دیار غیر کے ڈوبتے خواب
اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT
برطانیہ آج ایک سنجیدہ چیلنج کا سامنا کر رہا ہے۔ وہاں سیاسی پناہ کے متلاشیوں اور غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہوم آفس کے اعداد و شمار بھی تشویش کا سبب بن چکے ہیں، اور شبانہ محمود سمیت تمام حکومتی اہلکار اس پر سر پکڑے ہوئے ہیں۔ ایک سال میں تقریباً ایک لاکھ پندرہ ہزار افراد نے سیاسی پناہ کی درخواستیں دی ہیں، اور اسی عرصے میں پچاس ہزار کے قریب افراد چھوٹی کشتیوں میں انگلش چینل عبور کر کے خطرناک سفر کر کے برطانیہ پہنچے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ ایک واضح خطرے کی گھنٹی ہے۔
چودہ سال بعد برسراقتدار آنے والی لیبر پارٹی کی روایت رہی ہے کہ وہ تارکین وطن کی حمایت کرتی ہے، لیکن اس بار صورتحال مختلف تھی۔ گھروں کے کرایوں میں خوفناک اضافہ، رہائشی یونٹوں کی کمی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار نے برطانوی شہریوں کو قرضوں کے بوجھ تلے دبایا ہوا تھا۔ اس لیے حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا۔ہوم سیکریٹری شبانہ محمود نے سیاسی پناہ کے متلاشیوں اور غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف سخت قوانین نافذ کرنے کا اعلان کیا۔
اب برطانیہ میں قانونی طریقوں، یعنی شادی، روزگار یا کاروبار کے ذریعے آنے والوں کو دس سال کے بعد پاسپورٹ ملے گا، جب کہ غیر قانونی طریقے سے آنے والوں کو پاسپورٹ کے لیے بیس سال انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ فیصلہ صرف ایک سخت قانون نہیں بلکہ برطانوی سماجی اور اقتصادی توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش بھی ہے۔یہ سختی صرف برطانیہ تک محدود نہیں۔ یورپ میں فرانس، جرمنی، اسپین، پرتگال، ناروے اور سویڈن نے بھی امیگریشن قوانین سخت کیے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ آبادی یا وسائل کا دباؤ نہیں، بلکہ معاشی توازن اور عوام کی فلاح و بہبود کو برقرار رکھنا ہے۔
امیر ممالک جانتے ہیں کہ اگر غیر ہنرمند اور غیر تعلیم یافتہ افراد کی بڑی تعداد آئے تو مقامی نظام پر دباؤ بڑھے گا، اور بنیادی سہولیات پر تناؤ پیدا ہوگا۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود اس صورتحال کے ذمے دار ہیں۔ پاکستان اور دیگر ممالک سے ہر سال لاکھوں افراد قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے یورپ اور دیگر ممالک جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے غیر قانونی راستہ اختیار کرنے والوں میں زیادہ تر غیر تعلیم یافتہ، غیر ہنرمند اور لوکل لینگویج سے ناواقف افراد ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف سیاسی پناہ لینا اور اپنے خاندان کی مالی دیکھ بھال کرنا ہوتا ہے، لیکن ان کے پاس معاشی یا تکنیکی ہنر نہیں ہوتا۔ پھر ہم ان ممالک کے قوانین اور سختیوں کو کوستے رہتے ہیں، حالانکہ اصل وجہ ہماری تیاری اور منصوبہ بندی کی کمی ہے۔پاکستانیوں کی اکثریت آج بھی یہ سمجھتی ہے کہ بیرون ملک دولت کی ریل پیل ہے، ڈالر اور پاونڈ کمانا انتہائی آسان ہے، اور ائیرپورٹ سے نکلتے ہی روزگار اور آمدنی کا سیلاب نظر آئے گا۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
وہاں پہنچنے کے بعد غیر ہنرمند افراد مایوسی اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں کیونکہ وہ مقامی مارکیٹ میں کوئی خاص قدر پیدا نہیں کر سکتے۔میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر بیرون ملک جانے والے افراد بنیادی اور عملی ہنر سیکھیں، جیسے پلمبنگ، الیکٹریشنی، مکینکنگ، اے سی مکینک، الیکٹریکل مکینک، مستری، اسٹیل فکسر، شاور آپریٹر، کرین آپریٹر یا سیاحت و ٹورازم کے کورسز، اور کسی ایک ملک کو ٹارگٹ کر کے اس کی زبان سیکھنا شروع کریں، تو کامیابی یقینی ہے۔
