کراچی پولیس اور حساس ادارے کی مشترکہ کارروائی، ٹی وی اینکر امتیاز میر کے قاتل گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
کراچی میں پولیس نے وفاقی حساس ادارے کے ساتھ مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے میٹرو ون نیوز کے اینکر امتیاز علی میر کے قاتلوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
پولیس کے مطابق یہ کارروائیاں شہر میں حالیہ ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کے بعد مشتبہ عناصر کے خلاف کی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں:
پولیس اعلامیے کے مطابق 21 ستمبر 2025ء کو کراچی کے علاقے کالا بورڈ میں فائرنگ کے نتیجے میں سینئر صحافی امتیاز علی میر جاں بحق جبکہ ان کے بھائی میر محمد صلاح شدید زخمی ہوئے تھے۔
بریکنگ:
کراچی: اینکر امتیاز میر کے قاتلوں کو ڈسٹرکٹ کورنگی پولیس نے گرفتار کرلیا
کراچی میں حالیہ ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں ملوث عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے کورنگی پولیس نے وفاقی حساس ادارے کے ساتھ ملکر
متعدد چھاپہ مار کاروائیاں کیں جس کے نتیجے میں مورخہ 21 ستمبر 2025ء کو… pic.
— Shahid Hussain (@ShahidHussainJM) October 27, 2025
واقعے کی تفتیش کے دوران پولیس نے متعدد چھاپہ مار کارروائیاں کیں جن کے نتیجے میں 4 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔
گرفتار ملزمان کی شناخت سید اجلال زیدی ولد سعید زیدی، شباب ولد اصغر، احسن عباس ولد جلیل حسین، اور فراز احمد ولد منظور احمد کے ناموں سے ہوئی ہے۔
پولیس نے ان کے قبضے سے چار عدد 9 ایم ایم پستول بمعہ زندہ راؤنڈز اور 2 موٹر سائیکلیں برآمد کی ہیں۔
مزید پڑھیں:
ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزمان کا تعلق کالعدم تنظیم لشکرِ ثاراللہ سے ہے، گرفتار دہشت گرد تنظیم کے سرگرم رکن ہیں اور کراچی میں مزید دہشت گردانہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
پولیس کے مطابق ملزمان نے اپنے غیر ملکی روابط اور تنظیم کے سرکردہ رہنما کے بیرونِ ملک موجود ہونے کا بھی انکشاف کیا ہے، جہاں سے انہیں مالی معاونت اور ٹارگٹ فراہم کیے جاتے تھے۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی نے کورنگی پولیس کی بروقت اور کامیاب کارروائی پر تعریفی اسناد اور نقد انعام کا اعلان کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امتیاز میر اینکر پولیس میٹروون نیوزذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امتیاز میر اینکر پولیس پولیس نے کے مطابق
پڑھیں:
کراچی، 16 سالہ طالبہ اغوا، 25 روز میں بازیاب نہ ہوسکی، ملزمان کا گھر پر حملہ اور تاوان کا مطالبہ
شہر قائد کے علاقے سرجانی ٹاؤن سے 30 ستمبر کو مبینہ طور پر اغوا ہونے والی کالج کی 16 سالہ طالبا کے کیس کی کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی جبکہ ملزمان نے 20 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سرجانی ٹاؤن سیکٹر ایل ون کی رہائشی 16 سالہ علیشاہ 30 ستمبر 2025 کی صبح گھر سے معمول کے مطابق کالج کیلیے نکلی تاہم وہ گھر واپس نہیں لوٹی۔
