آئی ایل ٹی 20 ،گلف جائنٹس نے شارجہ واریئرز کو شکست دے دی
اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دبئی (اسپورٹس ڈیسک )آئی ایل ٹی 20 سیزن 4 کے اہم میچ میں گلف جائنٹس نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شارجہ واریئرز کو چھ وکٹوں سے شکست دے دی۔ یو اے ای کے اسپنر آیان خان نے میچ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا اور 17 رنز کے عوض 3 وکٹیں حاصل کرکے پلیئر آف دی میچ قرار پائے۔ وہ آئی ایل ٹی 20 میں یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے یو اے ای کرکٹر بن گئے۔شارجہ واریئرز نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 157 رنز بنائے۔ اننگز کے آغاز میں جانسن چارلس اور کسل مینڈس نے مثبت کھیل پیش کیا، تاہم درمیانی اوورز میں گلف جائنٹس کے اسپنرز، خصوصا آیان خان نے مخالف بیٹنگ لائن کو سنبھلنے نہ دیا۔ پریٹوریئس نے اختتامی مرحلے میں 36 رنز کی برق رفتار اننگز کھیل کر ٹیم کا اسکور بہتر ضرور کیا، لیکن مجموعی ٹوٹل خاطر خواہ ثابت نہ ہوا۔ہدف کے تعاقب میں گلف جائنٹس کے اوپنرز رحمان اللہ گرباز اور جیمز ونس نے جارحانہ آغاز فراہم کیا۔ دونوں نے پاور پلے میں پانچ چھکے لگا کر میچ پر جائنٹس کی گرفت مضبوط کردی۔ گرباز نے نصف سنچری اسکور کی جبکہ ونس نے 35 رنز بنائے۔ درمیانی اوورز میں اسکندر رضا اور عادل رشید نے بولنگ سے کچھ مزاحمت دکھائی، مگر فیصلہ کن لمحات میں آزم اللہ عمرزئی اور ایراسمس نے پرسکون بیٹنگ کرتے ہوئے ٹیم کو فتح دلادی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: گلف جائنٹس
پڑھیں:
داعش کی شکست کا راز
اسلام ٹائمز: تکفیری دہشت گردی سے درپیش بحران کے عروج پر، آیت اللہ العظمی سید علی السیستانی کی طرف سے 13 جون 2014ء کے دن ایک تاریخی فتوا جاری کیا گیا جس میں داعش کے خلاف جہاد کو واجب کفائی قرار دیا گیا۔ نجف سے جاری ہونے والی اس فتوے میں عراقی شہریوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ وطن کے دفاع کی خاطر سیکورٹی فورسز کا ساتھ دیں اور نہ صرف شیعہ بلکہ سنی، کرد اور عیسائیوں کو بھی متحرک کریں۔ اس فتوے کی اہمیت فوجی پہلو سے بھی آگے نکل گئی اور وہ عراق کی قومی تاریخ میں ایک ایسا اہم موڑ ثابت ہوا جس نے میدان جنگ کا توازن دفاع سے حملے کی طرف موڑ دیا اور عوام میں قومی ذمہ داری کا احساس پیدا کیا۔ اس فتوے نے دسیوں ہزار رضاکاروں کو متحرک کیا اور فرقہ وارانہ اتحاد کی لہر پیدا کی جس کے باعث سقوط بغداد کا خطرہ ٹل گیا۔ اس فتوے نے ایک وسیع عوامی جدوجہد کو جنم دیا اور جنگ کا رخ تبدل کر دیا اور اس کی اہمیت کے پیش نظر عراقی پارلیمنٹ نے 13 جون کو قومی دن قرار دے دیا۔ تحریر: مہدی سیف تبریزی