ایسے ہنر مندانہ راستے نہ صرف ذاتی ترقی کا ذریعہ ہیں بلکہ پاکستان کے زرمبادلہ کو بھی بڑھا سکتے ہیں۔ہم عام طور پر بغیر منصوبہ بندی کے باہر جانے کے عادی ہیں۔ والدین اپنی جمع پونجی بیچ کر بچوں کو ایجنٹوں کے سپرد کر دیتے ہیں، اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پاکستان ہر فورم پر بدنام ہوتا ہے۔ دراصل، یورپ اور شمالی امریکا میں ہنر مند افراد کبھی بھوکے نہیں رہتے۔ پلمبر، الیکٹریشن، مکینک اور دیگر شعبوں کے ماہر اپنی محنت سے بہترین کمائی کرتے ہیں اور نہ صرف اپنا بلکہ پاکستان کا زرمبادلہ بھی بڑھا سکتے ہیں۔لیکن ہر شخص بھیڑ چال میں مصروف رہتا ہے۔ اگر بارسلونا میں ڈونر کباب، موبائل شاپ یا فوڈ ڈلیوری کا کام بہتر ہے، تو ہر پاکستانی بغیر سوچے سمجھے یہی کام کرنے لگتا ہے، جس سے مارکیٹ میں غیر ضروری دباؤ پیدا ہوتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ہنر مند امیگریشن کے فروغ کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ معاہدے کرے۔ اگر بھارت، چین، جاپان اور بنگلادیش اپنے ہنرمند بھیج سکتے ہیں، تو ہم کیوں نہیں؟اس مقصد کے لیے پاکستان کو پانچ سالہ فنی ایمرجنسی نافذ کرنی ہوگی۔ فنی تعلیمی اداروں کی کارکردگی کو بین الاقوامی معیار کے مطابق لانا ہوگا، امتحانی نظام مضبوط اور عملی بنانا ہوگا، نصاب جدید تقاضوں کے مطابق تیار کرنا ہوگا، پرائیویٹ شعبے کو تربیت دینے کے لیے حوصلہ افزائی کرنی ہوگی اور اسکالرشپ کے لیے رقم مختص کرنی ہوگی۔ اگر یہ اقدامات پانچ سال کے اندر عملی ہوں تو یورپ، امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور عرب ممالک میں ہنر مند پاکستانی بھیجنا آسان ہو جائے گا اور زرمبادلہ کی مقدار بھی دگنی ہوگی۔آخر میں، سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ حکومت پنجاب، سندھ اور وفاقی حکومت نے فنی تعلیم کے لیے اقدامات کیے ہیں، مگر زیادہ تر اقدامات نمائشی ہیں۔
اگر سنجیدگی کے ساتھ منصوبہ بندی کی جائے تو پورا یورپ، شمالی امریکا اور عرب دنیا ہنر مند افراد کے لیے بہترین مارکیٹ ثابت ہو سکتی ہے۔ بصورت دیگر، وہ دن دور نہیں جب برطانوی پاسپورٹ بیس سال کے بجائے پچاس سال بعد ملے گا۔کامیابی صرف ہنر، محنت اور منصوبہ بندی کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔ بغیر سوچے سمجھے غیر قانونی طریقے اختیار کرنے والے نہ صرف اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں بلکہ پاکستان کی ساکھ اور مستقبل کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فنی تعلیم، زبان کی مہارت اور ہدفی منصوبہ بندی بیرون ملک کامیابی کی کلید ہیں، اور ان پر فوری اور سنجیدہ توجہ دینا ضروری ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سیاسی پناہ کہ پاکستان اور غیر ہوتا ہے کے لیے
پڑھیں:
ججز کے استعفے جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں: سعد رفیق
