جرمنی میں اجرت میں اضافے کی منظوری
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برلن :جرمنی کی حکومت نے ملک میں کارکنوں کی اجرت میں ریکارڈ حد تک اضافے کی منظوری دے دی ہے۔
عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ملک کی مرکزی حکومت نے کارکنوں کی کم از کم فی گھنٹہ اجرت میں بڑی حد تک اضافے کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں پہلی بار اجرت 14.
اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت جرمنی میں جز وقتی ملازمتیں کرنے والے کارکنوں کے لیے کم از کم فی گھنٹہ اجرت 12.82 یورو (14.90 ڈالر کے برابر) بنتی ہے۔ اضافے کے پہلے مرحلے میں فی گھنٹہ اجرت کی یہ رقم یکم جنوری 2026ءسے بڑھا کر 14.60 یورو کی جائے گی۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
27 ویں ترمیم کا سیاسی کھیل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251106-03-2
26 ویں ترمیم کے سیاسی کھیل سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ سیاسی غلبہ کے کھیل میں جو کمی رہ گئی تھی اسے اب 27 ویں ترمیم کی مدد اور منظوری کی بنیاد پر مکمل کیا جائے۔ کافی عرصے سے حکومت اور وفاقی وزرا 27 ویں ترمیم لانے کی تردید کررہے تھے اور ان کے بقول یہ سیاسی پھلجھڑی ہے اور حکومت کے سامنے ایسی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ لیکن اب بلاول زرداری کی ٹویٹ اور حکومت سمیت وزیر اعظم کا پیپلز پارٹی سے 27 ویں ترمیم پر حمایت کی مدد سے بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ حکومت کے بقول اس ترمیم کی منظوری سے قبل تمام سیاسی اور اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ اگرچہ یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت 27 ویں ترمیم کی منظوری سے پارلیمنٹ کی بالادستی سمیت وفاق اور صوبوں کے درمیان بہتر تعلقات اور عدلیہ کی مضبوطی کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔ لیکن یہ بات سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ 26 ویں ترمیم کی طرح 27 ویں ترمیم پر بھی حکومت کا ایجنڈا آئینی اور قانونی نکات سے زیادہ سیاسی نوعیت کا ہے۔ اسی طرح 27 ترمیم کے پیچھے اصل کہانی سیاسی اور جمہوری نظام کی مضبوطی یا آئینی اور قانونی نکات سے زیادہ شخصی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے افراد کو اہمیت دی جا رہی ہے اور انہیں ایک بڑی سیاسی طاقت کے طور پر سامنے لانے کی کوشش بھی اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ یہ بات سب کو یاد ہے کہ جب 26 ویں ترمیم لائی جا رہی تھی تو حکومت سمیت وزیراعظم اور وزیر قانون تک بہت سے معاملات سے لاعلم تھے اور ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ 26 ویں ترمیم کا ایجنڈا کیا ہے۔ 26 ویں ترمیم کا ایجنڈا حکومت کو سیاسی ڈکٹیشن کے طور پر دیا گیا تھا اور ان کو بتا دیا گیا تھا کہ اس ترمیم کو ہر صورت میں پارلیمنٹ سے منظور کروانا ہے۔ 26 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی شکل بگاڑ دی گئی یا عدلیہ کو آئینی اور قانونی بنیادوں پر مفلوج کر دیا گیا تھا۔ ملک کے جید قانونی ماہرین کے بقول یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا تھا تاکہ طاقتور طبقہ عدلیہ کو پس پشت ڈال کر اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل یقینی بنا سکے۔ اب یہی کھیل 27 ویں ترمیم کی منظوری کی صورت میں کھیلا جا رہا ہے۔ اس ترمیم کے تحت جو کچھ تھوڑی بہت آزادی عدلیہ کے پاس تھی یا جج آزادانہ بنیادوں پر اپنے فیصلے کر سکتے تھے ان پر بھی ضرب لگائی گئی ہے۔ صوبائی سطح پر آئینی عدالتوں کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی نظر آتا ہے جہاں حکومت اپنی مرضی کے ججوں پر مشتمل بینچ بنا کر اپنی مرضی کے فیصلے چاہتی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس ترمیم میں جہاں حکومت کے سیاسی مفادات وابستہ ہیں وہیں غیر سیاسی قوتیں بھی اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے کوشش کررہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کو بالخصوص اٹھارویں ترمیم کے تناظر میں ہونے والی تبدیلیوں پر تحفظات ہیں اور وہ سمجھتی ہے کہ اس طرز کی ترامیم سے اس کا صوبائی حکومت میں کنٹرول کمزور ہوگا۔ اسی لیے پیپلز پارٹی اٹھارویں ترمیم کے تناظر میں ہونے والی تبدیلیوں پر اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کو حمایت کے بدلے میں آزاد کشمیر کی حکومت دی جا سکتی ہے۔ اسی لیے اب تک آزاد کشمیر میں نئی حکومت کے تشکیل کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 27 ویں آئینی ترمیم کے لیے حکمران اتحاد کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے اور یہ ترمیم آسانی سے منظور بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن جس طریقے سے اس ترمیم کی منظوری کے لیے پورے سیاسی نظام کو بلڈوز کیا جا رہا ہے اور جن لوگوں کے تحفظات ہیں ان کو کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طاقت کے اس کھیل میں صرف طاقت کی حکمرانی ہے اور جمہوریت محض ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ اس ترمیم کی منظوری میں مولانا فضل الرحمن کی حمایت بھی حاصل کی جائے لیکن اگر مولانا فضل الرحمن رکاوٹ بنتے ہیں تو یہ ترمیم ان کی حمایت کے بغیر بھی منظور کی جا سکتی ہے۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی سے پہلے ان ترامیم کو سینیٹ میں لائیں اور سب جماعتوں کا اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اگرچہ اپوزیشن اتحاد جس میں پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں انہوں نے 27 ویں ترمیم کی منظوری کو سیاسی اور آئین کے خلاف ایک بڑی سازش قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ترمیم کسی بھی صورت میں منظور نہیں ہونے دی جائے گی۔ لیکن کیونکہ حکومت کو اپوزیشن کے مقابے میں عددی برتری حاصل ہے اس لیے اسے یہ ترامیم منظور کرانے میں کسی بڑی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ حکومت نے اپوزیشن کے اس الزام کو بھی سختی سے مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ 26 ویں ترمیم کی طرح 27 ویں ترمیم بھی پیرا شوٹ کے ذریعے لائی جا رہی ہے اور اس کا مقصد سیاسی نظام پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی جو 18 ویں ترمیم کی سب سے بڑی چمپئن ہے اس کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہو گئی ہے کہ اگر وہ 18ویں ترمیم میں ہونے والی تبدیلیوں پر سمجھوتے کی سیاست کا شکار ہوتی ہے تو اسے سندھ کی سیاست میں اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔ اس لیے پیپلز پارٹی چاہے گی کہ اوّل 27 ویں ترمیم منظور نہ ہو سکے یا دوسرا راستہ یہ ہے کہ ترامیم اس انداز میں کی جائے جس سے پیپلز پارٹی کو کم سے کم نقصان اٹھانا پڑے۔ اپوزیشن یہ الزام بھی لگایا ہے کہ اگرچہ پیپلز پارٹی بظاہر 27 ترمیم پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے لیکن اندرون خانہ آصف علی زرداری اور بلاول زرداری نے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس کھیل میں جس حد تک ممکن ہو سکا سہولت کاری میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ پیپلز پارٹی نے اب تک سیاسی بارگیننگ کے کھیل میں دیگر جماعتوں کے مقابلے میں شاندار کارکردگی دکھائی ہے اور اب بھی وہ اپنے سیاسی کارڈ کھیلنے کی کوشش کرے گی۔ ابھی تک ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن نے 27 ویں ترمیم کے تناظر میں اپنا نقطہ ٔ نظر پیش نہیں کیا لیکن یہ دونوں جماعتیں بھی بارگیننگ کی سیاست میں اپنی شہرت رکھتی ہیں۔ وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی ہماری اتحادی ہے اور اس ترمیم کے تناظر میں پیپلز پارٹی ہمارا ساتھ دے گی اور ہم سب کچھ مل کر طے کریں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ترمیم کا فریم ورک تیار کرنے کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے تاکہ اس امر کو ممکن بنایا جا سکے کہ سب کچھ مشاورت کے تحت ہو رہا ہے۔ اپوزیشن نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ 27 ترمیم کی منظوری کے تحت کمانڈر ان چیف کا عہدہ بھی بن رہا ہے اور اس کا مقصد وزیراعظم کے مقابلے میں کسی اور کو طاقتور بنانا ہے۔ ابھی تک 27 ویں ترمیم کا حتمی مسودہ تو سامنے نہیں آیا اور جب یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا تو پھر اس پر ایک نئی بحث کا آغاز ہوگا کہ اس کے کون سے نکات آئینی ہیں اور کون سے نکات اپنے اندر ایک سیاسی ایجنڈا رکھتے ہیں۔ حکومت لاکھ کہے کہ وہ مشاورت کی بنیاد پر آگے بڑھے گی مگر 26 ترمیم کی منظوری پر دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح سے ارکان کو یہ اعمال بنا کر اور پارلیمانی کمیٹی سمیت پارلیمنٹ کو اور وزرا کو بھی اعتماد میں لینا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ بلکہ 26 ویں ترمیم کی منظوری سے پہلے مختلف قسم کے مسودہ زیر بحث تھے اور کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اصل مسودہ کون سا ہے۔ اس لیے اس بات کا امکان موجود ہے کہ جو کھیل 26 ویں ترمیم کی منظوری کے وقت کھیلا گیا اسی طرح کا اسٹیج 27 ویں ترمیم کی منظوری پر بھی سجایا جائے گا۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اس وقت ملک میں سیاست اور جمہوریت کا کھیل بہت پیچھے چلا گیا ہے اور جو اصل طاقتیں ہیں وہی نظام کو چلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