Express News:
2025-12-14@01:52:46 GMT

معاشی چیلنجز اور سیاسی پیچیدگیاں

اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT

اس کالم کو لکھتے ہوئے ایک اہم خبر سامنے آئی کہ سابق آئی ایس آئی چیف فیض حمید کو چودہ سال قید با مشقت کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ اب وہ جنرل کا اعزاز اپنے کاندھوں پر سجانے کے مستحق نہیں رہے۔

یہ حقیقت ہے کہ قصور وارکوئی ایک نہیں ہوتا اور اس تصویرکا دوسرا رخ کیا ہے؟ وہ بھی عیاں ہونا چاہیے۔ ان چہروں کو بھی کٹہرے میں ضرورکھڑا ہونا چاہیے۔ فیض حمید کو سزا پی ٹی آئی سے وابستہ لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہوگی مگر یہاں سوال پھر یہی ہے کہ آخر نو مئی کے واقعے کا ذمے دار اور ماسٹر مائنڈ کون تھا؟

میرے آرکائیو فولڈر میں میرے تمام کالم موجود ہیں۔ ہم عمران خان کی حکومت کے دور میں بھی ایسی ہی باتیں کرتے تھے اور اس کا عتاب بھی بھگت چکے ہیں ، اس دور میں جو چند چینل ہمیں تجزیہ نگاری کے لیے مدعو کرتے تھے، انھوں نے ہمارے لیے اپنے دروازے بند کردیے۔

ایک اور اہم خبر اخبارات کی زینت بنی کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت کے حوالے سے ایک رپورٹ شایع کی ہے جس میں پاکستان کی معیشت کو قدرے مستحکم قرار دیا ہے اور یہ بھی کہ پاکستان مستحکم stability سے ایک قدم آگے جا کر ’’بڑھتی ہوئی معیشت‘‘ ( growing)بن کر ابھر رہا ہے۔

بیرونی مجموعی قرضہ جات میں آیندہ سال ایک فیصد تک کمی ہونے کا امکان ہے۔ افراطِ زر بڑھے گی ضرور لیکن رہے گی سنگل ڈجٹ۔ یعنی ایسا پہلی مرتبہ ہوگا کہ آٹھ سالوں کے بعد پاکستان کی شرح نمو پانچ فیصد تک پہنچنے والی ہے جوکہ اوسطاً پوری ایشیاء میں قائم ہے۔

خان صاحب کے دورِ حکومت کا اگر ہم جائزہ لیں تو ان کی حکومت ایک ہائبرڈ حکومت تھی، ایک ٹرائیکا تھا، خان صاحب کے ساتھ جو چل رہا تھا، دو بڑے چہرے فیض حمید اور جنرل قمر جاوید باجوہ بھی تھے اور جو معیشت کا حال تھا اور جس طرح سے ملک چل رہا تھا وہ ہمارے سامنے ہے۔

امریکا میں بسنے والے پاکستانی نژاد، ماہرِ معاشیات میاں عاطف نے پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ایک تجویز دی ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کو معاشی سطح پر مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انھوں نے اشرافیہ کو معیشت کی خرابی کا ذمے دار ٹھہرایا ہے۔

ان کا یہ تجزیہ ہے کہ پاکستان کو پچاس سال تک پانچ فیصد شرح نموکی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ان تجاویز پر عمل درآمد کرنا یا کرانا حقیقتاً مشکل ہے۔ اشرافیہ ہر حکومت کا حصہ بن جاتی ہے ، یہاں بڑے بڑے بزنس ٹائیکونز،کمپنیاں، اسلحے کے کاروباری، منشیات کے کاروبار سے وابستہ ، اسمگلنگ اور ان کو سہولیات فراہم کرنے والے اور ان کی نمایندگی کرنے والے افراد اور گروہ اقتداری ایوانوں تک اثر رسوخ رکھتے ہیں۔

اس اشرافیہ کا ایک حصہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہے اور دوسرا دھڑا پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے تو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر ان کی بات نہ مانی گئی تو وہ نو مئی جیسے ایک اور واقعے کے لیے بھی تیار ہیں، وہ دھڑا جو افغان جہاد کی پیداوار ہے، وہ ملک میں اس وقت خانہ جنگی چاہتا ہے۔

ہر ملک کی معیشت کے پیچھے ایک مخصوص سوچ اور بیانیہ ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے اس بیانیے کو اس ملک کی بنیادوں میں پیوست کیا۔ جنرل ضیاء نے انتہا پرست سوچ رکھنے والوں کو اسی اشرافیہ کی کلب میں شامل کیا، اس طرح سے جناح کی گیارہ اگست کی سیکیولر پالیسی کا خاتمہ کیا گیا۔