ابتدا میں والدین نے بچی کو تلاش کی تاہم کوئی کامیابی نہیں مل سکی جس کے بعد تھانہ سرجانی ٹاؤن پولیس کو مطلع کیا گیا جس پر پولیس نے والدین کو صبر کی تلقین کی اور یقین دہانی کرائی کہ بچی واپس آجائے گی۔
ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مغویہ علیشاہ کی والدہ صائمہ نے بتایا کہ ’اغوا ہونے کے چار روز بعد رفیق بگٹی نامی شخص نے 20 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا اور پولیس کو مطلع کرنے یا قانونی کارروائی کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔‘
مغویہ کی والدہ کے مطابق تاوان کے مطالبے کے بعد 6 اکتوبر کو تھانے اور افسران کو درخواست دی مگر کچھ نہ ہوسکا اور پھر 15 اکتوبر کو تھانہ سرجانی ٹاؤن میں مقدمہ ایف آئی آر نمبر 135/25 دفعہ 365 بی سے درج کیا گیا۔
والدہ نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے مقدمہ بھی رشوت لینے کے بعد درج کیا تاہم اس حوالے سے تھانہ سرجانی کے ہیڈ محرر نے انکار کیا ہے۔
15 اکتوبر کو مقدمہ اندراج کے بعد اس کیس کی تفتیش ایک ایسے افسر کو دی گئی جو کورس کی وجہ سے چھٹیوں پر تھا اور ایک روز قبل 24 اکتوبر کو ڈیوٹی جوائن کر کے پہلی بار وقوعہ کا دورہ کر کے بیانات قلمبند کیے ہیں۔
والدہ کے مطابق ایف آئی آر اندراج کے بعد ملزمان ’رفیق بگٹی، محمد علی، علی اور منظر نے تین سے چار بار اُن کے گھر آکر دھمکیاں دیں اور کہا کہ اگر تاوان ادا نہ کیا تو انہیں اور بیٹی کو قتل کردیا جائے گا۔
’پھر ہم نے سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جس پر 21 نومبر کو جسٹس تسلیم سلطانہ نے سماعت کرتے ہوئے ایس ایچ او سمیت دیگر متعلقہ افراد کو نوٹس ارسال کیے‘۔
ہائیکورٹ میں سلمان مجاہد بلوچ اس کیس کی پیروی کررہے ہین جنہوں نے بتایا کہ ’جج نے ایس ایچ و کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر مغویہ کو لازمی عدالت میں پیش کرے‘۔
والدہ کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں سماعت کے بعد ملزمان نے گھر آکر دھمکیاں دیں جبکہ 24 اکتوبر کی درمیان رات 8 مسلح ملزمان نے گھر میں دھاوا بولا اور فائرنگ بھی کی۔
صائمہ کا کہنا ہے کہ ’یہ بااثر لڑکے ہمارے پڑوس میں رہنے والے ایک شخص کے گھر آکر بیٹھتے ہیں اور وہی اس معاملے پر پیشرفت سے ملزمان کو باخبر رکھا ہوا ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ شب پیش آنے والے واقعے کے بعد پولیس کو آگاہ کیا اور اقدام قتل کا مقدمہ درج کروانے کیلیے درخواست دی مگر کئی گھنٹے انتظار کے باوجود مایوسی کا سامنا رہا۔
صائمہ نے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے اور بیٹی کو جلد از جلد بازیاب کروایا جائے۔ انہوں نے پولیس کے عدم تعاون پر الزام عائد کیا کہ ’ملزمان کو پولیس سہولت فراہم کررہی ہے‘۔
والدہ نے کہا ہے کہ ’میری بیٹی کے ساتھ ملزمان نے نہ جانے کیا سلوک کیا ہوگا، اب وہ منظر عام پر آنے کے بعد بھی اُن کے دباؤ کی وجہ سے حق میں ہی بیان دے سکتی ہے کیونکہ ملزمان بہت بااثر ہیں‘۔
اُدھر پولیس نے مؤقف دیتے ہوئے بتایا کہ 15 اکتوبر کو درج ہونے والی ایف آئی آر کے حوالے سے تفتیش جاری ہے جبکہ ملزم رفیق بگٹی نے عدالت سے 27 اکتوبر تک ضمانت حاصل کی ہوئی ہے۔