Jasarat News:
2025-11-06@00:34:10 GMT

ترکیہ : فوجی اسکولوں میں شامی طلبہ کی شمولیت پر تنازع

اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

انقرہ (انٹرنیشنل ڈیسک) ترکیہ میں فوجی اداروں کے ایک فیصلے نے ملک بھر میں نئی بحث چھیڑ دی ہے، خاص طور پر سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا پر گرم گرم بحث جاری ہے۔ یہ بحث ترکیہ میں موجود شامی طلبہ کو فوجی اسکولوں میں شامل کرنے کے فیصلے پر جاری ہے۔ یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب حکام نے اعلان کیا کہ ترکیہ کے بری اور بحری فوجی سکولوں میں 49 شامی طلبہ کو داخلہ دیا گیا ہے۔ ناقدین نے غیر ملکیوں کی ایسی تربیت میں شمولیت پر شدید اعتراض کیا۔ ترکیہ کی وزارت دفاع کے ترجمان زکی اکتورک نے 30 اکتوبر کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ مختلف فوجی تربیتی پروگراموں میں شامیوں کو شامل کیا گیا ہے۔اکتورک کے مطابق شامی فوجی اہلکاروں کو ترک مسلح افواج کی بیرکوں اور تربیتی مراکز میں تربیت دی جائے گی۔یہ اقدام 13 اگست کو ترکیہ اور شامی حکومت کے درمیان دستخط شدہ مشترکہ مشاورت اور تربیت کے معاہدے کے تحت کیا گیا ۔ اس اعلان کے بعد ترکیہ میں شدید عوامی ردعمل دیکھنے میں آیا، کیونکہ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب 5ترک فوجی افسران کو گریجویشن تقریب کے دوران ہم مصطفی کمال اتاترک کے سپاہی ہیں کا نعرہ لگانے پر فوج سے برخاست کر دیا گیا تھا۔ان افسران کے برخاست کیے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ جب ترک افسران کو قوم پرستی پر سزا دی جا رہی ہے تو غیر ملکی طلبہ کو فوجی تربیت کیوں دی جا رہی ہے۔ ترکیہ کی قوم پرست پارٹی حزب النصر کے نائب سربراہ علی شہرلی اولو نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا ان شامی طلبہ کے بارے میں تفصیلی سکیورٹی جانچ کیوں نہیں کی گئی۔ کچھ حلقے شامی فوجیوں کے انتخاب کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ بعض اسے دفاعی اور سفارتی نقطہ نظر سے ترکیہ کے مفاد میں قرار دے رہے ہیں۔

انٹرنیشنل ڈیسک گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

 شامی جنگ میں لاپتہ ہونے والے بعض افراد زندہ ہیں، اقوام متحدہ کا انکشاف

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

استنبول: اقوام متحدہ کی ایک سینئر عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ شام کی جنگ کے دوران لاپتہ ہونے والے متعدد افراد کے زندہ ہونے کے قابلِ تصدیق شواہد موجود ہیں،سیکڑوں ہزاروں لاپتہ شامی شہریوں کی تلاش کے لیے کوششوں میں تیزی لائی جا رہی ہے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اقوام متحدہ کے قائم کردہ ادارے  انڈیپنڈنٹ انسٹی ٹیوشن فار مسنگ پرسنز اِن سیریا کی چیئرپرسن کارلا کوئنٹانا نے استنبول میں ہونے والے TRT ورلڈ فورم 2025 کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ لاپتہ افراد جنسی غلامی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ادارہ مختلف زاویوں سے تحقیقات کر رہا ہے جن میں شامی حکومت کی تحویل میں لاپتہ افراد، داعش کے ہاتھوں اغوا ہونے والے شہری، لاپتہ بچے اور ہجرت کے دوران گمشدہ مہاجرین شامل ہیں،دس ماہ قبل تک ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ شام میں جا کر لاپتہ افراد کی تلاش ممکن ہوگی مگر اب ہمیں ملک کے اندر کام کرنے کی اجازت مل چکی ہے، ہم اس وقت سینکڑوں ہزاروں لاپتہ شامی شہریوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ عمل شام کے اندر رہ کر مقامی سطح پر شروع کیا جانا چاہیے، تاہم بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے، ادارہ اس وقت شام کی حکومت کے ماتحت قائم  نیشنل کمیشن فار دی سرچ آف دی مسنگ  کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، جس کی سربراہی ریٹا یالی کر رہی ہیں۔

کوئنٹانا نے کہا کہ  یہ دنیا کی پہلی مثال ہے کہ ایک ہی وقت میں بین الاقوامی اور قومی سطح پر دو ادارے لاپتہ افراد کی تلاش کر رہے ہیں، اس وقت ادارے کے پاس تقریباً 40 ملازمین ہیں، لیکن بحران کی شدت کو دیکھتے ہوئے عالمی سطح پر مزید تعاون ضروری ہے،کوئی ادارہ اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا،  ہمیں اقوام متحدہ کے دیگر اداروں، رکن ممالک، شامی سول سوسائٹی اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔

کارلا کوئنٹانا  کاکہناتھا کہ فارنزک سائنس اور جدید ٹیکنالوجی لاپتہ افراد کی شناخت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں،جب ہم فارنزک سائنس کی بات کرتے ہیں تو یہ صرف مردہ افراد کے لیے نہیں، بلکہ زندہ افراد کی شناخت میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تمام فریقین کے درمیان اعتماد سازی سب سے اہم مرحلہ ہے،  اگر خاندان، حکومت اور عالمی ادارے ایک دوسرے پر اعتماد نہ کریں تو لاپتہ افراد کا سراغ لگانا ناممکن ہو جائے گا،ہم پہلے ہی بہت تاخیر کر چکے ہیں،  مزید تاخیر کی صورت میں ہزاروں خاندان اپنے پیاروں کے بارے میں جاننے کا حق ہمیشہ کے لیے کھو سکتے ہیں، ہم شام ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں لاپتہ افراد کی تلاش میں پہلے ہی تاخیر کر چکے ہیں۔ خاندانوں کو سچ جاننے کا حق فوری طور پر حاصل ہے، مگر یہ ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • شامی صدر احمد الشرعہ کا برازیل میں ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت کا اعلان
  • بھارتی افواج میں خواتین افسران کیساتھ منظم جنسی ہراسانی کا انکشاف
  •  شامی جنگ میں لاپتہ ہونے والے بعض افراد زندہ ہیں، اقوام متحدہ کا انکشاف
  • تعلیم ریاست کی ذمے داری
  • جرمنی کا شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے اقدامات تیز کرنے کا اعلان
  • پی ٹی آئی  اہم رہنماؤں نے استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی 
  • دو سالہ جنگ کے بعد غزہ کے بچے ایک بار پھر تباہ شدہ اسکولوں کا رخ کرنے لگے
  • فلسطینی قیدی پر اسرائیلی تشدد؛  ویڈیو لیک کرنے پر 2 اعلیٰ افسران گرفتار
  • اسرائیلی فوج کی فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک کرنے پر 2 اعلیٰ افسران گرفتار