ہمارا سیکیولر ہونا، ہماری معیشت اور مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے ضروری ہے۔ یہ سب ہمارے آئین میں موجود تھا مگر ہماری عدالتیں آئین کی صحیح تشریح کرنے سے کتراتی رہیں اور نظریہ ضرورت ان کے لیے ایک پناہ گاہ تھی۔

ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ہماری معیشت کہاں تھی، افغان جہاد شروع ہونے کے بعد جب ملک میں Non-Documented معیشت نے اپنی جڑیں بنانا شروع کیں، تمام شرفاء کو ٹیکس میںسہولیات ملیں، ہم نے انسانی وسائل میں ترقی نہیں کی۔

ہمارے سالانہ بجٹ میں غربت کے خاتمے کے لیے، انسانی حقوق اور ترقی کے لیے، جتنے پیسے مختص کیے جاتے ہیں وہ خود اس بات کاثبوت ہے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں۔دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں ہمارے حق میں بہتر ثابت ہوئی ہیں۔بانی پی ٹی آئی کے دور میں پھیلی ہوئی معاشی تباہی اگر صحیح ستونوں پرکھڑی نہ ہو سکی تو ہم بکھرکر رہ جائیں گے۔

ہماری بیروزگاری کی شرح 7.

1% پر پہنچ چکی ہے اور بیروزگاری کی یہ شرح گزشتہ بیس سالوں میں اس وقت اوپری سطح پر ہے۔ ہماری کل آبادی کے پینتالیس فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جو انتہائی تشویشناک ہے۔

ہماری اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ، ایشیاء کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مارکیٹ ہے لیکن یہ معیشت کے صحت مند ہونے کا پیرامیٹر نہیں ہے۔ لوگ دیہاتوں سے ہجرت کر رہے ہیں، شہروں کی طرف آ رہے ہیں ان ہجرتوں کے اثرات منفی بھی ہیں اور مثبت بھی۔

منفی اس لیے کہ گاؤں اور دیہاتوں میں زندگی کی بنیادی ضروریات میسر نہیں۔ نہ اسکول، نہ اسپتال، نہ صاف پینے کا پانی وغیرہ۔2022 کا ڈیٹا یہ معلومات دیتا ہے کہ اس وقت ملک کی 39% آبادی پینے کے شفاف پانی سے محروم تھی اور آج 45% آبادی صاف پانی کی بنیادی ضرورت سے محروم ہے جو کہ انتہا ئی تشویشناک ہے۔

ہم نے ہمیشہ معیشت کی منصفانہ تقسیم سے اجتناب برتا، بلکہ ایک مخصوص اشرافیہ کو ساتھ لے کر چلے۔ آزادی کے بعد فاٹا کو صرف چند سالوں تک ہی رہنا چاہیے تھا مگر کسی میں بھی اتنی سیاسی جرات نہ تھی کہ فاٹا کے ختم کر کے مستقل طور پر خیبر پختونخوا میں ضم کرتے اور جب ایسا کیا تو افغان جنگ ہماری دہلیز تک پہنچ چکی تھی۔

چلیں دیر ہی سہی مگر دیر آید درست آید۔ سندھ کے دیہات پیروں اور وڈیروں کے زیرِ اثر ہیں وہاں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ سندھ کے کسی حلقے constituency میں مڈل کلاس بیانیہ یا نظریہ موجود نہیں، وہاں کی تمام نشستیں غلامی کا عکس ہیں اور یہ صورتحال وقت کے ساتھ مزید بگڑ رہی ہے۔

سندھ میں مڈل کلاس سیاست نے اب جگہ لی ہے۔ بلوچستان میں ہم نے سرداری نظام کو چلنے دیا اور وہ ریاست کے اتحادی تھے، جس کے نتائج وہاں یہ نکلے کہ ابھرتی مڈل کلاس سیاست، ریاست ہی کے خلاف ہو گئی۔

معیشت کی مضبوطی ا س میں ہے کہ پیداواری حصوں کو آگے لایا جائے اس بات کی اب اشد ضرورت ہے، وہ بیانیہ جو خواتین کو معیشت کی پیداواری اور مضبوطی میں حصہ لینے سے روکے اس بیانیے کی حوصلہ شکنی کی جائے کیونکہ ایسے تمام بیانیہ، نظریات اور روایات کی ہمارے آئین میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

یہ نظریات اور روایات آئین کے اندر موجود بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔حقوقِ نسواں اور خواتین کی فلاح و بہبود کے جو پیمانے دنیا میں مروج ہیں ہم ان میں آخری نمبر پرکھڑے ہیں۔ دنیا میں انصاف فراہم کرنے کے جو مروج پیمانے ہیں وہ ہمیں صحت مند قوم اور ریاست نہیں سمجھتے۔

