Express News:
2025-12-13@23:20:25 GMT

تحریک آزادی کا اہم کردار، پیر الٰہی بخش (پہلا حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT

قیام پاکستان کی انتھک جدوجہد میں مسلم دانشوروں کا کردار ناقابل فراموش ہے،انھی میں ایک عظیم نام پیرالٰہی بخش رحمتہ اللہ کا بھی ہے۔ پیر الٰہی بخش 9 جولائی 1890 کو ضلع دادوکی تحصیل بھان سعید آباد میں واقع پیر جوگوٹھ میں ایک دینی روحانی شہرت یافتہ خاندان میں پیدا ہوئے۔

ان کے خاندان کا نسب حضرت مخدوم سرور نوح ؒ کے پانچویں صاحبزادے مخدوم موسیٰ سے ملتا ہے، ان کے دادا پیرغلام حسین ایک روحانی شخصیت جن کے مرید کاٹھیا وار ریاست میں زیادہ تھے، صرف 9 برس کی عمر میں ان کے والد پیر نواز علی اس فانی دنیا سے رخصت فرما گئے، جس کے بعد وہ اپنے ماموں پیر لعل محمد کی سرپرستی میں آگئے۔

انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم بھان سعید آباد میں حاصل کی، بعد ازاں خیرپور میرس سے 1919میں ( ناز ہائی اسکول سے ) میٹرک کا امتحان پاس کیا، جس کے بعد وہ علی گڑھ یونیورسٹی چلے گئے، اپنے خاندان کے پہلے فرد تھے جنھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

آپ مولانا محمد علی جوہر کی تحریک خلافت سے بے انتہا متاثر تھے، جس کی بناء پر مولانا محمد علی جوہرکے حکم پرجن طلبہ نے 1920 میں علی گڑھ کالج چھوڑا، ان میں خود بھی شامل تھے۔ انھوں نے علی گڑھ چھوڑ کر دہلی میں واقع مولانا کی زیرسایہ بننے والی جامعہ ملیہ میں بطور طالب علم داخلہ لیا۔

اس عظیم درس گاہ کا سنگ بنیاد حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے رکھا جس کے چانسلر حکیم اجمل خان تھے، یہاں سے انھوں نے بی اے کی سند حاصل کی۔ (افسوس یہ سند ان کے کام نہ آسکی، چونکہ برطانوی حکومت جامعہ ملیہ کی اسناد تسلیم نہیں کرتی تھی) اور مزید تعلیم چھوڑ کر اپنے وطن ( لاڑکانہ ) سندھ واپس آگئے اور مقامی طور پر تحریک خلافت کی قیادت سنبھال لی، جہاں سے وہ مسلمانان ہند کی آزادی کی جدوجہد میں شامل ہوگئے۔

جب سندھ میں خلافت تحریک شروع ہوئی تو پیرالٰہی بخش 8 سے10جولائی 1921 کو صوبہ سندھ خلافت کانفرنس کراچی میں شریک ہوئے ، جس کی صدارت مولانا محمد علی جوہر نے کی۔ پیر الٰہی بخش آل انڈیا کانگریس کمیٹی اور آل انڈیا خلافت کمیٹی کے بھی کچھ عرصے ممبر رہے بدقسمتی سے یہ تحریک زور نہ پکڑسکی اور برطانوی حکومت نے انتہائی جبر اور بے رحمی سے اس تحریک کو دبا دیا۔

اس طرح کے حالات و واقعات نے ان کی توجہ سیاست کی طرف مبذول کردی اور وقت نے ایک مدبر سیاستداں کی ’’آمد‘‘ کی نوید کی سرگوشی کردی۔ اس وقت کے ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ لاڑکانہ کے صدر سر شاہنواز بھٹو نے پیر الٰہی بخش کو مشورہ دیا کہ وہ واپس علی گڑھ جائیں اور اپنی تعلیم مکمل کریں۔ 

جنھوں نے اس مقصد کے لیے ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ کی جانب سے انھیں وظیفہ عطا کیا اور یوں پیر الٰہی بخش ایک مرتبہ پھر تکمیل تعلیم کے غرض سے علی گڑھ یونیورسٹی چلے گئے، جہاں سے انھوں نے 1929میں ایم اے ( تاریخ) کیا، پھر ایل ایل بی کی ڈگری لی اور واپس اپنے آبائی ضلع لاڑکانہ آکر میں وکالت شروع کردی۔

