Juraat:
2025-12-14@02:01:59 GMT

بھارتی ووٹر لسٹوں سے مسلمانوں کا اخراج

اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT

بھارتی ووٹر لسٹوں سے مسلمانوں کا اخراج

ریاض احمدچودھری

بھارت میں عام انتخابات سے قبل بہار کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹر لسٹ سے اقلیتی برادری کے لاکھوں ووٹرز کے نام منظم انداز میں خارج کیے جا رہے ہیں۔بہار کے دس اضلاع، خصوصاً مدھوبنی، مشرقی چمپارن، پورنیہ اور ستمرھی جیسے مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹر لسٹ سے ہزاروں نام غائب کر دیے گئے ہیں۔ مدھوبنی میں 3,52,545، مشرقی چمپارن میں 3,16,793، پورنیہ میں 2,73,920 اور ستمرھی میں 2,44,962 ووٹرز کے فارم جمع نہ ہونے پر انہیں فہرست سے خارج کیے جانے کا خدشہ ہے۔الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ فارم کی عدم وصولی مردہ، منتقل شدہ یا دہری رجسٹریشن کی بنیاد پر اخراج کا سبب بنی، تاہم اپوزیشن جماعتوں نے اسے ہندوتوا نظریے کے تحت چلائی جانے والی خاموش مہم قرار دیا ہے، جس کا مقصد اقلیتوں اور غریب طبقات کو ان کے بنیادی جمہوری حق سے محروم کرنا ہے۔دیگر متاثرہ اضلاع میں پٹنہ، گیا، گوپال گنج، سارن، مظفرپور اور سمستی پور شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 65 لاکھ سے زائد ووٹرز کو ووٹر لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 7.

