data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران میں خواتین کے لیے لباس کے سخت ضوابط رائج ہیں، مگر اب ڈیزائنر کچھ اس انداز کے ملبوسات متعارف کروا رہے ہیں کہ ایرانی اسلامی کوڈ کا خیال بھی رکھا جائے اور فیشن کا بھی۔اسلامی جمہوریہ ایران میں خواتین کے لیے لباس کے لیے سخت ضوابط موجود ہیں۔ عمومی طور پر سیاہ یا گہرے رنگوں کے لباس پہن کر ان ضوابط پر عمل کیا جاتا ہے، مگر اب فیشن ڈیزائنرز ہلکے رنگوں کے ملبوسات بھی تیار کر رہے ہیں۔ایران میں سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد خواتین کے لیے لباس کا سخت کوڈ متعارف کروایا گیا تھا، جس میں خواتین کو سر اور گردن فےکو ڈھانپنا لازمی ہوتا ہے جب کہ لباس ڈھیلا پہنا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں گھر سے باہر نکلتے ہوئے خواتین عموماً سیاہ رنگ کی بڑی سی چادر اوڑھ لیا کرتی تھیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں خواتین خاصے ہلکے رنگ کے لباس بھی زیب تن کیے دکھائی دیتی ہیں۔تہران میں مبلوسات کی اس نمائش میں رکھے گئے پچاس نئے ڈیزائنز میں سیاہ چادر سے بنےبرقعہ نما لباس سے لے کر مختلف رنگوں والے ملبوسات بھی شامل تھے، جب کہ کمر سے کسے ہوئے کوٹ بھی۔ مقامی ڈیزائنر کہتی ہیں کہ ڈیزائن بناتے ہوئے معاشرتی اقدار اور ضوابط کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نوجوان ایرانی خواتین میں رنگین لباس پہننے کا رجحان بڑھ رہا ہےڈیزائنرز کا تاہم یہ بھی کہنا ہے کہ گہرے رنگوں سے ہلکے رنگوں کی طرف منتقلی آسان نہیں کیوں کہ بہت سی خواتین اب بھی سیاہ یا گہرے رنگ کے لباس ہی پہننا چاہتی ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میں خواتین کے لیے
پڑھیں:
عسکری اداروںنے جنرل فیض کو سزا سنا کر نئی روایت قائم کردی، تنظیم اسلامی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251213-08-7
حیدرآباد (نمائندہ جسارت) جنرل فیض حمید کو کورٹ مارشل کے نتیجے میں 14 سال قید با مشقت کی سزا سنانے سے عسکری اداروں میں خود احتسابی کی ایک اچھی روایت قائم کی گئی ہے۔مجرم کے دیگر عسکری ساتھیوں بشمول سابق اور حاضر سروس اعلیٰ عہدے داروں کو بھی احتساب کے دائرہ میں لایا جائے۔ ان خیالات کا اظہار تنظیم اسلامی کے امیر شجاع الدین شیخ نے ایک بیان میں کیا۔انہوں نے کہا کہ اسلام ہمیں واضح حکم دیتا ہے کہ کوئی شخص چاہے کتنے ہی بڑے عہدے پر فائزکیوں نہ ہو،احتساب سے مبرا نہیں۔ نبی ا کرمؐاور ان کے وصال کے بعد خلفائے راشدین نے اس دینی اصول کی عملی مثالیں قائم کر کے دکھائیں، جو آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ مشہور واقعہ ہے کہ بنی مخزوم قبیلے کے ایک بڑے خاندان کی عورت پر جب چوری کا جرم ثابت ہوا اور آپؐنے اس پر حد نافذ کی تو کچھ لوگوں نے اس کے حسب و نسب کی بنیاد پر اسے معاف کرنے کی سفارش کی جس پر نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ اے لوگو!تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ جب اُن میں کوئی معزز شخص جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور اگر کوئی عام آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دیتے تھے۔ خلفائے راشدین کے دور میں بھی بلا تفریق احتساب کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ امیر تنظیم نے کہا کہ ایک سابق جرنیل کو اس کے جرائم ثابت ہونے پر سزا دینے سے ایک اچھی روایت کا آغاز کیا گیا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ سیاسی اور عسکری و عدالتی بیوروکریسی کے دیگر اہم عہدوں پر فائض ماضی اور حال کے تمام مجرموں، بالخصوص جنہوں نے کرپشن کر کے قومی خزانہ کو لُوٹا ہے، کو قانون اپنی گرفت میں لے اور نہ صرف انہیں قرار واقعی سزا دی جائے بلکہ اُن سے لُوٹا ہوا پیسہ بھی برآمد کر کے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