آزاد کشمیر اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پر ن لیگ و پی پی نے دستخط کر دیے: فیصل ممتاز راٹھور
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
سیکریٹری جنرل پیپلز پارٹی آزاد کشمیر فیصل ممتاز راٹھور—فائل فوٹو
سیکریٹری جنرل پیپلز پارٹی آزاد کشمیر فیصل ممتاز راٹھور کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط کر دیے ہیں۔
اسلام آباد میں جیو نیوز سے ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم کے امیدوار کا اعلان ایک دو روز میں پارٹی قیادت کرے گی۔
ذرائع کے مطابق ن لیگ نے قبل ازوقت انتخابات کی شرط پر عدم اعتماد میں حمایت کی یقین دہانی کرا دی۔
سیکریٹری جنرل پیپلز پارٹی آزاد کشمیر فیصل ممتاز راٹھور نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے ایوان میں 9 ووٹ ہیں، جبکہ ن لیگ کی جانب سے راجہ فاروق حیدر نے دستخط کیے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں اس وقت کل 37 ممبران کی کھل کر حمایت حاصل ہے، جبکہ مزید 5 ارکانِ اسمبلی نے حمایت کا یقین دلا دیا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی
پڑھیں:
وزیراعظم آزاد کشمیر کا استعفیٰ دینے سے انکار، پیپلز پارٹی کی نمبر گیم مکمل
آزاد کشمیر میں حکومت سازی کا معاملہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق کی جانب سے استعفیٰ دینے سے انکار اور تحریک عدم اعتماد کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا اعلان کیا جاچکا ہے، جبکہ دوسری جانب مخالفین نے تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے کوششیں تیز کرتے ہوئے وزیر اعظم کو دن 2 بجے تک کی مہلت دے رکھی ہے۔
پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم انوار الحق کو استعفیٰ نہ دینے کی صورت میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے یقین دہانی کرانے کے بعد پیپلز پارٹی کے پاس اس وقت 36 ارکان کی حمایت موجود ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نئے وزیر اعظم کے نام کا اعلان کریں گے۔ چوہدری لطیف اکبر اور چوہدری یاسین میں سے کسی ایک کا نام فائنل کیا جائے گا۔ دوسری جانب اسپیکر اسمبلی لطیف اکبر وزارتِ عظمیٰ کے لیے مضبوط امیدوار قرار دیے جارہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد 53، ایک رکن کے استعفے کے بعد 52 رہ گئی ہے۔ تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے پیپلز پارٹی کو 27 ارکان کی حمایت درکار ہے اور ان کے اپنے ارکان کی تعداد 17 ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے 9 بندوں کی حمایت کے بعد ارکان کی تعداد 36 ہوجائے گی۔ کیونکہ بیرسٹر سلطان گروپ اور فارورڈ بلاک کے مجموعی طور پر 10 ارکان نے پہلے ہی پیپلز پارٹی کی حمایت کردی ہے۔
وزیر اعظم انوار الحق کے گروپ میں مجموعی طور پر 10 ارکان اسمبلی موجود ہیں، پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے پاس 4 ممبران اسمبلی ہیں، مسلم کانفرنس اور جے کے پی پی کے پاس ایک ایک نشست ہے، جبکہ اوورسیز نشست پر منتخب رکن محمد اقبال پہلے ہی استعفیٰ دے چکے ہیں۔
تاہم، اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ مسلم لیگ ن اپنی اسٹریٹجی میں تبدیلی لاسکتی ہے۔ مسلم لیگ ن پہلے ہی اعلان کرچکی ہے کہ عدم اعتماد میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کے بعد وہ حکومت میں نہیں شامل ہوں گے اور اگلے الیکشن میں اپنی پوزیشن مظبوط کرنے کے لیے اپوزیشن بینچز پر ہی بیٹھیں گے۔
اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما جو وزیر اعظم انوار الحق کی کابینہ میں شامل ہیں جن میں کرنل وقار ن، سردار عامر الطاف، عنصر ابدالی اور اظہر صادق سمیت 7 وزرا ابھی تک وزیر اعظم کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم پر امید دکھائی دے رہے ہیں کہ عدم اعتماد کے وقت پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا جو اتحاد ہے ٹوٹ جائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم پر امید ہیں کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں سے ایک فارورڈ بلاک بن سکتا ہے، اس لیے وہ تحریک عدم اعتماد کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی جانب سے استعفیٰ کا امکان بظاہر نظر نہیں آرہا۔ تاہم، خاص ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
یاد رہے کہ چوہدری انوار الحق ماضی میں کئی بار اعلانیہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ اگر مخالفین ان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے درکار نمبرز پورے کرلیں تو وہ بنا کوئی اعتراض اٹھائے ’گھر چلے جائیں گے‘۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی گزشتہ کئی روز سے جوڑ توڑ میں مصروف ہے۔ آزاد کشمیر سے پارٹی قیادت نے صدر آصف زرداری کی بہن فریال تالپور سے کئی ملاقاتیں کیں اور میڈیا پر بھی نمبرز پورے ہونے کے دعوے کیے۔ تاہم ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی میں فی الحال نئے وزیر اعظم کے نام پر اتفاقِ رائے نہیں ہوا۔
پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر صوبے کے معاملات صحیح طریقے سے نہیں چلا سکے، اور ایکشن کمیٹی کی تحریک کامیاب ہونے سے اتحادی جماعتوں کا سیاسی وقار مجروح ہوا ہے اور وزیر اعظم ہمارے حقوق کی حفاظت کرنے میں ناکام دکھائی دیے ہیں۔
خیال رہے مظفر آباد میں اس وقت سیاسی ماحول گرم ہے اور استعفیٰ نہ آنے کی صورت میں کسی بھی وقت وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی جائے گی۔ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو پیپلز پارٹی اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی اور ناکام ہونے کی صورت میں 6ماہ سے قبل یہ تحریک دوبارہ پیش نہیں کی جا سکے گی۔
واضح رہے اگر اس بار تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ 2021 سے 2026 کے درمیان دوسری عدم اعتماد اور چوتھا وزیراعظم ہوگا۔