پاکستان کو بہ حیثیت ریاست اب ایک بات سمجھ میں آ رہی ہے کہ ریاست کو محض نظریات سے نہیں چلایا جا سکتا۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو یہ رپورٹ دی ہے کہ پچھلے سال پاکستان میں5300 ارب روپے کی خوردبرد ہوئی ہے جو کہ لگ بھگ بیس ارب ڈالرکے برابر ہے۔

ہماری کل وصولیات چالیس فیصد کرپشن میں چلا جاتا ہے جو ایک تشویشناک بات ہے، مگر Transparency International نے ہی رپورٹ دی ہے کہ پچھلے سال کی بہ نسبت پاکستان میں کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے۔

 فیض حمید کا کورٹ مارشل اور سزا ، اپنے اختیارات سے تجاوز اورغلط استعمال کی بنیاد پر دی گئی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار اداروں نے جرات کا مظاہرہ کیا اور خود ادارے نے احتساب کیا۔

یہاں سے اس روایت کا آغاز ہونا چاہیے اور یہ روایت تمام اداروں تک جانی چاہیے۔کیسے بلڈرز مافیا اور ٹھیکیداروں سے گٹھ جوڑ بنا کر اس ملک کی معیشت کو تباہ کیا گیا ہے۔

کرپشن اور اقرباء پروری کی داستان بہت طویل ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان ترقی کرسکتا ہے، مگر اس کے لیے ایک مستحکم معیشت کی ضرورت ہے اور ایک مضبوط و مستحکم معیشت کے پیچھے ریاست، معاشرہ، بھرپور سیاست ، انصاف کی فراہمی اور جمہوری رواداری کا بیانیہ جس کو مزید بہترکرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کی پاکستان کو کہ پاکستان پی ٹی ا ئی معیشت کے فیض حمید کی معیشت ضرورت ہے معیشت کی کے ساتھ ہے اور ملک کی کے لیے

پڑھیں:

ترقی کا واحد راستہ، محنت اور معاشی استحکام

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ جادو ٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کرے گا، عسکری و سیاسی قیادت نے مل کر کام کیا اور ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی معیشت دوبارہ پٹری پر آئی، افواج کی قربانیوں کا مذاق اڑائیں گے تو کون پاکستان کی عزت کرے گا؟ ملکی ترقی اور استحکام کے لیے اتحاد و یکجہتی ناگزیر ہے، علمائے کرام کو تفرقہ بازی کا خاتمہ کرنا ہو گا۔

 اس کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا، جب کہ چیف آف آرمی اسٹاف، چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا کہ دہشت گردی پاکستان کا نہیں، بھارت کا وتیرا ہے، ہم دشمن کو چھپ کے نہیں للکار کر مارتے ہیں، انھوں نے ان خیالات کا اظہار قومی علماء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ دوسری جانب امریکا کے ایگزم بینک نے پاکستان کے لیے ایک ارب 25 کروڑ ڈالر کی نئی مالی معاونت کی منظوری دے دی ہے‘ یہ سرمایہ کاری بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے میں اہم معدنیات کی کانکنی میں مزید پیشرفت کے لیے ہے۔

 وزیراعظم محمد شہباز شریف کی گفتگو نے ایک ایسے وقت میں قومی بیانیے کو مہمیز دی ہے جب ملک ایک جانب معاشی مشکلات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے تو دوسری جانب دہشت گردی کی مسلسل لہر سیاسی و معاشرتی استحکام کے لیے چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا کہ ملک جادو ٹونے سے نہیں بلکہ محنت سے ترقی کرے گا، محض ایک جملہ نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے میں رائج اس سوچ کی نفی ہے جو مسائل کے حقیقی اسباب کو سمجھنے کے بجائے غیر حقیقی سہولت پسندی اور ماورائی حل تلاش کرنے میں مصروف رہتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی قوم جب تک اجتماعی کوشش، منظم پالیسی، مربوط حکمت عملی اور طویل المدت منصوبہ بندی کے ساتھ محنت کو اپنا شعار نہیں بناتی وہ ترقی کے راستے پر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ وزیراعظم کی اس بات کا اصل تناظر بھی یہی ہے کہ ملک کی معیشت، سیاست، اداروں اور سماجی ڈھانچے کو کسی شارٹ کٹ، کسی کرشمے یا کسی چھپے ہاتھ سے نہیں بلکہ انتھک کام اور اصولوں کے ساتھ جمایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم نے عسکری و سیاسی قیادت کی مشترکہ کوششوں کا ذکر بھی کیا جن کے نتیجے میں ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی معیشت کو دوبارہ پٹری پر لایا گیا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستانی معیشت ایک ایسے بحران کا شکار ہو چکی تھی جس سے نکلنے کے لیے غیر معمولی اقدامات ضروری تھے۔

