ڈر ہے یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
’’یار لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان غریب ملک ہے لیکن اس علاقے کو دیکھیں تو غربت دور دور تک نظر نہیں آتی۔‘‘ بیرون ملک سے آئے ایک مہمان نے ہمارے ساتھ ایک پوش علاقے میں سفر کرتے ہوئے کومنٹ کیا۔
ہم نے جواب دیا یہ علاقہ خوشحال ترین علاقوں کا نمایندہ ہے۔ ہر بڑے شہر میں ایسے چند علاقے موجود ہیں جہاں ملکی اشرافیہ کے مسائل صبح کرنا شام نہیں ہیں بلکہ کون سی نئی گاڑی ہو؟ اگلا نیا گھر کہاں اور کتنا بڑا؟ اگلا فارن ٹریول کہاں اور کب؟
بچوں کی شادی کس ڈیسٹی نیشن یعنی کسی مشہور سیاحتی مقام پر ہو؟ رئیل اسٹیٹ کی قیمتیں کب چڑھیں گی؟ اسٹاک ایکسچینج کب دوبارہ اوپر چڑھے گی؟ حکومت کا ڈالر پر کنٹرول کب لوز ہو گا تاکہ رکھے ڈالروں کا فائدہ وصول ہو؟
وغیرہ وغیرہ۔ ان سے پرے ایک اور پاکستان ہے جو ان چند خوشحال ترین علاقوں کو چھوڑ کر ملک کے طول و عرض پر پھیلا ہوا ہے، جہاں صبح کرنا شام کا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
ایک ڈیڑھ سال پرانی بات ہے۔ لاہور کے ایک انتہائی پوش علاقے میں ایک شہرت یافتہ انٹرنیشنل برانڈ نے اپنا ریسٹورنٹ کھولا تو پہلے دن کی سیلز نے کمپنی کا پہلے دن سیلز عالمی ریکارڈ توڑ دیا۔
اگلے کئی ہفتے ریستوران کے باہر کروڑپتی خاندانوں کی لائنیں لگی رہیں۔ یہ اشرافیہ کا پاکستان ہے۔ دوسری طرف مڈل کلاس اور پسماندہ طبقات کے علاقوں میں چلے جائیں، سڑکوں پر ٹریفک کا اژدھام اور ہنگامہ، تنگ گلیاں اور مسائل کا ایک کے بعد ایک بڑا انبار۔ یہ دو پاکستان عدم مساوات کا مظہر ہیں۔
عدم مساوات صرف معاشی پیمانوں پر ہی ناپی نہیں جاتی، معاشی پیمانے تو عدم مساوات کے دستاویزی ثبوت ہیں جب کہ عدم مساوات کا اصل اظہار انسانی زندگی کے شب وروز، تعلیم، صحت، روزگار، امن اور مستقبل کے بارے میں امید پر مبنی ہوتا ہے۔
کون سی سیاسی پارٹی دنیا میں بھی اور پاکستان میں ہوگی جو عوام کو معاشی خواب دکھلا کر سماجی انقلاب برپا کرنے کے نام پر ان سے ووٹ کا تقاضا نہیں کرتی۔ تاہم یہ محض اتفاق نہیں کہ دنیا میں بالعموم اور ہمارے ہاں بھی سیاسی جماعتیں بار بار اقتدار میں آنے کے باوجود کوئی معاشی کرشمہ سازی نہیں کر پاتیں۔
سیاسی ضروریات اور دکھاوے کے بڑے بڑے پروجیکٹس ضرور بنتے ہیں لیکن کیا کیجیے کہ خلق خدا کی زندگیوں میں آسانیاں وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوئی ہیں بلکہ مشکلات کے انبار بڑھے ہیں۔
ایسا کیوں ہے کہ دنیا میں بظاہر ترقی کے باوجود معاشی ناہمواری اور عدم مساوات تیزی سے بڑھی ہے؟ سال بہ سال مختلف سرویز اور تحقیقی رپورٹیں اس بات کو اجاگر کرتی ہیں کہ معاشی ناہمواری اور سماجی عدم مساوات معاشی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
حال ہی میں ورلڈ ان ایکویلٹی لیب World Inequality Lab نے 2026ء کی اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں ان خوفناک رجحانات کی نقشہ کشی ہے۔ اس رپورٹ پر گفتگو کرنے سے پہلے اس رپورٹ کے مرکزی خالق اور ان کے قائم کیے ادارے کا مختصر تعارف۔
تھامس پِکٹی (Thomas Piketty) عصرِ حاضر کے نمایاں ترین معاشی مفکرین میں شمار ہوتے ہیں، جنھوں نے عدم مساوات کو اعداد وشمار سے اٹھا کر سیاسی اور سماجی سوال بنا کر پیش کیا۔
وہ پیرس اسکول آف اکنامکس کے پروفیسر اور World Inequality Lab کے بانی ہیں۔ عالمی شہرت انھیں 2013ء میں شایع ہونے والی کتاب ’’Capital in the Twenty-First Century‘‘ سے ملی، جس نے دنیا بھر میں دولت کے ارتکاز اور سرمایہ داری کے تضادات پر نئی بحث چھیڑ دی۔
ورلڈ ان ایکوالٹی رپورٹس دراصل اسی تحقیق کا تسلسل ہے ، جنلس کا مقصد عدم مساوات کو بے نقاب کرنا اور اسے ناگزیر ماننے سے انکار ہے۔
ورلڈ ان ایکوالٹی لیب (World Inequality Lab) ایک عالمی تحقیقی ادارہ ہے جو دنیا بھر میں آمدن اور دولت کی عدم مساوات پر معیاری، قابلِ تقابل اور شفاف ڈیٹا فراہم کرتا ہے۔ یہ ادارہ پیرس اسکول آف اکنامکس سے وابستہ ہے اور اس کی بنیاد تھامس پِکٹی، ایمانوئل سائز اور دیگر ممتاز ماہرینِ معیشت نے رکھی۔ ورلڈ ان ایکوالٹی رپورٹ اور World Inequality Database (WID) اسی ادارے کی ہی نمایاں کاوشیں ہیں۔