24 کروڑ ووٹرز کے فارم موصول ہوئے ہیں جبکہ اعتراضات داخل کرانے کی آخری تاریخ یکم ستمبر مقرر کی گئی ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس” کا نعرہ صرف ایک سیاسی دعویٰ رہ گیا ہے، جبکہ زمینی حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ مودی راج میں اقلیت ہونا سب سے بڑا جرم بن چکا ہے۔ ووٹ مانگنے سے پہلے ووٹر ہی مٹا دیے گئے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں اور الیکشن سے متعلقہ معاملات پر نظر رکھنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ عمل جلد بازی میں مکمل کیا گیا ہے جبکہ بہار سے تعلق رکھنے والے کئی ووٹرز کا کہنا ہے کہ ان فہرستوں میں ناصرف غلط تصویریں شامل کی گئی ہیں بلکہ کثیر تعداد میں وہ افراد بھی ان لسٹوں کا حصہ ہیں جو وفات پا چکے ہیں۔یاد رہے کہ گذشتہ دنوں حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے ایک پریس کانفرنس میں بی جے پی حکومت پر ‘ووٹ چوری’ کے الزامات لگائے اور الیکشن کمیشن کی فہرستوں میں موجود خامیوں کو اجاگر کیا۔ انھوں نے ایک ہی ایڈریس پر درجنوں افراد کے ووٹ رجسٹر ہونے اور اسی ایڈریس پر کئی ذات اور کئی مذاہب کے لوگوں کے اندراج کے حوالے سے بات کی۔
راہل گاندھی کی اس پریس کانفرنس کے بعد سے سوشل میڈیا پر ‘ووٹ چوری’ اور ‘ووٹ چوری ایکسپوزڈ’ جیسے ہیش ٹیگ مسلسل گردش کر رہے ہیں اور لوگ مبینہ انتخابی بے ضابطگیوں کو اجاگر کرنے کے لیے ووٹر فہرستوں میں موجود تضادات اور خامیوں کو پوسٹ کر رہے ہیں۔اپوزیشن ارکانِ پارلیمنٹ نے ‘ووٹ چوری’ کے معاملے پر پارلیمنٹ سے الیکشن کمیشن کے دفتر تک احتجاجی مارچ بھی کیا جس کے دوران راہل گاندھی سمیت متعدد اراکین پارلیمان کو حراست میں لیا گیا۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے ‘انڈیا الائنس’ کے اراکین پارلیمنٹ کے لیے ایک عشائیہ کا اہتمام کریں گے جس کے دوران بہار میں ووٹر لسٹوں پر جامع نظرثانی اور مبینہ ‘انتخابی دھاندلی’ کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے کی کوششوں پر بات چیت کی جائے گی۔ اپوزیشن ارکان نے اس صورتحال کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دے کر پارلیمنٹ میں اس پر بحث کا مطالبہ کیا ہے۔ پارلیمان کے باہر موجود مظاہرین نے اس موقع پر ‘مودی مردہ باد’، ‘ایس آئی آر واپس لو’ اور ‘ووٹ چوری بند کرو’ جیسے نعرے لگائے۔ان فہرستوں کے خلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا ہے جو اس معاملے کی سماعت کر رہا ہے۔ الیکشن کے اصلاحاتی ادارے ‘اے ڈی آر’ نے اس کے وقت پر سوال اٹھایا ہے۔
بھارت میں وزیرِاعظم نریندر مودی اور الیکشن کمیشن کے گٹھ جوڑ سے انتخابی دھاندلی اور ووٹر لسٹ میں ہیراپھیری کا انکشاف ہوا ہے۔سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (SIT) کی رپورٹ نے مودی سرکار کے زیر سایہ ہونے والے "ووٹ چوری سکینڈل” کا پردہ چاک کر دیا، 2023 کے انتخابات سے قبل کرناٹک میں ووٹر لسٹوں میں بڑے پیمانے پر رد و بدل کیا گیا اور ہزاروں ووٹرز کے نام غیر قانونی طور پر حذف یا تبدیل کر دیئے گئے۔تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ 75 موبائل نمبرز کے ذریعے الیکشن کمیشن پورٹل پر جعلی اکاؤنٹس بنائے گئے اور ان سے جعلی درخواستیں جمع کرائی گئیں، ضلع کالبرگی میں قائم ایک ڈیٹا سینٹر سے لیپ ٹاپس اور دیگر آلات برآمد کیے گئے جو اس جعل سازی میں استعمال ہوئے۔ کرناٹک کے الند حلقے میں ہر ووٹر کے نام کو حذف کرنے کے عوض 80 روپے فی ووٹ ادا کیے گئے، تحقیقات کے دوران بی جے پی رہنما سبھاش گٹیدار، ہرشنند اور سنتوش کے گھروں سے 7 لیپ ٹاپس اور متعدد اہم دستاویزات بھی ضبط کی گئیں۔رپورٹ کے مطابق دسمبر 2022 سے فروری 2023 کے دوران الیکشن کمیشن کو 6 ہزار 18 جعلی درخواستیں جمع کرائی گئیں جن کے عوض تقریباً 4 لاکھ 80 ہزار روپے کی ادائیگیاں کی گئیں، حیران کن طور پر حذف کیے گئے ووٹرز میں سے صرف 24 افراد ایسے تھے جنہوں نے خود درخواست دی تھی۔
راہول گاندھی نے ایس آئی ٹی رپورٹ کو "ووٹ چوری” کے اپنے پہلے سے عائد کیے گئے الزامات کی تصدیق قرار دیا جبکہ کانگریس ترجمان پون کھیرا نے کہا کہ بی جے پی دور میں 80 روپے فی ووٹر کے عوض ووٹوں کی خرید و فروخت، جمہوریت کی توہین ہے۔پون کھیرا نے مزید کہا ہے کہ ایس آئی ٹی کی رپورٹ واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ ووٹر لسٹ میں ہیرا پھیری ایک منظم اور فنڈڈ مہم کا حصہ تھی جس کا مقصد انتخابات میں بی جے پی کو ناجائز برتری دلانا تھا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کا ووٹر لسٹوں سے چھیڑ چھاڑ اور الیکشن کمیشن سے گٹھ جوڑ اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہا، یہ بھارت میں جمہوریت کے قتل کے مترادف ہے۔

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن میں ووٹر لسٹ اور الیکشن ووٹرز کے ووٹ چوری کے دوران بی جے پی کیے گئے رہے ہیں گیا ہے

پڑھیں:

الیکشن کمیشن نے بلوچستان حکومت کی درخواست مسترد کرکے عوام کے حق کا احترام کیا، نیشنل پارٹی