چاہے وہ آئی ایم ایف کے ساتھ مشکل مذاکرات ہوں، دوست ممالک سے مالی معاونت حاصل کرنا ہو، محصولات میں اضافہ ہو، کفایت شعاری کے اقدامات ہوں یا پھر برآمدات و مقامی صنعت کو سہارا دینے کی مساعی۔ یہ تمام اقدامات اسی صورت میں نتیجہ خیز ہوتے ہیں جب سیاسی اور عسکری سطح پر ہم آہنگی موجود ہو۔ ملکوں کی تاریخ گواہ ہے کہ داخلی خلفشار، بے یقینی اور ادارہ جاتی کشمکش معیشت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ اس پس منظر میں وزیراعظم کی بات ایک مثبت پیغام بھی رکھتی ہے کہ قیادت نے مل کر ملک کو بحران سے نکالا، تاہم یہ شروعات ہیں، منزل ابھی بہت دور ہے۔

 وزیراعظم نے افواج پاکستان کی قربانیوں کا مذاق اڑانے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ اگر ہم اپنی فوج کی عزت نہیں کریں گے تو دنیا پاکستان کا احترام کیسے کرے گی؟ یہ سوال بنیادی نوعیت رکھتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لاکھوں متاثرین اور ہزاروں شہداء دے چکا ہے۔ یہ وہ جنگ تھی جو پاکستان نے کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنی بقا کے لیے لڑی۔ دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ فوج ہو یا پولیس، شہری آبادی ہو یا کمزور اضلاع، کسی میں تمیز نہیں کی گئی۔

ایسے میں ان قربانیوں کو متنازع بنانے یا ان کا مذاق اڑانے کا طرزِ عمل نہ صرف قومی وحدت کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ دشمن کو تقویت بھی دیتا ہے۔ حساس قومی اداروں اور ان کی قربانیوں کو تضحیک کا نشانہ بنانا کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں ہوتا۔

دہشت گردی اور معاشی ترقی کے باہمی تعلق پر وزیراعظم کی گفتگو بالکل درست سمت کی نشاندہی کرتی ہے۔ دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک ملک جس میں روزانہ دھماکے ہوں، شہری خوف و ہراس میں مبتلا ہوں، پولیس اور سیکیورٹی فورسز نشانہ بن رہی ہوں، صوبے عدم استحکام سے دوچار ہوں اور وہاں سرمایہ کار تحفظ محسوس کریں، صنعتکار اعتماد کے ساتھ سرمایہ لگائیں یا عالمی کمپنیوں کے وفود وہاں آکر بیٹھنے میں آسودگی پائیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے واقعات اس حقیقت کا دردناک چہرہ ہیں کہ دہشت گردی صرف انسانی جانوں کا نقصان نہیں کرتی بلکہ پورے ترقیاتی عمل کو یرغمال بنا دیتی ہے۔

ایک طرف عوام کی زندگی عدم تحفظ کا شکار ہوتی ہے اور دوسری طرف حکومت پر سیکیورٹی اخراجات بڑھ جاتے ہیں، صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے پر خرچ ہونے والا پیسہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں لگ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے دوٹوک انداز میں کہا کہ دہشت گردی اور معاشی ترقی کی کاوشیں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔

علمائے کرام کو فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنے کی اپیل بھی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر قائم تفریق نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو توڑتی ہیں بلکہ دہشت گرد عناصر کے لیے غذا بھی فراہم کرتی ہیں۔ اگر علماء کرام منبر و محراب کے ذریعے امن، وحدت، باہمی احترام اور رواداری کا درس دیں، فرقہ واریت کا خاتمہ ممکن بنائیں اور مذہبی جھگڑوں کا دروازہ بند کریں تو ملک کی داخلی استحکام کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ دور ہو سکتی ہے۔

