القاعدہ مالی کے دارالحکومت بماکو پر قبضے کے قریب
اشاعت کی تاریخ: 1st, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بماکو (انٹرنیشنل ڈیسک) القاعدہ سے وابستہ جماعت نصرت الاسلام والمسلمین (جے این آئی ایم) مالی کے دارالحکومت باماکو پر کنٹرول کے قریب آگئی ۔ وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ خطرناک پیش رفت مالی کو دنیا کا ایسا پہلا ملک بنا سکتی ہے جو امریکا کی طرف سے نامزد دہشت گرد تنظیم کے زیر انتظام ہے۔ بماکو پر قبضے کی صورت میں پہلا موقع ہو گا کہ القاعدہ سے براہ راست منسلک کسی گروپ نے کسی دار الحکومت پر کنٹرول حاصل کیا ہو۔ اس صورت حال سے بین الاقوامی سیکورٹی حلقوں میں بڑے پیمانے پر تشویش پھیل گئی ہے۔ کئی ہفتوں سے اس گروپ نے دارالحکومت کا شدید محاصرہ کر رکھا ہے۔ خوراک اور ایندھن کی ترسیل کو روکا جا رہا ہے۔ خوراک کی شدید قلت ہے اور فوجی آپریشن تقریباً مکمل طور پر مفلوج ہو گئے ہیں۔ یورپی حکام نے تصدیق کی ہے کہ یہ گروپ براہ راست حملے کے بجائے سست روی سے گلا گھونٹنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ امید ہے کہ اقتصادی اور انسانی بحران کے دباؤ میں دارالحکومت بتدریج منہدم ہو جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بحران مالی کی فوج کی صلاحیتوں کو کمزور کر رہا ہے جو خود ایندھن اور گولہ بارود کی شدید قلت کا شکار ہے۔ جماعت نصرت الاسلام والمسلمین گروپ 2017 ء میں القاعدہ سے وابستہ کئی دھڑوں کے انضمام سے تشکیل دیا گیا تھا۔ اپنے قیام کے بعد سے اس نے بنیادی تنظیم سے مکمل وفاداری کا عہد کیا ہے۔ وال سٹریٹ جرنل نے مغربی اور افریقی حکام کے حوالے سے بتایا کہ اس کے جنگجوؤں کو افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کے رہنماؤں سے بم بنانے کی تربیت حاصل ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں دارالحکومت کی طرف جانے والے ایندھن کے قافلوں پر بار بار حملے دیکھنے میں آئے ہیں۔ باغیوں کی طرف سے جاری کی گئی وڈیو کے مطابق ایک حالیہ واقعے میں مسلح افراد نے بماکو جانے والی سڑک پر درجنوں ٹرکوں پر حملہ کیا اور باقی پر قبضہ کرنے کے ٹرکوں کو آگ لگا دی۔ کاٹی کے قریبی قصبے میں تعینات فورسز ایندھن کی قلت کی وجہ سے مداخلت کرنے سے قاصر رہیں۔ دوسری جانب ایندھن ملک میں تنازعات کا مرکزی نقطہ بن گیا ہے۔ باماکو میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت تقریباً 3.
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پاکستان کی برآمدات جی ڈی پی کے تناسب سے کم، معاشی نمو قرض پر منحصر ہو رہی ہے، ورلڈ بینک
پاکستان ڈویلپمنٹ اپڈیٹ میں ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ 2000ء سے برآمدات جی ڈی پی کے تناسب سے مسلسل کم ہوتی جارہی ہیں جو کہ 1990ء کی دہائی میں اوسطاً 16 فیصد سے گر کر 2024ء میں صرف تقریباً 10.4 فیصد رہ گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ملک کی معاشی نمو قرض اور ترسیلاتِ زر پر منحصر ہو گئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ورلڈ بنک نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کی برآمدات جی ڈی پی کے تناسب سے کم ہو رہی ہیں اور یہ اپنی ممکنہ حد سے کافی نیچے ہیں، جس سے تقریباً 60 ارب امریکی ڈالر کی غیر استعمال شدہ برآمدی صلاحیت ظاہر ہوتی ہے۔ بینک نے برآمدات کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر بلند محصولات، پیچیدہ ضوابط، مہنگی توانائی اور لاجسٹکس کو اہم عوامل قرار دیا ہے۔ پاکستان ڈویلپمنٹ اپڈیٹ میں ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ 2000ء سے برآمدات جی ڈی پی کے تناسب سے مسلسل کم ہوتی جارہی ہیں جو کہ 1990ء کی دہائی میں اوسطاً 16 فیصد سے گر کر 2024ء میں صرف تقریباً 10.4 فیصد رہ گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ملک کی معاشی نمو قرض اور ترسیلاتِ زر پر منحصر ہو گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی برآمدات کی کارکردگی کبھی بنگلہ دیش اور بھارت سے آگے تھی، لیکن آج یہ دونوں ممالک سے پیچھے ہے اور کم اور درمیانے آمدنی والے ممالک (ایل ایم آئی سی) اور بڑے درمیانی آمدنی والے ممالک (یو ایم آئی سی) کے اوسط سے بھی نیچے ہے۔ یہ کمی اس وقت ہوئی جب برآمدات کا فرق، یعنی پاکستان کی اصل برآمدات اور برآمدی صلاحیت کے درمیان فرق وسیع ہو گیا۔
ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ آبادی، ترقی کی سطح اور بڑی مارکیٹس سے قربت جیسے بنیادی اقتصادی عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ تخمینوں کے مطابق پاکستان کی غیر استعمال شدہ برآمدی صلاحیت تقریباً 60 ارب امریکی ڈالر ہے۔ اس فرق کو ختم کرنے سے پاکستان یو ایم آئی سیز کے اوسط کے برابر آ جائے گا تاہم اس کے لیے جی ڈی پی میں موجودہ برآمدات کا تناسب دوگنا ہونا ضروری ہے۔ بینک نے برآمدات کی قیادت میں نمو کے لیے وسیع اقدامات کا مطالبہ کیا ہے جن میں مارکیٹ کے مطابق ایکسچینج ریٹ، مضبوط تجارتی مالی معاونت، بہتر لاجسٹکس اور تعمیل، گہرے تجارتی معاہدے اور ڈیجیٹل و توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی توسیع شامل ہیں تاکہ ابھرتی ہوئی آئی ٹی سروسز کی برآمدات سمیت برآمدی ترقی کو فروغ دیا جاسکے۔ بینک نے تجویز دی ہے کہ اسٹیٹ بینک کی ثالثی کے بغیر ایک ڈیپ اینڈ لیکوئیڈ انٹربینک مارکیٹ قائم کی جائے اور برآمد کنندگان، درآمد کنندگان اور غیر ملکی سرمایہ کاروں سمیت مختلف مارکیٹ پلیئرز کی زیادہ شمولیت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس کے ساتھ بینک نے انٹربینک مارکیٹ کے لین دین کا تفصیلی ڈیٹا شائع کرنے، جس میں حجم اور شرکاء شامل ہوں اور عبوری مداخلتوں کو مرحلہ وار ختم کرنے کی بھی سفارش کی، تاکہ کرنسی کا ریٹ حقیقی سپلائی اور ڈیمانڈ کی عکاسی کرے۔