1937تک اگر سندھ کو ایک علیحدہ صوبے کی حیثیت حاصل نہ ہوتی اور وہ ریزیڈنسی سے الگ ہوکر ایک خود مختار اور علیحدہ صوبے کی حیثیت حاصل نہ کرتا، تو قرارداد پاکستان میں اس سے ایک مسلم اکثریتی صوبے کا درجہ نہ دیا جاتا۔

یہ ایک تاریخی جدوجہد تھی کہ سندھ کو جداگانہ حیثیت میں تسلیم کیا جائے اور اس تحریک کے چلتے یہ آوازگول میز کانفرنس اور سائمن کمیشن تک بھی جا پہنچی، جس سے اب ایک آخری دھکا دینے کی ضرورت تھی اور اس آخری دھکے کے لیے یونائیٹڈ فرنٹ کی بنیاد ڈالی گئی اور انتہائی قلیل مدت میں یہ کوشش رنگ لائی اور قابض برطانوی حکومت نے سندھ کو1937میں بمبئی سے الگ کر کے آزاد صوبے کی حیثیت دے دی۔

اسی طرح قیام پاکستان سے فورا پہلے سارے برصغیرکی پہلی صوبائی اسمبلی سندھ کی صوبائی اسمبلی تھی، جس نے باقاعدہ قیام پاکستان کے حق میں قرارداد منظورکی اور یہ منفرد اعزاز بھی سندھ اسمبلی کو صرف اس لیے حاصل ہوسکا،کیونکہ اس وقت تک سندھ کو ایک علیحدہ صوبے کی حیثیت مل چکی تھی۔

اس عظیم فقیدالمثال کارنامے کے درپردہ عہد ساز بلند قامتی پیر الٰہی بخش کی انتھک کاوشیں کار فرما تھیں، چونکہ آپ اپنے زمانہ طالبعلمی سے ہی اس بات پر فکرمند رہتے کہ لاڑکانہ کے طلباء کو میٹرک کا امتحان دینے کے لیے بمبئی جانا پڑتا ہے۔

دوسری طرف وہ یہ بھی سوچتے کہ کچھ ایسا کریں، جس سے سندھ کو برصغیرکے جغرافیے اور ثقافت میں اپنا آزاد مقام حاصل ہوسکے۔ پہلی قانون ساز اسمبلی کا دورانیہ تقریبا نو سال رہا۔1937 میں منتخب ہونے والی یہ اسمبلی 1945 کے اواخر تک کام کرتی رہی۔

160ارکان پر مشتمل اس اسمبلی میں 83 نشستیں مسلمانوں کے لیے مخصوص تھیں۔ سندھ کے بمبئی سے علیحدہ ہونے کے بعد1937 میں سندھ اسمبلی کے انتخاب جوکہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت منتخب ہونے والی اسمبلی میں پیرالٰہی بخش دادو کے بااثر وکیل کو شکست دے کر پہلی قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے، اس وقت آپ سندھ اتحاد پارٹی کے رکن تھے۔ سندھ کی پہلی وزارت کے خاتمے کے بعد23 مارچ 1938 کو پیر الٰہی بخش بطور وزیر ریونیو بنے۔

18مارچ1940 کو نئے وزیراعلیٰ کے آنے پر پیرالٰہی بخش وزارت سے علیحدہ ہوگئے، بعد ازاں سال بھر بعد ایک بار پھرکابینہ میں تبدیلی آئی اور نئی کابینہ جو 6 مارچ1941 کو تشکیل پائی۔

اس میں پیر الٰہی بخش کو بیک وقت تعلیم، صنعت، محنت،آبکاری و جنگلات اور دیہی ترقی کے اہم قلمدان سونپے گئے۔ اس کے بعد بھی وزارت اعلیٰ میں تبدیلی آتی رہی مگر پیر صاحب آخر تک ان محکموں کے بطور وزیر برقرار رہے اور تعلیم کے شعبے سے آخر تک ان کو خصوصی دلچسپی رہی۔