اپنے بیان میں ترجمان نیشنل پارٹی نے کہا کہ ہم نے عوام کی رائے کو جمہوریت کی مضبوطی کیلئے بنیادی اکائی سمجھتے ہوئے ہمیشہ بلدیاتی الیکشن کو وقت پر کرانیکی بات کی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ نیشنل پارٹی کے صوبائی ترجمان عبید اللہ لاشاری نے کہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات عوام کے بنیادی جمہوری نظام کی علامت ہے۔ جس کا آئینی مدت پر ہونا جمہوری ریاستوں کے جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے انتہائی بنیادی ستون تصور کیا جاتا ہے، مگر بدقسمتی سے ریاست پاکستان میں بنیادی جمہوری ڈھانچہ کو ہمیشہ سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ مگر کاش ریاست پاکستان میں آزادی کے بعد سے بلدیاتی الیکشن اپنی آئینی مدت میں ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہتے اور عوام کو اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لیے اپنے بنیادی نمائندے منتخب کرنے کا حق دیا جاتا، تو آج ریاست پاکستان کا جمہوری نظام دیگر جمہوری ریاستوں کے ہم پلہ ہوتا اور عوام کے بنیادی حقوق اور شہری ترقی کی رفتار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے برابر ہوتی۔ اپنے جاری کردہ بیان میں نیشنل پارٹی کے صوبائی ترجمان نے کہا کہ مرکزی الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومت کی الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کوئٹہ کے عوام کی رائے اور حقوق کا احترام کیا ہے۔ جس پر نیشنل پارٹی الیکشن کمیشن کے اس آئینی عمل کو قابل تعریف سمجھتی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ نیشنل پارٹی عوام کی رائے کو جمہوریت کی مضبوطی کے لئے بنیادی اکائی سمجھتے ہوئے ہمیشہ بلدیاتی الیکشن کو وقت پر کرانے کی بات کی ہے۔ نیشنل پارٹی کوئٹہ کے بلدیاتی الیکشن کی شفافیت اور وقت پر انعقاد حکومت کی آئینی ذمیداری سمجھتی ہے۔ جس کو پورا کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں عملی اقدامات کرنے ہونگے، تاکہ الیکشن کی شفافیت پر کوئی سوالیہ نشان نہ اٹھایا جاسکے اور عوام کا جو اعتماد اس وقت مرکزی و صوبائی الیکشن کمیشن پر کوئٹہ کے بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے بحال ہوا ہے، اس اعتماد کو حکومتی سطح پر کسی بھی نااہلی کی وجہ سے ٹھیس نہ پہنچے۔ آخر میں ترجمان نے کہا کہ کوئٹہ کے بلدیاتی الیکشن میں عوام نے جس طرح پر نیشنل پارٹی کے امیدواروں کو بڑی تعداد میں بلا مقابلہ منتخب کیا ہے اور مزید الیکشن لڑنے والے امیدواروں کو جو مدد و حمایت حاصل ہے، وہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عوام نیشنل پارٹی کے ساتھ ہے اور یہ عوام کا ساتھ نیشنل پارٹی کو شاندار کامیابی سے ہم کنار کرے گا۔

متعلقہ مضامین

  • الیکشن کمیشن گلگت بلتستان میں انتخابات کے شیڈول پر نظر ثانی کرے، شیخ میرزا علی
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسلی تطہیر میں مصروف ہے، حریت کانفرنس
  • الیکشن کمیشن میں نئی سیاسی جماعت رجسٹر ہو گئی
  • الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کے آئین پر کیا اعتراضات ہیں، دور کیسے کیے جائیں گے؟
  • گلگت  بلتستان میں عام انتخابات 2026ء کا شیڈول جاری
  • گلگت بلتستان انتخابات 24 جنوری کو 24 حلقوں میں ہونگے، شیڈول جاری
  • گلگت بلتستان میں عام انتخابات کب ہوں گے؟ الیکشن کمیشن نے تاریخ کا اعلان کر دیا
  • گلگت بلتستان کے عام انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا گیا
  • الیکشن کمیشن نے بلوچستان حکومت کی درخواست مسترد کرکے عوام کے حق کا احترام کیا، نیشنل پارٹی
  • بنگلہ دیش الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا