کراچی: ڈمپر مافیا اور ریاستی غفلت کا شکار شہر
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251109-03-5
میر بابر مشتاق
کراچی… پاکستان کا معاشی دل، لاکھوں خوابوں اور امیدوں کا مرکز، مگر آج یہ شہر ڈمپر مافیا اور ریاستی غفلت کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ کبھی یہ ملک کی معیشت کا انجن تھا، مگر اب اس کی سڑکیں موت کے سوداگر ڈمپروں، ٹریلرز، ٹرکوں اور پانی کے ٹینکروں کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔ یہاں زندگی کا پہیہ چلنے کے بجائے کچلا جا رہا ہے، اور خون بہنا معمول بن گیا ہے۔ شہر کی سڑکوں پر بے قابو ڈمپر اس طرح دوڑتے ہیں جیسے ان پر کوئی قانون لاگو ہی نہیں ہوتا۔ تیز رفتاری، بے ہنگم ڈرائیونگ، اور بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کے سڑکوں پر موجودگی، ہر شہری کو موت کے منہ میں دھکیل رہی ہے۔ اکثر یہ گاڑیاں کم عمر یا نشے میں دھت ڈرائیور چلاتے ہیں، جن کے پاس نہ تربیت ہوتی ہے، نہ احساسِ ذمے داری۔ جب کوئی حادثہ ہوتا ہے، ڈرائیور فرار، مالک بااثر، اور پولیس خاموش۔
2025 کے پہلے سات مہینوں میں کراچی میں ٹریفک حادثات میں کم از کم 538 شہری جاں بحق ہوئے۔ ان میں سے 222 ہلاکتیں بھاری گاڑیوں سے وابستہ ہیں، اور 274 اموات موٹر سائیکل سواروں کی ہیں۔ یعنی نصف سے زیادہ قتل کی ذمے دار یہی مشینی جن ہیں۔ راشد منہاس روڈ پر ہونے والا ایک واقعہ اس سانحے کی علامت ہے۔ ایک تیز رفتار ڈمپر نے 22 سالہ مہ نور اور 14 سالہ علی رضا کو کچل ڈالا۔ یہ صرف ایک حادثہ نہیں بلکہ شہر کے اجتماعی زخم پر رکھا گیا نمک ہے۔ یہ دکھ اتنا گہرا ہے کہ جب عوام ایسے ڈمپر جلا دیتے ہیں تو یہ جرم نہیں، بلکہ ایک ٹوٹے ہوئے دل کی چیخ ہوتی ہے۔ شہر میں ہر ہفتے اوسطاً دو درجن حادثات بھاری گاڑیوں کے باعث ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر واقعات رات اور صبح کے وقت پیش آتے ہیں، جب شہر میں پولیس کی نگرانی کمزور اور روشنی ناکافی ہوتی ہے۔ کراچی کی ٹریفک پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس جرم کے سب سے بڑے شریک ہیں۔ رشوت کے بدلے بھاری گاڑیوں کو شہر میں داخلے کی کھلی اجازت دی جاتی ہے۔ لائسنس، فٹنس سرٹیفکیٹ اور روٹ پرمٹ کے بغیر گاڑیاں چلتی ہیں۔ حادثے کے بعد، ملوث افراد باعزت بری ہو جاتے ہیں، جیسا کہ ایک اور واقعے میں ہوا۔ ریاست جس کا کام شہریوں کو تحفظ دینا ہے، یہاں قاتل گاڑیوں کی سرپرست بن بیٹھی ہے۔ سیف سٹی منصوبہ، جو 2016 میں کراچی کے لیے منظور ہوا تھا، آج تک مکمل نہیں ہو سکا۔ لاہور اور اسلام آباد میں کیمروں، نگرانی اور فوری ردعمل کے نظام سے جرائم میں واضح کمی آئی، مگر کراچی جو ملک کا سب سے بڑا شہر اور معاشی مرکز ہے۔ آج بھی اندھیرے میں ہے۔ اگر سڑکوں پر ہائی ڈیفینیشن کیمرے، کنٹرول رومز اور خودکار ٹریفک مانیٹرنگ سسٹم فعال ہوتا تو شاید درجنوں جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔ یہ تاخیر اور غفلت صرف انتظامیہ کی نالائقی نہیں بلکہ نظامی جرم ہے۔ جب ریاست شہریوں کو محفوظ بنانے میں ناکام ہو جائے، تو قانون خود بے معنی ہو جاتا ہے۔