اسی منظر نامے میں آرمی چیف سید عاصم منیر کے خطاب نے قومی بیانیے کو ایک اور زاویہ فراہم کیا ہے۔ ان کا کہنا کہ دہشت گردی پاکستان کا نہیں بلکہ بھارت کا وطیرہ ہے، اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ خطے میں دشمن قوتیں پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے بارہا اس بات کے ثبوت پیش کیے ہیں کہ دہشت گرد تنظیموں کو بیرونی معاونت فراہم کی جاتی ہے، انھیں عسکری، مالی اور تکنیکی مدد دی جاتی ہے تاکہ وہ پاکستان کے اندر افراتفری اور خوف کی فضا قائم رکھ سکیں۔ آرمی چیف کا یہ کہنا کہ ہم دشمن کو للکار کر مارتے ہیں، پاکستان کی عسکری قوت کے اس اعتماد اور صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے جو طویل جنگی تجربے اور مسلسل آپریشنز کے نتیجے میں پروان چڑھی ہے۔

پاکستان نے نہ صرف دہشت گردی کو شکست دی بلکہ اپنے علاقوں کو کلیئر کیا، لاکھوں شہریوں کو واپس ان کے گھروں میں آباد کیا اور دنیا کو دکھایا کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو دہشت گردی ناقابل شکست نہیں رہتی۔دوسری جانب امریکی ایگزم بینک کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک ارب 25 کروڑ ڈالر کی نئی مالی معاونت کی منظوری ملک میں معدنیات کے شعبے کے لیے امید کی نئی کرن ہے۔ ریکوڈک منصوبہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے معاشی امکانات کا دروازہ ہے۔ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں امریکا میں چھ ہزار اور بلوچستان میں تقریباً ساڑھے سات ہزار روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہوں گے۔ یہ اعداد و شمار پاکستان کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ روزگار کے مواقعے میں اضافہ خوشحالی اور معاشی سرگرمی کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔

امریکی سرمایہ کاری کا پاکستان کے لیے ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں عالمی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔ اس وقت دنیا خصوصی طور پر معدنیات، توانائی اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے نئے مواقع تلاش کر رہی ہے۔ اگر پاکستان شفاف سیاسی ماحول، مضبوط اداروں، مستحکم سیکیورٹی صورتحال اور معیاری قانونی فریم ورک فراہم کرے تو بیرونی سرمایہ کار یقیناً ملک کی طرف متوجہ ہوں گے۔ ریکوڈک کا منصوبہ ایک ایسی کامیاب مثال بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی بیرونی سرمایہ کاری اپنی نئی راہوں پر چل نکلے گی۔

 اگر ہم نے محنت کو اپنا شعار نہ بنایا، اگر ہم نے سیکیورٹی کو مضبوط نہ کیا، اگر ہم نے فرقہ واریت کو جڑ سے نہ اکھاڑا ، اگر ہم نے قومی اداروں کی عزت نہ کی، اگر ہم نے بیرونی سرمایہ کاری کو جذب کرنے کے لیے مربوط پالیسی نہ بنائی تو پھر کوئی جادو، کوئی دعا، کوئی شارٹ کٹ اور کوئی خفیہ طاقت ہمیں ترقی نہیں دلا سکتی۔

وزیراعظم شہباز شریف کا پیغام، آرمی چیف کا عزم، امریکی سرمایہ کاری کی نوید، یہ سب پاکستان کے لیے ایک نئی امید کی علامت بن سکتے ہیں۔ لیکن اس امید کو حقیقت میں بدلنے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے اجتماعی طور پر بطور قوم اپنی ذمے داریوں کا احساس۔ یہ پاکستان ہم سب کا ہے، اس کی ترقی ہم سب کی ترقی ہے، اس کا استحکام ہم سب کا استحکام ہے۔ آج وقت ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنی صفوں کو درست کریں، اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈالیں، ملک میں امن و اتحاد کو فروغ دیں اور دنیا کو دکھائیں کہ پاکستان ایک زندہ قوم ہے جو ہر چیلنج کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان بحران سے نکل آیا‘ معاشی اشاریے بہتر ہو چکے ‘وزیراعظم
  • آئی ایم ایف کی 1.2 ارب ڈالر کی قسط کی منظوری، معیشت مستحکم
  • وزیرخزانہ کا معاشی اصلاحات پرزور، این ایف سی پر جنوری تک پیش رفت کا اعلان
  • وزیراعظم کی معاشی ٹیم کی محنت اور کاوشوں سے بدعنوانی میں نمایاں کمی آئی:محمد اورنگزیب
  • کاروباری اصلاحات سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے، وزیراعظم شہباز شریف
  • پاکستان معاشی طور پر بحران سے نکل چکا ہے: وزیراعظم شہباز شریف
  • اصلاحاتی اقدامات سے معاشی اشاریوں میں نمایاں بہتری آئی؛ محمد اورنگزیب
  • نئے خطرات اور نئے چیلنجز
  • ترقی کا واحد راستہ، محنت اور معاشی استحکام