متحدہ عرب امارات میں کیش ختم؟ تنخواہیں اور ادائیگیاں اب ڈیجیٹل درہم کی صورت میں ملیں گی؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
موجودہ دور میں جہاں دنیا بھر میں ڈیجیٹل کرنسیوں کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، وہاں متحدہ عرب امارات نے بھی ایک نئے قانون کے ذریعے ڈیجیٹل درہم کو کیش کے برابر قانونی حیثیت دے دی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اب یہ کسی بھی رقم کی ادائیگی کے لیے قانونی طور پر قابل قبول ہے۔
یو اے ای میں فیڈرل ڈیکری لا نمبر 6، 2025 کے تحت درہم اب نوٹ، سکے اور ڈیجیٹل شکلوں میں لین دین اور کاروبار میں استعمال ہونگے اور اس کے تحت سنٹرل بینک آف دی یو اے ای کو ڈیجیٹل کرنسی کے پروگرام کے لیے مکمل قانونی اختیار حاصل ہو گیا ہے۔
قانونی ماہر علی عواد، جو ’ال تمیمی اینڈ کمپنی‘ میں پارٹنر ہیں، کہتے ہیں کہ ابھی سینٹرل بینک آف دی یو اے ای کی جانب سے تفصیلی قواعد و ضوابط تیار کیے جا رہے ہیں، جو طے کریں گے کہ ڈیجیٹل درہم کس طرح جاری، گردش اور اصل قیمت پر وصول کیا جائے گا۔ ان کے مطابق، جب یہ نظام مکمل طور پر فعال ہو جائے گا، تو کوئی بھی کاروبار، مالی ادارہ یا سرکاری ادارہ ڈیجیٹل درہم کو مسترد نہیں کر سکے گا۔
حال ہی میں یو اے ای کی وزارتِ مالیات اور دبئی کے محکمہ مالیات نے ’سی بی یو اے ای‘ کے تعاون سے ڈیجیٹل درہم کے ذریعے پہلا سرکاری مالیاتی لین دین مکمل کیا۔ یہ تجربہ پائلٹ مرحلے کا حصہ تھا، جس کا مقصد ڈیجیٹل ادائیگیوں کو فروغ دینا اور ان کے استعمال کو مستحکم کرنا تھا۔
بزنس پارٹنر علی عواد نے مزید وضاحت دی کہ قانونی طور پر، اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ تنخواہیں، خریداری یا ریمیٹنس بھی ڈیجیٹل درہم میں کی جا سکیں۔ تاہم عملی طور پر اس کے لیے ’سینٹرل بینک آف دی یو اے ای‘ کی جانب سے مزید ضوابط کی ضرورت ہوگی، جن کے ذریعے یہ طے کیا جائے گا کہ ڈیجیٹل درہم کس طرح جاری اور محفوظ کیا جائے گا، اور والیٹ سسٹمز کس طرح باہم ہم آہنگ ہوں گے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ آجر، کاروباری ادارے جو خرید و فروخت کے دوران ادائیگیاں کرتے ہیں، اور پیسوں کے تبادلے کی خدمات دینے والے پلیٹ فارمز کو ’ڈیجیٹل درہم کے نظام‘ سے جوڑنا ضروری ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ، بین الاقوامی پیسوں کے تبادلے کے لیے دوسرے ممالک کے حکام کے ساتھ معاہدے بھی کیے جائیں گے تاکہ یو اے ای کے مرکزی بینک یعنی سینٹرل بینک آف دی یو اے ای کے ذریعے عالمی سطح پر آسانی سے پیسے بھیجے اور وصول کیے جا سکیں۔
سینٹرل بینک آف دی یو اے ای کے مطابق، ڈیجیٹل درہم یو اے ای کے قومی کرنسی کا ڈیجیٹل ورژن ہوگا جو فوری سیٹلمنٹ، وسیع رسائی اور سنٹرل بینک کی ضمانت کے ساتھ محفوظ ادائیگیوں کی سہولت فراہم کرے گا۔ اس سے ادائیگی کے عمل میں آسانی اور لین دین کی لاگت میں کمی ممکن ہوگی۔
مزید برآں، یہ ریٹیل، ہول سیل اور انٹرنیشنل ٹرازیکشنز کے عمل کو تیز تر اور سستا بنائے گا، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو بینکنگ سسٹم سے باہر ہیں یا جنہیں مالی خدمات تک محدود رسائی ہے۔
ڈیجیٹل درہم کی اہم خصوصیات میں پروگرام ایبل پیمنٹس شامل ہیں، جو مخصوص شرائط کے مطابق خودکار ادائیگیاں کرنے کی سہولت دیں گے۔ اس کے علاوہ، ریئل ٹائم سیٹلمنٹ یعنی فوری لین دین کی تصدیق بھی ممکن ہوگی، اور بین الاقوامی ٹرانزفرز کو تیز تر اور آسان بنایا جائے گا۔
آس نظام کو نافظ کرنے میں انٹرمیڈیئیٹڈ سی بی ڈی سی ماڈل کا استعمال کیا جائے گا، جس میں ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر والے ہائبرڈ والٹس ہوں گے۔ صارفین اپنے والٹس کے ذریعے اکاؤنٹ شناخت کے ساتھ لین دین کر سکیں گے، اور تمام لین دین پرمیٹیڈ ڈسٹریبیوٹڈ لیجر پر ریکارڈ کیے جائیں گے۔