کراچی کا ڈمپر مافیا محض چند گاڑیوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک بااثر نیٹ ورک ہے جو تعمیراتی مٹیریل، ریت، بجری اور سرکاری ٹھیکوں سے منسلک ہے۔ ان کے پاس سرمایہ بھی ہے، سیاسی پشت پناہی بھی، اور پولیس و انتظامیہ تک براہِ راست رسائی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی حادثہ ہوتا ہے، تو متاثرہ خاندان عدالتوں میں دھکے کھاتے ہیں جبکہ مافیا چند فون کالوں سے سب کچھ ’’حل‘‘ کروا لیتا ہے۔ ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا تھا: ’’ڈمپر مافیا کا اثر اتنا گہرا ہے کہ اگر ہم کسی گاڑی کو بند بھی کر دیں، چند گھنٹوں میں کسی اوپر کے فون سے وہ دوبارہ سڑک پر آ جاتی ہے‘‘۔ یہ وہ نظام ہے جہاں پیسہ انصاف سے زیادہ طاقتور ہے، اور انسانی جان صرف ایک نمبر بن کر رہ گئی ہے۔ اس بحران میں سب سے مضبوط اور مسلسل آواز جماعت اسلامی کی رہی ہے۔ امیرِ جماعت کراچی منعم ظفر خان نے نہ صرف اعداد و شواہد کے ساتھ سندھ حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کیا بلکہ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ احتجاجی دھرنوں میں شریک ہو کر یہ ثابت کیا کہ یہ جدوجہد سیاسی نہیں بلکہ انسانی ہے۔
منعم ظفر خان نے واضح مطالبات رکھے: 1۔ دن کے وقت قاتل ڈمپروں کا شہر میں داخلہ بند کیا جائے۔ 2۔ حادثات کے متاثرہ خاندانوں کو فی الفور کم از کم ایک کروڑ روپے معاوضہ دیا جائے۔ 3۔ کرپٹ پولیس اہلکاروں اور ڈمپر مافیا کے سرپرستوں کے خلاف مقدمات چلائے جائیں۔ یہ وہ جماعت ہے جس نے پانی مافیا، کے الیکٹرک مافیا، اور اب ڈمپر مافیا کے خلاف عوامی تحریکیں چلائیں۔ جب باقی جماعتیں خاموش تھیں، جماعت اسلامی عدالت میں بھی تھی اور سڑک پر بھی۔ 1993-94 کے ایک سرکاری سروے میں واضح تھا کہ بسیں اور ٹرک، جو شہر کی کل گاڑیوں کا صرف 4 فی صد ہیں، وہ 49 فی صد حادثات اور 65 فی صد ہلاکتوں کے ذمے دار ہیں۔ تین دہائیاں گزر گئیں مگر صورتحال مزید خراب ہو چکی ہے۔ سڑکیں تنگ، گاڑیاں بھاری، آبادی کئی گنا بڑھ چکی، مگر قانون وہیں رکا ہوا ہے۔
کراچی کے شہری ہر روز اپنی موت کے ساتھ سڑک پر نکلتے ہیں۔ یہ شہر اب گاڑیوں کا نہیں، غفلت کا قبرستان بن چکا ہے۔ عدالتیں اکثر ازخود نوٹس لینے میں تاخیر کرتی ہیں۔ کوئی مقدمہ برسوں چلتا ہے، کوئی فیصلہ فائلوں میں دفن ہو جاتا ہے۔ متاثرہ خاندان انصاف کی امید میں دربدر ہیں، جبکہ مافیا کے ڈرائیور چند دن بعد ضمانت پر باہر آ جاتے ہیں۔ شہریوں میں غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اب وہ احتجاج کو جرم نہیں سمجھتے، بلکہ اپنی بقا کی آخری کوشش سمجھتے ہیں۔ یہ صورت حال کسی بھی ریاست کے لیے لمحہ فکر ہے۔ اگر شہری قانون پر اعتماد کھو بیٹھیں تو پھر ریاست کی بنیاد ہی متزلزل ہو جاتی ہے۔ یہ صرف ڈمپر مافیا کا مسئلہ نہیں۔ یہ کراچی کی زوال پذیر گورننس، تباہ حال سڑکوں، ٹریفک کے بگاڑ، پانی و گیس کے بحران، تعلیمی زبوں حالی اور بڑھتی ہوئی غربت کا اجتماعی چہرہ ہے۔ جب ریاست شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری نہ کرے، تو ہر شعبہ مافیا بن جاتا ہے۔ چاہے وہ پانی کا ہو، بجلی کا، یا ٹرانسپورٹ کا۔ یہاں تک کہ رہائش بھی محفوظ نہیں، جیسا کہ لیاری میں عمارت گرنے کے المناک واقعے نے ثابت کیا۔
