منشیات کا خاتمہ پولیس کرسکتی ہے!
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کسی بھی معاشرے میں پولیس کا کردار نہایت ہی اہم ہوتا ہے، معاشرے میں موجود افراد کی جان و مال، جرائم کی روک تھام، معاشرتی برائیوں کا خاتمہ، قانون کا نفاذ اور امن و امان قائم رکھنے کی اہم ذمہ داری ان کی ہوتی ہے۔ ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ پولیس کسی بھی معاشرے میں شہ رگ کی حثیت رکھتی ہے۔پولیس بڑے سے بڑے مجرم کو پکڑ کر سزا دلا سکتی ہے، دہشت گردی، قدرتی آفات، بچوں اور خواتین پر تشدد کی روک تھام اور معاشرے میں سرایت کرتی ہوئی منشیات کو جڑ سے ختم کر کے جنت کا نمونہ بنا سکتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں جو اس وقت سب سے بڑی برائی ہے وہ وطن عزیز میں منشیات کا استعمال ہے یہ پھیلاؤ روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے، لاکھوں گھرانے تباہ و برباد ہوگئے ہیں، نوجوان نشے کی لت میں سر عام زندہ درگور پڑے ہوئے ہیں، چرس، ہیروئن، نشہ آوار گولیاں، کرسٹل آیس، شراب اور الیکٹرانک سگریٹ بآسانی فروخت ہو رہی ہے، منشیات کے عادی نشہ کر کے صرف چوری چکاری نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ جان لینے سے بھی دریخ نہیں کرتے ہیں، گزشتہ سال ان نشی افراد نے کراچی میں اسٹریٹ جرائم مزاحمت پر 110، معصوم افراد کو قتل کر دیا، رواں سال اسٹریٹ جرائم کے 69، ہزار واقعات رپوٹ ہوئے، مزاحمت کرنے پر 83، افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 286، افراد زخمی ہوئے ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منشیات کی روک تھام میں ہمیں پولیس کا نمایاں کردار کیوں نظر نہیں آتا ہے؟
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پولیس میں کالی بھیڑیں موجود ہیں جو اسلامی تعلیمات اور حب الوطنی کے جذبے سے دور ہیں، یہ ہی وجہ کہ کراچی میں روز آنہ 42، ٹن چرس کا استعمال اور خرید وفروخت ہوتی ہے، بدقسمتی کراچی دنیا بھر میں چرس کے استعمال میں سہرفہرست ہے۔ ہماری اینٹی نارکوٹکس فورس( اے این ایف) کا کام سرحدی علاقوں سے منشیات کی روک تھام کا اہم کام ہے لیکن اس کے باوجود وہ شہری علاقوں سے بڑی مقدار میں منشیات پکڑتی ہے،اے این ایف کے مطابق تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال مسلسل بڑھ رہا ہے،اس فورس نے دو سالوں میں پاکستان کے تعلیمی اداروں سے 41، من منشیات پکڑی ہے، دیکھا جائے تو یہ کام ہماری پولیس کا تھا۔ ڈان نیوز کے مطابق ہمارے 60، فیصد تعلیمی ادارے منشیات کی زد میں ہیں، 50، فیصد طلباء ریگولر منشیات استعمال کر رہے ہیں۔
5،دسمبر 2025 کو کسٹم حکام نے 30 کروڑ مالیت کی نشہ کرنے والی ساڑھے نو ہزار گولیاں ضبط کرلی، ہمارے معاشرے میں ہر طرف سے منشیات کی آمد ہو رہی ہے لہذا اس طرح کے حالات میں پولیس کا کردار اور اہم ہو جاتا ہے،سن 2020 میں خیبر پختونخوا کے اس وقت کے آئ جی ثنا اللّہ عباسی نے منشیات فروشوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی بنائی جس سے نہ صرف پوست کی کاشت کا خاتمہ ہوا بلکہ منشیات فروشوں کا بھی خاتمہ ہوا۔محکمہ ایکسائز پولیس سندھ کا کام منشیات کی روک تھام ہیں لیکن بد قسمتی سے فروغ منشیات کا کام بھی کر رہا ہے یکم دسمبر 2025 کو ایکسائز آفیسر جاوید رشید کے گھر سے 508، کلو گرام منشیات برآمد کی گئی جس کی مالیت قریباً 28، کروڑ بنتی ہے۔کراچی میں 111، تھانے ہیں اگر یہ چاہیں تو مکمل طور پر شہر کو منشیات سے پاک کرسکتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس میں اوپر سے نیچے تک کڑا احتساب ہونا چاہیے، عوام الناس سے اپنا اعتماد کا رشتہ مضبوط کرنا چاہیے، سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر سچے، پکے مسلمان اور وطن سے محبت کرنے والے نوجوانوں کی بھرتی ہونی چاہیے، پولیس کے کام میں کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، پولیس غیر قانونی افغانیوں کو پکڑ کر نکالے تو منشیات کے پھیلاؤ میں حیرت انگیز کمی آے گی، پولیس اہلکاروں کے خون اور پیشاب کا ٹیسٹ کیا جائے، منشیات کے استعمال اور خرید وفروخت میں ملوث پولیس والوں کو گرفتار کر کے معطل اور سزا دی جائے، انسدادِ منشیات ٹاسک فورس کو فعال کیا جائے، منشیات کی روک تھام کرنے والے اہلکاروں کو ترقی اور انعامات سے نوازا جائے۔ ایکسائز پولیس کو اے این ایف کے حوالے کیا جائے۔ پولیس جو منشیات پکڑے اس سے عوام الناس کے سامنے جلایا جاے، پولیس کے اعلیٰ حکام تعلیمی اداروں کے سربراہان اور سماجی تنظیموں کی مدد سے طلبہ میں منشیات کے خلاف شعور و آگہی کی مہم شروع کرے۔محکمہ پولیس میں اب بھی بے شمار محب وطن اہلکار موجود ہیں جو پاکستان کو منشیات سے پاک چاہتے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: منشیات کی روک تھام میں منشیات منشیات کے منشیات کا پولیس کا
پڑھیں:
فتنہ الخوارج منشیات کی اسمگلنگ سے فنڈنگ حاصل کر رہے ہیں، عدم استحکام پھیلا رہے ہیں: آئی جی ایف سی
وادی تیراہ اس وقت سہولیات کی شدید کمی، سکیورٹی مسائل اور انتظامی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور (نارتھ خیبر پختونخوا) میجر جنرل راؤ عمران سرتاج نے کہا ہے کہ فتنہ الخوارج علاقے میں بدامنی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ منشیات کی اسمگلنگ سے مالی وسائل حاصل کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کی افغانستان کے ساتھ سرحد کی مجموعی لمبائی 1224 کلومیٹر ہے، جن میں سے تقریباً 717 کلومیٹر کی نگرانی فرنٹیئر کور کی ذمہ داری ہے۔ اس سرحدی پٹی میں برف پوش اور سنگلاخ پہاڑ شامل ہیں، جہاں نگرانی ایک بڑا چیلنج ہے۔ آئی جی ایف سی کے مطابق دراندازی روکنے کے لیے حساس مقامات پر جدید کیمرے نصب کیے جا چکے ہیں۔
میجر جنرل راؤ عمران سرتاج نے کہا کہ سرحد اسی وقت مکمل طور پر محفوظ ہو سکتی ہے جب دونوں اطراف سے اس کا احترام کیا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان پہلی مرتبہ باقاعدہ باڑ لگائی گئی ہے، جس کے بعد اب اسے ایک عملی طور پر بین الاقوامی سرحد کہا جا سکتا ہے۔
انہوں نے اس تشویشناک صورتحال کی طرف بھی توجہ دلائی کہ وادی تیراہ کی پوری آبادی کی نگرانی کے لیے اس وقت صرف تین پولیس اہلکار موجود ہیں، جو انتظامی مسائل کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔
اس موقع پر ونگ کمانڈر کرنل وقاص نے بتایا کہ وادی تیراہ میں 60 کلومیٹر کے دائرے میں ضلعی انتظامیہ، پولیس یا کوئی سرکاری اسپتال موجود نہیں۔ علاقے میں سرکاری اسکول اور اساتذہ کی بھی شدید کمی ہے۔ ان کے مطابق فرنٹیئر کور کے زیرِ انتظام 16 اسکول قائم کیے گئے ہیں، جہاں ایف سی نے اپنی مدد آپ کے تحت اساتذہ بھرتی کیے ہیں۔
کرنل وقاص نے مزید کہا کہ وادی تیراہ میں کوئی اسپتال نہ ہونے کے باعث معمولی طبی سہولت کے لیے بھی مقامی لوگ فرنٹیئر کور سے رجوع کرنے پر مجبور ہیں، حتیٰ کہ ایک انجکشن کے لیے بھی ایف سی کی مدد لی جاتی ہے۔