ورلڈ ان ایکوالٹی رپورٹ 2026ء کے مطابق دنیا میں عدم مساوات ایک پھیلتا ہوا مسلسل اور عروج پر پہنچتا ہوا مروجہ معاشی و سیاسی نظاموں سے جڑا بحران ہے جس کا اثر افراد، معاشروں اور پورے عالمی نظام پر پڑ رہا ہے۔
آج دنیا میں دولت اور مواقع کی تقسیم نہ صرف انتہائی غیرمساوی ہے بلکہ وہ سال بہ سال مزید شدید ہو رہی ہے۔
رپورٹ کے اعداد و شمار سادہ مگر خوفناک سچ ہیں: دنیا کی ٹاپ 10 فیصد آبادی اتنی آمدنی کما رہی ہے جتنی باقی 90 فیصد مل کر بھی نہیں کما پاتے۔ غربت کی لکیر کے نیچے آدھی آبادی کی مجموعی دولت کا محض دو فیصد ہے۔
دولت کی تقسیم آمدنی سے بھی زیادہ شدید ہے۔ اوپر والے دس فیصد کے پاس دنیا کی تقریباً 75 فیصد دولت ہے جب کہ نیچے کے پچاس فیصد کے پاس صرف 2 فیصد دولت موجود ہے۔
جب ہم صرف اوپر 0.
ان انتہائی امیر افراد کی دولت کے حصے میں گزشتہ تین دہائیوں میں مستقل اضافہ ہوا ہے جب کہ نیچے کے طبقوں کی دولت بہت سست رفتاری سے بڑھی ہے۔
یہ عدم مساوات صرف آمدنی یا دولت تک محدود نہیں رہتی۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ عدم مساوات کے تمام طول وعرض ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں… مواقع، تعلیم، صحت، مالی نظام اور حتیٰ کہ ماحولیاتی ذمے داری تک۔
جس طرح دولت مرکزیت اختیار کر چکی ہے، وہی مرکزیت کاربن اخراج اور ماحولیاتی اثرات میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔
سب سے امیر دس فیصد افراد 77 فیصد کاربن اخراج کے ذمے دار ہیں جب کہ نیچے کے پچاس فیصد کا حصہ صرف 3 فیصد ہے… اور سب سے زیادہ متاثر وہی طبقات ہیں جو خود بہت کم اخراج کرتے ہیں۔
رپورٹ بین الاقوامی مالیاتی نظام کے ڈھانچے کو بھی عدم مساوات کے محرک کے طور پر پیش کرتی ہے۔ امیر ممالک اور مالیاتی مراکز ’’غیرمساوی فوائد‘‘ حاصل کرتے ہیں: وہ کم شرح سود پر قرض لیتے ہیں۔
زیادہ منافع بخش اثاثے خریدتے ہیں اور یوں ہر سال تقریباً عالمی جی ڈی پی کا 1 فیصد امیر ممالک کی طرف منتقل ہوتا ہے، جو ترقی پذیر ملکوں کے لیے تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کے بجائے بیرونی ادائیگیوں میں جاتا ہے۔
اشرافیہ کی گرفت میں جکڑے ملکوں کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ وہاں ایسے نان ایشوز پر صبح شام تلواریں نیام سے نکلی رہتی ہیں جن کا عوام کے روز وشب کے مسائل سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا۔
دور کیا جانا، ہمارے ہاں صبح شام میڈیا پر ہنگامہ خیز موضوعات کا جائزہ ہی کافی ہے۔ ایسے میں معاشی عدم مساوات جیسے بے سرے موضوع کو کون منہ لگاتا ہے۔ سو، جو چل رہا ہے، بقول فیض احمد فیض، ڈر یہ ہے کہ یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا!
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عدم مساوات دنیا میں
پڑھیں:
پاکستان معاشی طور پر بحران سے نکل چکا ہے: وزیراعظم شہباز شریف
—فائل فوٹووزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اطمینان ہے کہ پاکستان معاشی طور پر بحران سے نکل چکا ہے۔
نیشنل ریگولیٹری ریفارمز کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ اصلاحات کا مطالبہ عوام اور کاروباری طبقے کی گزشتہ کئی دہائیوں سے خواہش تھی۔ سرمایہ کار، صنعتکار، تاجر برادری پیچیدہ قوانین، غیر ضروری ضوابط اور طویل طریقہ کار سے پریشان تھے۔
انہوں نے کہا کہ جب حکومت سنبھالی تو پاکستان کی معیشت نازک صورتحال سے دوچار تھی، ملک عملی طور پر مالی دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا تھا، مہنگائی بےقابو تھی، پالیسی ریٹ معیشت کو مفلوج کر چکا تھا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حمایت سے غزہ امن منصوبہ منظور ہوا، جنگ بندی کے لیے تعاون پر قطر، ترکیہ، سعودی عرب، یو اے ای اور ایران کے مشکور ہیں
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ملک میں کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکار تھیں، ہماری حکومت نے اُمید کا دامن نہیں چھوڑا اور بہترین حکمت عملی کے ساتھ چیلنجز کا مقابلہ کیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 1.2 ارب ڈالر کی قسط کی منظوری دی ہے، معیشت کی پائیدار ترقی کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نوجوان ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں، ان کو فنی اور پیشہ وارانہ تربیت فراہم کر رہے ہیں۔