Al Qamar Online:
2025-11-05@20:20:40 GMT

راہل گاندھی نے مودی حکومت کی ووٹ چوری پھر پکڑ لی

اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT

راہل گاندھی نے مودی حکومت کی ووٹ چوری پھر پکڑ لی

نئی دہلی: بھارت کے اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے مودی حکومت کی ووٹ چوری پھر پکڑ لی ۔کانگریس لیڈرراہل گاندھی نے ووٹ چوری کا الزام لگاتے ہوئے ایک اورپریس کانفرنس کی ہے۔

 انہوں نے کہا ہے کہ ہریانہ میں ووٹ چوری کرکے بی جے پی کی حکومت بنوائی گئی۔ ہریانہ میں ووٹ چوری پکڑی گئی ہے۔ ہریانہ میں ہم نے کافی جانچ کی۔ مہاراشٹر، کرناٹک، مدھیہ پردیش اورہریانہ میں ووٹ چوری ہوئی ہے۔

 راہل گاندھی نے اس دوران ایک لڑکی کی تصویربھی دکھائی، اسے لے کرانہوں نے دعویٰ کیا کہ اس نے الگ الگ نام سے 22 جگہ ووٹ دیے۔

 اس لڑکی کے نام سے 22 ووٹرآئی ڈی کارڈ ملے۔ اس کا نام کہیں سیما توکہیں سویٹی ہے۔ یہ برازیل کی ماڈل ہے۔

 ہریانہ میں 25 لاکھ ووٹوں کی چوری ہوئی۔ 5 الگ الگ کٹیگری میں ووٹ چوری ہوئی۔ماڈل کی تصویر دکھاتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ اس نے 10 بوتھون پر 22 بار ووٹ کیا۔ ہربار نام الگ الگ تھے۔ ہریانہ میں جو 25 لاکھ ووٹ چوری ہوئے ہیں، یہ ان میں سے ایک ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ووٹ چوری 5 کٹیگری میں ہوئی۔ 5,21,619 ڈپلیکیٹ ووٹرس ہیں۔ 93,174 انویلیڈ پتے ہیں۔ 19,26,351 بلک ووٹرز ہیں۔ فارم 6 اور فارم 7 کا غلط استعمال ہوا ہے۔ یہ ایک سینٹرلائیزڈ آپریشن ہے۔

راہل گاندھی نے کہا کہ ہمارے پاس ’ایچ‘ فائلس ہیں اوریہ اس بارے میں ہے کہ کیسے ایک پوری ریاست کوچرا لیا گیا ہے۔ ہمیں شبہ تھا کہ یہ انفرادی حلقوں میں نہیں، بلکہ ریاستی اورقومی سطح پرہورہا ہے۔ ہمیں ہریانہ میں ہمارے امیدواروں کی طرف سے متعدد شکایات موصول ہوئی ہیں کہ کچھ غلط ہے اورکام نہیں کررہا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ ان کی ساری پیشین گوئیاں الٹی ہوگئیں۔ ہم نے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، مہاراشٹرمیں اس کا تجربہ کیا تھا، لیکن ہم نے ہریانہ پرتوجہ مرکوز کرنے اوروہاں جوکچھ ہوا تھا، اس کے بارے میں تفصیل سے جاننے کا فیصلہ کیا۔ر

اہل گاندھی نے کہا کہ سبھی (ایگزٹ) پول نے کانگریس کی جیت (ہریانہ میں) کی طرف اشارہ کیا تھا۔ دوسری بات جو ہمارے لیےحیران کن تھی، وہ یہ تھی کہ ہریانہ کے انتخابی تاریخ میں پہلی بار ڈاک سے ووٹ حقیقی ووٹنگ سے الگ تھے۔ ہریانہ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اسلیے ہم نے سوچا کہ آئیے تفصیل سے جانیں۔

جب میں نے پہلی بار یہ جانکاری دیکھی، جو آپ دیکھنے جا رہے ہیں، تو مجھے اس پر یقین کرنے میں مشکل ہوئی۔ میں صدمے میں تھا… میں نے ٹیم کو کئی بار کراس چیک کرنے کے لیے کہا۔راہل گاندھی نے اس دوران وزیراعلیٰ نائب سنگھ سینی کا ایک بیان بھی چلایا، جو نتیجے سے پہلے کا تھا۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ بی جے پی حکومت بنا رہی ہے، ہمارے پاس سسٹم ہے۔ فکرمت کیجئے۔ ہریانہ کی ووٹرلسٹ میں 8 میں سے ایک ووٹرفرضی ہے۔