10 دسمبر 2025ء کے دن عراقی قوم اور حکومت نے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش پر فتح کی آٹھویں سالگرہ منائی ہے۔ یہ دن عراق کے قومی کیلنڈر میں مسلح افواج، حشد الشعبی (پاپولر موبیلائزیشن فورسز) اور عراقی عوام کی قربانیوں کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی سرزمین کو تکفیری دہشت گردی سے بچانے کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کی۔ مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نیز حشد الشعبی کے کمانڈروں نے مبارک باد پر مبنی اپنے پیغامات میں اس فتح کو ایک تاریک خواب کا خاتمہ اور استحکام کے دور کا آغاز قرار دیا ہے۔ عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السوڈانی نے اس دن کو عراقیوں کے شجاعانہ موقف کی یاد تازہ کر دینے والا دن قرار دیا اور کامیابیوں کے تحفظ پر زور دیا۔ عراقی صدر عبداللطیف رشید نے بھی عوام اور مسلح افواج کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے باہمی اتحاد پر زور دیا ہے۔
عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمود المشہدانی نے مسلح افواج کے اقدامات کو تاریخ کا ایک روشن صفحہ قرار دیا۔ سپریم اسلامی کونسل کے صدر شیخ ہمام حمودی نے شہداء کی یاد کو زندہ رکھنے اور اتحاد کو مضبوط بنانے پر توجہ دی۔ پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر محسن المندلاوی نے اس شجاعانہ جنگ کی تعریف کی جو ملک کی خودمختاری اور وقار بحال ہو جانے کا باعث بنی۔ حشد الشعبی کے سربراہ فلاح الفیاض نے عوامی رضاکار فورس کی تشکیل میں مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمی سید علی السیستانی کے فتوے کے کردار پر روشنی ڈالی اور اس فتح کو عوام کی قربانیوں کا نتیجہ قرار دیا۔ عصائب اہل الحق کے سیکرٹری جنرل شیخ قیس خز علی نے ایران کی برادرانہ حمایت کو سراہا۔ قومی حکمت پارٹی (نیشنل وزڈم موومنٹ) کے سربراہ سید عمار حکیم نے مرجع عالی قدر اور ان کے فتوے پر لبیک کہنے والوں کو مبارکباد پیش کی۔شیعہ، سنی اور کرد رہنماؤں کے یہ پیغامات عراق میں سلامتی اور ترقی برقرار رکھنے کے اجتماعی عزم کا اظہار کرتے ہیں۔
دہشت گردی کا خطرہ ظاہر ہونے کی کہانی
عراق میں القاعدہ کی ذیلی شاخ کے طور تکفیری دہشت گرد گروہ داعش 2011ء میں امریکہ کے فوجی انخلاء کے بعد اور سیاسی عدم استحکام اور فوج کی کمزوری کے سائے میں تیزی سے پروان چڑھا۔ اس گروہ نے 2013ء شام کی داعش سے الحاق کا اعلان کر دیا اور یوں "اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا" (ISIS) کا نام اختیار کرگیا۔ 2014ء میں سعودی عرب، قطر، اور سلفی وہابی تحریکوں کی مالی اور عسکری مدد سے نیز امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی طرف سے واضح طور پر آنکھیں بند کر لینے کے ساتھ داعش نے عراق پر ایک بڑے حملے کا آغاز کر دیا جس کا عروج 10 جون 2014ء کے دن موصل پر اس کے قبضے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ قبضہ محض چند سو دہشت گردوں کے مقابلے میں عراقی فوج کے دسیوں ہزار سپاہیوں کے فرار ہو جانے کا نتیجہ تھا۔