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ججز کے استعفے پاکستان میں آئین، انصاف، قانون اور جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والے ہر فرد کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے بیان میں خواجہ سعد رفیق نے لکھا کہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ سے مستعفی ہوگئے، اب لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا بھی استعفیٰ دے کر اس صف میں شامل ہوگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جناب اطہر من اللہ ججز بحالی تحریک کے دور جدوجہد کے دوران فرنٹ لائن کے ساتھی رہے، جج بننے کے بعد کبھی ان سے ملاقات ہوئی نہ ہی سامنا، میرے نزدیک وہ عدلیہ کے گنے چنے دیانتدار اور کھرے لوگوں میں سے ہیں۔
کیٹی پیری سے رومانوی تعلقات، جسٹن ٹروڈو کی سابقہ اہلیہ کا ردِعمل آگیا
ان کا کہنا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ کو بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ شاندار کام کرتے دُور سے دیکھا، وہ بلاشبہ کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر اپنا کام کرتے ہیں، ایک زمانہ ان کی قابلیت اور دیانتداری کا معترف ہے، اسی طرح جسٹس شمس محمود مرزا کا شمار لاہور ہائیکورٹ میں اچھی ساکھ کے حامل ججز میں کیا جاتا ہے۔
آواز دروں —•—
جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس سید منصور علی شاہ مستعفی ھو گئے ھیں
اب لاھور ھائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا بھی استعفےٰ دیکر اس صف میں شامل ھو گئے ھیں
جناب اطہر من اللّٰہ ججز بحالی موومنٹ کے دور جدوجہد کے دوران فرنٹ لائن کے ساتھی رھے ، جج بننے کے بعد کبھی…
خواجہ سعد رفیق نے لکھا کہ مستعفی ہونے والے ججز کے عدالتی فیصلوں سے اختلاف اور ہمارے گلے شکوؤں سے قطع نظر ان جج صاحبان کی قابلیت اور عمومی انصاف پسندی کا میں ہمیشہ قائل رہا ہوں۔
مدینہ منورہ، ڈیزل ٹینکر اور بس کے تصادم میں 42 افراد جاں بحق
انہوں نے کہا کہ جسٹس شمس محمود مرزا پر سلمان اکرم راجہ سے رشتہ داری کا الزام عائد کرنا بھی طفلانہ حرکت ہے، ہمارے علم کے مطابق رشتہ داری کبھی ان کے کام میں خلل انداز نہیں ہوئی، صورتحال یہ ہے کہ کچھ عرصہ پیشتر بھی سپریم کورٹ کے دو تین ججز استعفے دے چکے ہیں لیکن اب مستعفی ہونیوالے ججز کے استعفوں کو پہلے استعفوں کے ساتھ ملانا یا جوڑنا ناانصافی ہوگا، ہمارے نزدیک عدالتی توازن کیلئے ان حضرات کا دم غنیمت تھا۔
سابق وفاقی وزیر نے مزید لکھا کہ بطور ایک سیاسی کامریڈ مجھے ان جج صاحبان کے استعفوں پر دلی افسوس ہوا ہے، ججز کے تازہ ترین استعفوں کو دھڑے بندی کی سیاست کی عینک سے دیکھا جائے تو منظر سہانا دکھائی دیتا ہے لیکن غیرجانبدارانہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ استعفے پاکستان میں آئین، انصاف، قانون اور جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والے ہر فرد کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔
آزاد کشمیر کے وزیر لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی فیصل ممتاز راٹھور نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا
ان کا کہنا تھا کہ نظر آ رہا ہے کہ استعفوں کا یہ سلسلہ یہاں نہیں رُکے گا بلکہ عدلیہ سے ہوتا ہوا پارلیمنٹ تک جائے گا، لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ ہر مخالف کو پکڑا جا سکتا ہے نہ ہی ملک دشمن قرار دیا جاسکتا ہے۔
لیگی رہنما نے مزید کہا کہ ایک ذمہ دار ریاست معاملات کو ٹھنڈا رکھتی ہے، دشمنوں میں گھرا نیوکلیئر پاکستان آخر کہاں تک اور کب تک اندرونی محاذ آرائی کا متحمل ہوگا؟ دیرینہ تنازعات کے حل کیلئے نئے تنازعات کو جنم دینا دانشمندی نہیں کہلاتا؟ ان استعفوں پر خوشی کے ڈھول پیٹنے کے بجائے پیدا ہونے والی فالٹ لائنز پُر کرنے کی فکر کرنا ہی مناسب عمل ہوگا۔
جسٹس اقبال کی پی پی 98 میں ضمنی انتخاب کیخلاف درخواست پر سماعت سے معذرت
مزید :