 راہل گاندھی نے دعویٰ کیا کہ ہریانہ میں ایک ہی تصویروالے دوبوتھوں پرایک ہی شخص کو223 ووٹ ملے، اس لیے الیکشن کمیشن نے سی سی ٹی وی فوٹیج برباد کردیئے۔ ہریانہ کی ووٹرلسٹ میں 1.

24 لاکھ رائے دہندگان کے نام فرضی ہیں۔

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل راہل گاندھی نے میں ووٹ چوری ہریانہ میں نے کہا کہ کی ووٹ

پڑھیں:

مودی کی ناکام زرعی پالیسیاں

ریاض احمدچودھری

بھارت میں کسانوں کی خودکشیوں سے متعلق نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی تازہ رپورٹ نے مودی حکومت کی ناکام زرعی پالیسیوں کا پردہ چاک کر دیا۔اعداد و شمار کے مطابق 2014 سے 2023 کے درمیان بھارت میں ایک لاکھ گیارہ ہزار سے زائد کسان خودکشی کر چکے ہیں۔ صرف سال 2023 میں ریاست مہاراشٹرا میں سب سے زیادہ اموات ریکارڈ ہوئیں، جہاں 10 ہزار سے زائد کسانوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔بین الاقوامی تحقیقاتی جریدے انٹرنیشنل جرنل آف ٹرینڈ ان سائنٹیفک ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے مطابق بھارتی کسانوں کی خودکشیوں کی بنیادی وجوہات میں 38.7 فیصد قرض اور 19.5 فیصد زرعی مسائل شامل ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی کے نام نہاد ‘شائننگ انڈیا’ کے پیچھے دیہی علاقوں میں بڑھتی مایوسی، غربت اور ناانصافی نے کسانوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ زرعی بحران پر حکومت کی خاموشی اور ناکام پالیسیوں نے مودی کابینہ کو شدید تنقید کی زد میں لا دیا ہے۔
مودی حکومت کی ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں روزانہ تقریباً 31 بھارتی کسان خودکشی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کسانوں کو دگنی آمدنی کا وعدہ اور فصل بیمہ اسکیموں کی ناکامی نے لاکھوں کسانوں کو قرض کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔بھارت کے مختلف علاقوں میں زرعی بحران کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس بحران کا مرکزہ اجناس کی مسلسل گرتی ہوئی قیمتیں اور پھر بدحالی سے دل برداشتہ ہو کر خودکشی کرنے والے ہزارہا کسان بتائے جاتے ہیں۔بھارت کے زرعی بحران کے تناظر میں ایک بڑی پیش رفت مختلف علاقوں کے کسانوں کا ملکی دارالحکومت نئی دہلی کی جانب نومبر 2018 کے آخری ایام میں احتجاجی مارچ بھی تھا۔ اس احتجاج کے دوران ملک کے مختلف حصوں سے ایک لاکھ سے زائد غریب کسان نئی دہلی پہنچے اور حکومتی ایوانوں تک اپنی صدائے احتجاج پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔ مظاہرین وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت سے اپنی مشکلات کے ازالے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
وجیشری بھگت انتیس برس کی ایک خاتون کسان ہے اور اْس کا تعلق مغربی بھارتی ریاست مہاراشٹر سے ہے۔ وہ ایک بیوہ ہے کیونکہ اْس کے شوہر پرشانت نے بھی زرعی مفلوک الحالی کی وجہ سے خودکشی کر لی تھی۔ اس ریاست کے کسانوں کو بھی اپنی زیر کاشت زمین سے کافی فصل نصیب نہیں ہو رہی اور ان پر بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضوں کا حجم مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ غربت کے بوجھ تلے انہیں مرنا آسان اور جینا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ مجموعی طور پر اس علاقے کے کسانوں کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے اور اسی باعث ان کے لیے زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ایسے حالات کا سامنا صرف وجے شری کو ہی نہیں، بلکہ خودکشی کرنے والے کسانوں کی لاکھوں بیواؤں کو بھی کم و بیش انہی حالات کا سامنا ہے۔ دو ماہ قبل اْس نے 80 دیگر بیواؤں کو لے کر مہاراشٹر کے ریاستی دارالحکومت ممبئی میں اختجاج بھی کیا تھا۔ وہ مثبت سماجی سکیورٹی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ اْن کے اس مظاہرے کو ایک سرگرم تنظیم مہیلا کسان ادھیکار منچ (MAKAAM) یا ‘مکام’ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس تنظیم کے مطابق یہ مظاہرہ حقیقت میں اْن کی ذات کی سلامتی کے حق میں بھی ہے۔ سرگرم کارکنوں کے مطابق ایسے مظاہروں سے یقینی طور پر حالات میں تبدیلی پیدا ہو گی۔
وجے شری بھگت جیسی کئی خواتین ہیں، جن کے شوہر خودکشیاں کر چکے ہیں اور اب انہیں شدید معاشی مشکلات اور معاشرتی بدحالی کا سامنا ہے۔ زرعی بحران کے حوالے سے آواز اٹھانے والے سرگرم کارکنوں کی ایک تنظیم سے تعلق رکھنے والی سوراجیہ مترا کا کہنا ہے کہ کھیتوں میں اسّی فیصد کام خواتین کرتی ہیں اور اس کے باوجود ریاست اْن کی مشقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ ان بیوہ خواتین کی حالت زار کا صحیح اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے۔ یہ تنظیم مہاراشٹر کے علاقے امراوتی میں فعال ہے اور اسی علاقے میں کسان سب سے زیادہ خودکشیاں کرتے ہیں۔
ڈھائی سال قبل بھی کسانوں کے احتجاج کے باعث دہلی میں خاصی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کا ایک بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ مختلف اہم فصلوں کی امدادی قیمتِ خرید بڑھائی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ فصلوں کی بیمہ کاری کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ موسم کے ہاتھوں فصلیں تلف ہونے پر کسان کسی نہ کسی طور کام جاری رکھ سکیں۔مذاکرات کے دوران مودی حکومت نے کسانوں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ حکومت 5 سالہ معاہدے کے تحت کسانوں سے اناج خریدے گی تاہم احتجاجی کسانوں کی طرف سے کہا گیا کہ حکومتی پیشکش ‘ہمارے مفاد میں نہیں۔’کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات پر اب بھی قائم ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت انھیں تمام 23 اناج ‘منیمم سپورٹ پروگرام’ کے تحت خریدنے کی ‘قانونی گارنٹی’ دے۔بھارتی کاشت کاروں نے 2021 میں بھی ایسا ہی احتجاج کیا تھا، کاشت کار یوم جمہوریہ کے موقعے پر رکاوٹیں توڑتے ہوئے شہر میں داخل ہو گئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں برازیلی ماڈل 22 مختلف ناموں کیساتھ ووٹر لسٹ میں شامل
  • جعلی ڈگری ہولڈر وزیراعظم مودی کو شعبہ تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں ، راہل گاندھی
  • بدعنوانی اور ووٹ چوری نے جمہوریت کو کمزور کیا ہے، پرینکا گاندھی
  • ریاست ہریانہ میں پچیس لاکھ فرضی ووٹ پڑے ہیں، راہل گاندھی
  • ہریانہ انتخابات: برازیلی ماڈل کے متعدد ووٹس، راہول گاندھی نے مودی حکومت کی دھاندلی کا پردہ فاش کردیا
  • بھارت: برازیلی خاتون کا سیما، سویٹی، سرسوتی، رشمی اور ولما کے نام سے 22 مرتبہ ووٹ ڈالنے کا انکشاف
  • نریندر مودی نے ووٹ چوری کرکے جنگل راج نافذ کردیا ہے، راہل گاندھی
  • مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کے خلاف مودی حکومت کی کارروائیوں سے نوجوان صحافیوں کا مستقبل دائو پر لگ گیا
  • مودی کی ناکام زرعی پالیسیاں