اس تاریخ ساز اسمبلی کی مدت میعاد کی طوالت کی، اہم ترین وجہ دوسری عالمی جنگ کا شروع ہوجانا تھا، جس کے زیر اثر انتخابات نہیں ہوسکتے تھے، اسمبلی کا دورانیہ 1945 کے اواخر تک رہا، جس کا پہلا اجلاس موجودہ سندھ ہائی کورٹ کی عمارت میں واقع اسمبلی ہال میں منعقد ہوا۔

پورے سندھ میں پرائمری تعلیم کا حصول لازمی قرار دینے کے غرض سے1941میں پرائمری ایجوکیشن بل ان کی سربراہی میں پیش ہوا، جس سے اسمبلی نے متفقہ طور پر منظورکر لیا۔ انھوں نے مفت تعلیم بالغان کا اہتمام بھی کیا۔

1937 میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے باوجود میٹر ک سندھ کے طلباء کو امتحان دینے کے لیے بمبئی جانا پڑتا تھا،چنانچہ سندھ اسمبلی کے بائیسویں اجلاس منعقدہ 12مارچ 1945کو معرکتہ الارآیونیورسٹی بل1945 پیش ہوا، جسے پیر الہی بخش صرف دو ووٹوں کی سادہ اکثریت سے منظورکروانے میں کامیاب ہوگئے۔

اور اس طرح سندھ کی پہلی یونیورسٹی یعنی سندھ یونیورسٹی کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا، آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر ابوبکراحمد حلیم کو سندھ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلرکا عہدہ قبول کرنے پر آمادہ کیا۔

1946 میں پیرالٰہی بخش آل انڈیا مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ممبر منتخب ہوئے اور 1948 کو پیر صاحب نے صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ آپ 3مئی 1948 سے4 فروری1949 تک صوبہ سندھ کے بطور دوسرے وزیر اعلیٰ تعینات رہے۔

آپ کی بہ حیثیت وزیراعلیٰ تقریری براہ راست قائداعظم ؒ کی طرف سے نامزدگی پر عمل میں آئی۔ قائداعظمؒ کی بہ حیثیت گورنر جنرل حلف برداری کی تقریب میں تلاوت قرآن پاک کی سعادت پیر الٰہی بخش کو حاصل ہوئی۔

پیر صاحب رحمتہ اللہ تحریک پاکستان کے عظیم مجاہد، قائداعظمؒ کے رفیق کار تھے، آپ شروع ہی سے قانون سازی کے عمل میں بڑی جانفشانی سے مصروف رہے اور اس تمام عرصے میں انھوں نے منشیات، تمباکو،آبکاری اورکاٹن وغیرہ جیسے اہم امور پر قانون سازی میں ایک فرض شناس پارلیمنٹرین کا کردار نبھایا۔           (جاری ہے۔)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: صوبے کی حیثیت پیر ال ہی بخش پیرال ہی بخش انھوں نے سندھ کی علی گڑھ سندھ کے سندھ کو اور اس کے بعد کے لیے سے علی

پڑھیں:

 غربت بڑھی، وفاق، پنجاب، بلوچستان میں صحت و تعلیم کے بجٹ اہداف حاصل، سندھ، خیبر پی کے پیچھے: آئی ایم ایف

