پاکستان کی برآمدات جی ڈی پی کے تناسب سے کم، معاشی نمو قرض پر منحصر ہو رہی ہے، ورلڈ بینک
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
پاکستان ڈویلپمنٹ اپڈیٹ میں ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ 2000ء سے برآمدات جی ڈی پی کے تناسب سے مسلسل کم ہوتی جارہی ہیں جو کہ 1990ء کی دہائی میں اوسطاً 16 فیصد سے گر کر 2024ء میں صرف تقریباً 10.4 فیصد رہ گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ملک کی معاشی نمو قرض اور ترسیلاتِ زر پر منحصر ہو گئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ورلڈ بنک نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کی برآمدات جی ڈی پی کے تناسب سے کم ہو رہی ہیں اور یہ اپنی ممکنہ حد سے کافی نیچے ہیں، جس سے تقریباً 60 ارب امریکی ڈالر کی غیر استعمال شدہ برآمدی صلاحیت ظاہر ہوتی ہے۔ بینک نے برآمدات کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر بلند محصولات، پیچیدہ ضوابط، مہنگی توانائی اور لاجسٹکس کو اہم عوامل قرار دیا ہے۔ پاکستان ڈویلپمنٹ اپڈیٹ میں ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ 2000ء سے برآمدات جی ڈی پی کے تناسب سے مسلسل کم ہوتی جارہی ہیں جو کہ 1990ء کی دہائی میں اوسطاً 16 فیصد سے گر کر 2024ء میں صرف تقریباً 10.
ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ آبادی، ترقی کی سطح اور بڑی مارکیٹس سے قربت جیسے بنیادی اقتصادی عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ تخمینوں کے مطابق پاکستان کی غیر استعمال شدہ برآمدی صلاحیت تقریباً 60 ارب امریکی ڈالر ہے۔ اس فرق کو ختم کرنے سے پاکستان یو ایم آئی سیز کے اوسط کے برابر آ جائے گا تاہم اس کے لیے جی ڈی پی میں موجودہ برآمدات کا تناسب دوگنا ہونا ضروری ہے۔ بینک نے برآمدات کی قیادت میں نمو کے لیے وسیع اقدامات کا مطالبہ کیا ہے جن میں مارکیٹ کے مطابق ایکسچینج ریٹ، مضبوط تجارتی مالی معاونت، بہتر لاجسٹکس اور تعمیل، گہرے تجارتی معاہدے اور ڈیجیٹل و توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی توسیع شامل ہیں تاکہ ابھرتی ہوئی آئی ٹی سروسز کی برآمدات سمیت برآمدی ترقی کو فروغ دیا جاسکے۔ بینک نے تجویز دی ہے کہ اسٹیٹ بینک کی ثالثی کے بغیر ایک ڈیپ اینڈ لیکوئیڈ انٹربینک مارکیٹ قائم کی جائے اور برآمد کنندگان، درآمد کنندگان اور غیر ملکی سرمایہ کاروں سمیت مختلف مارکیٹ پلیئرز کی زیادہ شمولیت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس کے ساتھ بینک نے انٹربینک مارکیٹ کے لین دین کا تفصیلی ڈیٹا شائع کرنے، جس میں حجم اور شرکاء شامل ہوں اور عبوری مداخلتوں کو مرحلہ وار ختم کرنے کی بھی سفارش کی، تاکہ کرنسی کا ریٹ حقیقی سپلائی اور ڈیمانڈ کی عکاسی کرے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: برآمدات جی ڈی پی کے تناسب سے پاکستان کی کی برآمدات ورلڈ بینک
پڑھیں:
طالبان اور روس کے درمیان زرعی مصنوعات کی برآمدات میں توسیع کا معاہدہ
تسنیم نیوز ایجنسی کے علاقائی دفتر کے مطابق افغانستان میں روس کے تجارتی مرکز کے سربراہ رستم حبیبولین نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ سرحدی راستوں کی بندش کے باعث افغان تاجروں کو ہمسایہ ممالک، بالخصوص روس، میں نئی منڈیاں تلاش کرنا پڑی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ افغانستان میں روس کے تجارتی مرکز کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ طالبان اور روس کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد افغان زرعی مصنوعات، خصوصاً پھلوں اور سبزیوں کی روسی منڈیوں میں برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ تسنیم نیوز ایجنسی کے علاقائی دفتر کے مطابق افغانستان میں روس کے تجارتی مرکز کے سربراہ رستم حبیبولین نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ سرحدی راستوں کی بندش کے باعث افغان تاجروں کو ہمسایہ ممالک، بالخصوص روس، میں نئی منڈیاں تلاش کرنا پڑی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ رواں سال خزاں کے آغاز سے اب تک افغانستان سے 300 ٹن سے زائد انار روس درآمد کیے جا چکے ہیں، جو ماسکو، سینٹ پیٹرزبرگ اور کراسنودار کے شہروں میں فروخت کیے گئے ہیں۔ حبیبولین کے مطابق انار کے علاوہ سیب، انگور اور دیگر زرعی مصنوعات بھی افغانستان سے روس برآمد کی جا رہی ہیں، اور توقع ہے کہ یہ مصنوعات خشک میوہ جات اور مشروبات کی طرح روسی منڈی میں اچھی جگہ بنا لیں گی، ایران، تاجکستان اور ازبکستان جیسے ہمسایہ ممالک نے بھی افغان مصنوعات کی سرحد پار ترسیل میں تعاون بڑھا دیا ہے
واضح رہے کہ افغانستان کو کئی برسوں سے سرحدی پابندیوں اور سیاسی عدم استحکام کے باعث زرعی مصنوعات کی برآمدات میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ سرحد کی بندش، جو زرعی تجارت کا بنیادی راستہ سمجھی جاتی تھی، نے افغان تاجروں کو روس اور دیگر ہمسایہ ممالک میں متبادل منڈیاں تلاش کرنے پر مجبور کیا۔ طالبان اور روس کے درمیان حالیہ معاہدہ نہ صرف برآمدات کو آسان بناتا ہے بلکہ افغانستان کے لیے اندرونی آمدنی میں اضافے اور بین الاقوامی تجارت کے فروغ کا ایک اہم موقع بھی فراہم کرتا ہے۔