یہ نظام ریٹیل، ہول سیل اور بین الاقوامی استعمال کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، اور اس میں لیکویڈیٹی مینجمنٹ، ریگولیٹری ٹریٹمنٹ اور سینٹرل بینک آف دی یو اے ای کی سہولتوں تک رسائی میں اہم تبدیلیاں آئیں گی۔
فیڈرل ڈیکری لا نمبر 6، 2025 کے تحت، بینکوں، انشورنس کمپنیوں اور فِن ٹیک اداروں کی ریگولیشن، سینٹرل بینک آف دی یو اے ای کے تحت یکجا کر دی گئی ہے، اور قانون میں ابتدائی مداخلت کے اختیارات اور سنگین خلاف ورزیوں پر ایک ارب درہم تک جرمانے عائد کرنے کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے۔
یہ تمام اقدامات نہ صرف یو اے ای کی معیشت کو مزید جدید اور مستحکم کریں گے، بلکہ عالمی سطح پر ڈیجیٹل کرنسیوں کے استعمال میں نئی سمت بھی متعین کریں گے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سینٹرل بینک آف دی یو اے ای ڈیجیٹل درہم کیا جائے گا یو اے ای کے یو اے ای کی کے ذریعے کے ساتھ لین دین کے لیے کے تحت
پڑھیں:
تاجروں کی ڈیجیٹل ادائیگیوں میں سست روی سے حکومت کا ہدف خطرے میں پڑ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف کے ’’کیش لیس معیشت‘‘ کے منصوبے پر عمل درآمد کی رفتار سست پڑ گئی ہے اور اب تک ملک بھر میں صرف سات لاکھ سے بھی کم ریٹیلرز ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام سے منسلک ہو سکے ہیں۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے اعلیٰ سطح اجلاس میں وزیراعظم کو دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ حکومت نے جون 2026 تک کم از کم 20 لاکھ تاجروں کو اس نظام میں شامل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے، تاہم تاجروں کی جانب سے مزاحمت کے باعث یہ مقصد حاصل کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ اسلام آباد میں اس وقت صرف 39 ہزار تاجر ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام کے تحت فعال ہیں۔ اس منصوبے کی نگرانی وزیرِ مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی کے سپرد کی گئی ہے، جو اس عمل کو تیز کرنے کے لیے مختلف اقدامات کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں گردش کرنے والی کرنسی کی شرح 34 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
تاجروں کی ٹیکس نیٹ میں شمولیت سے گریز حکومت کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ قرار دی گئی ہے۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ گزشتہ مالی سال تاجروں نے صرف 166 ارب روپے انکم ٹیکس ادا کیا جب کہ تنخواہ دار طبقے نے اس کے مقابلے میں 606 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرائے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے متعلقہ اداروں کو ہدایت دی کہ ملک میں آگاہی مہمات کو تیز کیا جائے تاکہ دیہی علاقوں میں بھی عوام کو ڈیجیٹل ادائیگیوں کی سہولت سے روشناس کرایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیش لیس معیشت شفافیت کو فروغ دینے، کرپشن میں کمی اور بہتر طرز حکمرانی کے لیے ناگزیر ہے۔
حکام نے بتایا کہ اسلام آباد میں دکانوں پر اسکین ایبل کوڈ کے ذریعے ادائیگیوں کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے اور نئے کاروباروں کے لائسنس کو ڈیجیٹل ادائیگیوں سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس نظام سے کاروباری لین دین میں شفافیت بڑھے گی اور نقدی کے استعمال میں کمی آئے گی۔
اس کے علاوہ بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 10 ملین ڈیجیٹل والیٹس فعال کیے جا رہے ہیں جن کے ذریعے مستحق خاندانوں کو مالی امداد کی منتقلی جاری ہے۔ وزیراعظم نے اس پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا تیزی سے ڈیجیٹل معیشت کی طرف بڑھ رہی ہے اور پاکستان کو اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔
انہوں نے مالی شمولیت کے اہداف مزید بڑھانے کی بھی ہدایت دی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ جدید معیشت کا حصہ بن سکیں۔