقات کی بات کرتی ہے۔