موصل پر قبضے کے بعد داعش نے مرکزی بینک سے 1.5 ارب ڈالر سے زائد رقم بھی لوٹ لی اور اسلحے کے ذخائر پر قبضہ کر کے دنیا کا امیر ترین دہشت گرد گروہ بن گیا۔ موصل کے بعد تکریت، رمادی، فلوجہ اور صوبہ الانبار کے وسیع علاقے نیز صلاح الدین اور نینویٰ ایک ایک کر کے داعش کے قبضے میں جاتے چلے گئے۔ 2015ء کے وسط تک داعش نے عراق کے تقریباً 40 فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور بغداد کے اندر بھی کئی کلومیٹر تک پیش قدمی کر لی تھی۔ یہ وحشیانہ پیشقدمی منظم قتل و غارت، اسپائیکر واقعے سمیت وسیع قتل عام کے واقعات، مزارات اور مساجد کی تباہی، یزیدی خواتین کو غلام بنانا اور دہشت کی فضا پیدا کرنے کے ہمراہ تھی۔ نوری المالکی حکومت کی کمزوری، فوج میں بدعنوانی اور بعض سنی قبائل کی ناراضگی نے بھی دہشت گردوں کو عراق کو مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچانے اور خطے کو معصوم لوگوں کی قتل گاہ میں تبدیل کرنے میں مدد فراہم کی۔ ایک ایسی سازش جو امریکہ، مغرب اور غاصب صیہونی رژیم کی پس پردہ حمایت سے آگے بڑھ رہی تھی۔
تاریخی فتوا اور عوامی دفاع کا آغاز
تکفیری دہشت گردی سے درپیش بحران کے عروج پر، آیت اللہ العظمی سید علی السیستانی کی طرف سے 13 جون 2014ء کے دن ایک تاریخی فتوا جاری کیا گیا جس میں داعش کے خلاف جہاد کو واجب کفائی قرار دیا گیا۔ نجف سے جاری ہونے والی اس فتوے میں عراقی شہریوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ وطن کے دفاع کی خاطر سیکورٹی فورسز کا ساتھ دیں اور نہ صرف شیعہ بلکہ سنی، کرد اور عیسائیوں کو بھی متحرک کریں۔ اس فتوے کی اہمیت فوجی پہلو سے بھی آگے نکل گئی اور وہ عراق کی قومی تاریخ میں ایک ایسا اہم موڑ ثابت ہوا جس نے میدان جنگ کا توازن دفاع سے حملے کی طرف موڑ دیا اور عوام میں قومی ذمہ داری کا احساس پیدا کیا۔ اس فتوے نے دسیوں ہزار رضاکاروں کو متحرک کیا اور فرقہ وارانہ اتحاد کی لہر پیدا کی جس کے باعث سقوط بغداد کا خطرہ ٹل گیا۔ اس فتوے نے ایک وسیع عوامی جدوجہد کو جنم دیا اور جنگ کا رخ تبدل کر دیا اور اس کی اہمیت کے پیش نظر عراقی پارلیمنٹ نے 13 جون کو قومی دن قرار دے دیا۔
داعش کے خاتمے میں ایران کا نمایاں کردار
اسلامی جمہوریہ ایران نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے واضح حکم پر عراق پر داعش کے حملے کے آغاز سے ہی اس ملک کو بچانے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لانا شروع کر دی تھیں۔ یہ اسٹریٹجک حکم عراقی قوم اور حکومت کے لیے ایران کی غیر مشروط، تیز رفتار اور جامع حمایت کی بنیاد بن گیا۔ میدان جنگ میں بھی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر شہید لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی نے ایک بے مثال اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ وہ خود کو "مرجع عالی قدر کا سپاہی" کہتے ہوئے آیت اللہ العظمی سیستانی کے فتوے کے فوراً بعد عراق میں داخل ہوئے اور داعش کے خلاف حتمی فتح کے دن تک عملی طور پر پورے مزاحمتی محاذ کے مرکزی کمانڈر کا کردار ادا کرتے رہے۔ آمرلی اور سامرا کا محاصرہ توڑنے سے لے کر جرف النصر، تکریت، بیجی، فلوجہ، رمادی اور موصل کو آزاد کرانے تک تمام فوجی آپریشنز کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد شہید قاسم سلیمانی کی براہ راست، چوبیس گھنٹے کی نگرانی سے انجام پاتا رہا۔