اسلام آباد (عترت جعفری) صوبوں کے ساتھ نیشنل ٹیکس کونسل کے قیام کے حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے اور  توقع ہے کہ مئی تک صوبوں کے ساتھ  معاہدہ مکمل ہو جائے گا جس کے بعد  معلومات کی شیئرنگ  کا عمل متحرک ہو جائے گا۔ رپورٹ میں   آئی ایم ایف نے کہا ہے پاکستان میں حالیہ برسوں میں غربت میں اضافہ ہوا ہے، غربت کی شرح 25.3 فیصد ہو چکی ہے۔ حکومت  کو غربت کے خاتمہ کے لیے کوششوں کی   کڑی  نگرانی کرنی  چاہیے۔ صحت اور تعلیم کے لیے بجٹ 2.2 سے بڑھ کر 2.5 فیصد ہوا۔ وفاقی حکومت، پنجاب، بلوچستان نے صحت اور تعلیم کے حوالے سے اپنے بجٹ اہداف کو حاصل کیا تاہم سندھ اور کے پی کے نے اپنے اہداف حاصل نہیں کیا۔ سندھ تو اپنے ہدف سے 16 فیصد پیچھے رہا۔ اس کی وجہ سندھ میں فنڈز مختص کرنے کے مرحلہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہے۔ رواں  مالی  سال کے لیے 17 ہزار 35 ارب روپے کا ٹیکس ریونیو کی  توقع ہے تاہم  مالی سال کے اختتام تک 16730 ارب روپے جمع ہو سکیں گے۔ اس طرح  شارٹ فال کا خدشہ موجود ہے۔ آئی ایم ایف نے  آئندہ مالی سال کے لیے 19222 ارب روپے کی ٹیکس ریونیو پروجیکشن کی۔ آئندہ مالی  میں 1638 ارب روپے پٹرولیم سرچارج کی جمع ہونے کا تخمینہ ہے۔ آئی ایم ایف رواں مالی سال میں 64 ملین ڈالر کی بجٹ گرانٹ دے گا اور آئندہ سال یہ گرانٹ 58 ملین ڈالر ہوگی۔ رواں مالی سال کے دوران دفاع کے اخراجات پر 2575 ارب روپے لگنے کا تخمینہ ہے اور آئندہ سال یہ تخمینہ 2874 ارب روپے کا لگایا گیا ہے۔ آئی ایم ایف رواں پروگرام کے تحت اپنا اگلا جائزہ مارچ میں کرے گا۔ اسی جائزہ میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے جاری پروگرام کا جائزہ بھی ہوگا۔ آئی ایم ایف نے جغرافیائی  کشیدگی کے حوالے سے بھی خبردار کیا ہے جس سے اشیاء کی قیمتوں پر دباؤ آسکتا ہے اور سپلائی چین متاثر ہو سکتی ہے۔ آئی ایم نے پاکستان  کے ٹیرف کو بہت زیادہ بلند قرار دیا۔ ایف بی آر میں، کمپلائنس رسک مینجمنٹ سسٹم پر عمل کیا جا رہا ہے اور یہ کارپوریٹ ٹیکس پیئرز کے ساتھ ساتھ اب نان کارپوریٹ ٹیکس پئیرز پر بھی لاگو کیا جائے گا۔ اس سسٹم کے تحت اور  ترجیحی کیسز آڈٹ کے لیے منتخب کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں 250 ایڈیٹرز کی خدمات دی گئی ہیں تاکہ انفورسمنٹ کو بڑھایا جا سکے۔ پی او ایس سسٹم جو ریٹیلرز کے لیے ہے اس وقت 38 فیصد شعبہ  کو کور کر رہا ہے۔ اس کا دائرہ ملک بھر میں 40 ہزار ریٹیلرز تک دو سال کے اندر بڑھا دیا جائے گا۔ 500 ، ملین تک کی سالانہ سیلز کے ٹیکس گزاروں کی انوائسز کا 75فی صد حصہ  ڈیجیٹل انوائسنگ میں شامل کر دیا جائے گا اور یہ کام 30 جون تک مکمل کیا جائے گا۔ مالی سال میں چار ارب ڈالر کے فنانسنگ گیپ کو پورا کرنا حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہوگا۔ بین الاقوامی بانڈ کے اجرا سے  25 کروڑ ڈالر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ کی زمین وسائل عسکری کمپنیوںکے حوالے کیے جارہے ہیں، عوامی تحریک
  • کلثوم فرمان تحریک انصاف ویمن ونگ گلگت بلتستان کی صدر، ساجدہ صداقت جنرل سیکرٹری مقرر
  •  غربت بڑھی، وفاق، پنجاب، بلوچستان میں صحت و تعلیم کے بجٹ اہداف حاصل، سندھ، خیبر پی کے پیچھے: آئی ایم ایف
  • اسلام آباد سندھ کی تقسیم سے باز رہے ،عوامی تحریک
  • سندھ، تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی چھٹیوں کا اعلان
  • سندھ کے تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی چھٹیوں کا اعلان
  • سندھ میں موسم سرما کی سالانہ تعطیلات کا اعلان
  • سندھ بھر کے تعلیمی اداروں میں موسمِ سرما کی تعطیلات کا باضابطہ اعلان
  • حکومت سندھ یونیسف کیساتھ تعاون مزید مضبوط کرنے کیلئے پُرعزم ہے، وزیراعلیٰ سندھ