اگر حکومت واقعی چاہتی ہے کہ کراچی میں خون کا بہاؤ رکے تو فوری اقدامات ناگزیر ہیں: 1۔ بھاری گاڑیوں پر دن کے وقت مکمل پابندی۔ 2۔ رشوت کے نیٹ ورک کا خاتمہ اور پولیس احتساب۔ 3۔ ڈرائیوروں کی لازمی تربیت اور سخت لائسنسنگ نظام۔ 4۔ سڑکوں کی ازسرِ نو مرمت اور انفرا اسٹرکچر میں بہتری۔ 5۔ عوامی آگاہی مہم اور شہری تعاون۔ 6۔ متاثرہ خاندانوں کو فوری معاوضہ اور قانونی مدد۔ 7۔ سیف سٹی منصوبے کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔
کراچی کے عوام کو مزید خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ قاتل ڈمپروں، کرپٹ پولیس، اور لاپروا حکومت سے سوال کرنا ہوگا: کیوں شہریوں کی زندگیاں سستی ہو چکی ہیں؟ کیوں قاتل ڈمپر آزاد گھوم رہے ہیں؟ کیوں ٹریفک پولیس رشوت لے کر موت کو شہر میں داخل کر رہی ہے؟ کیوں سیف سٹی منصوبہ اب تک فائلوں میں دفن ہے؟ کراچی کو بچانا کوئی سیاسی مہم نہیں؛ یہ انسانی بقا کا سوال ہے۔ اور اس جدوجہد میں جماعت اسلامی جیسی عوامی قوت کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب ایک ہو کر اس شہر کو مافیا کے چنگل سے آزاد کریں۔ چاہے وہ پانی کا مافیا ہو، بجلی کا، یا یہ خون بہانے والا ڈمپر مافیا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بھاری گاڑیوں ڈمپر مافیا نہیں بلکہ مافیا کے
پڑھیں:
برطانوی حکام کی غفلت سے ایک بار پھر خطرناک قیدی رہا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن (انٹرنیشنل ڈیسک) لندن میں حکام کی ایک اور غفلت سامنے آگئی اور 2قیدیوں کو غلطی سے جیل سے رہا کر دیا گیا، جس کے بعد پولیس نے ان کی تلاش کے لیے کارروائی شروع کر دی ۔ برطانوی میڈیا کے مطابق الجزائر سے تعلق رکھنے والا 24 سالہ ابراہیم قدور شریف اور 35 سالہ ولیم اسمتھ لندن کی مشہور ایچ ایم پی ونزورتھ جیل سے بالترتیب 29 اکتوبر اور 3 نومبر کو غلطی سے رہا کیے گئے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب چند روز قبل ہی ایک اور جنسی جرائم میں ملوث قیدی ہڈش کیباٹو کو بھی غلطی سے رہا کر دیا گیا تھا۔ ان متواتر واقعات کے بعد برطانوی وزیر انصاف ڈیوڈ لَمی شدید تنقید کی زد میں آ گئے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیر انصاف نے حال ہی میں وعدہ کیا تھا کہ جیلوں میں سیکورٹی نظام مزید سخت کیا جائے گا تاکہ ایسے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں، تاہم صورت حال اس کے برعکس نظر آ رہی ہے۔پارلیمان میں کنزرویٹو پارٹی کے ارکان نے بھی وزیر انصاف کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ تازہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2025 ء تک 262 قیدیوں کو غلطی سے رہا کیا گیا۔