اپنے لیے جیون ساتھی کے انتخاب کا موقع دینے والے ریئلٹی شو ’لازوال عشق‘ اب پاکستان میں یوٹیوب پر دستیاب نہیں رہا۔

اس شو کا فارمیٹ اپنے آغاز سے پہلے ہی متنازع رہا ہے۔ یوٹیوب پر نشر ہونے کے بعد اس شو پر تنقید میں مزید اضافہ ہوا تھا۔

عائشہ عمر کی میزبانی میں پیش کیے جانے والے اس ریئلٹی شو کو اسلامی اقدار اور پاکستانی ثقافت کے منافی قرار دیا جا رہا تھا۔

سوشل میڈیا صارفین نے بھی اس شو کو یوٹیوب سے ہٹانے کے لیے باقاعدہ مہم بھی چلائی تھی اور اب یوٹیوب سے ہٹادیا گیا۔

ریئلٹی شو کی انتظامیہ نے اپنے انسٹاگرام پیج پر بتایا کہ کچھ سیاسی وجوہات کی بنا پر ہمارا پروگرام پاکستان میں نہیں دیکھا جاسکتا۔

یاد رہے کہ ’لازوال عشق‘ میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے آٹھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں جو استنبول کے ایک بنگلے میں جیون ساتھی کے انتخاب کے لیے قیام کرتے ہیں۔

یہ شو بین الاقوامی ریئلٹی ڈیٹنگ شو ’لو آئی لینڈ‘ کے طرز پر بنایا گیا ہے اور ترکی کے ریئلٹی شو ’آشک آداسی‘ سے متاثر لگتا ہے۔

https://www.

instagram.com/reel/DSCahPbDTfH/

شو کی مجموعی 100 اقساط میں سے 50 اقساط نشر ہو چکی تھیں لیکن اب اچانک پاکستان میں یوٹیوب پر یہ اقساط ہٹا دی گئی تھیں تاہم مختصر کلپس اب بھی دستیاب ہیں۔

اے ایف پی نے لازوال عشق کو پاکستان کے ناظرین کے لیے ہٹانے پر یوٹیوب انتظامیہ کا مؤقف لینے کی کوشش کی لیکن فوری طور پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

یاد رہے کہ ٹریلر کے جاری ہونے پر ہی عائشہ عمر کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور بڑی تعداد میں سوشل میڈیا صارفین نے اس کو شو کو فحش اور غیر اخلاقی مواد قرار دیا۔

جس پر عائشہ عمر کا کہنا تھا کہ یہ پاکستانی شو نہیں ہے بلکہ ایک ترک پروڈکشن ہے تاہم پاکستان کے لوگ اسے دیکھ سکتے ہیں۔

قبل ازیں پیمرا نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس شو کے خلاف بڑی تعداد میں شکایات موصول ہوئیں، تاہم ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

پیمرا نے درخواست گزاروں کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا، جو آن لائن مواد کی نگرانی کرتی ہے۔

لازوال عشق کے پاکستان میں یوٹیوب پر بند ہونے سے متعلق پی ٹی اے سے موقف جاننے کی کوشش کا بھی تاحال کوئی جواب نہیں آیا۔

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان میں یوٹیوب سے کوئی پروگرام ہٹایا گیا ہو۔ گزشتہ برس ڈرامے ’برزخ‘ کو ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کے الزام پر ہٹا دیا گیا تھا۔

 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان میں لازوال عشق ریئلٹی شو یوٹیوب پر یوٹیوب سے

پڑھیں:

بے روز گاری اور پاکستان کی خوش قسمتی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251212-03-6
آج کوئی فرد ایسا نہ ہوگا جس کے آس پاس آگے پیچھے جاننے والوں میں ایسے نوجوان نہ ہوں جو ڈگری حاصل کرنے کے باوجود بے روزگار ہوں اور آج کا دور یہ ہے کہ ڈگری کا مطلب نوکری نہیں۔۔۔ کہ ڈگری تو حاصل کر لی ہے لیکن نوکری کا کوئی آسرہ نہیں۔ 2023 کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 22 فی صد تک پہنچ چکی ہے، یہ تقریباً 15 سے 24 سال کی عمر کے دو کروڑ نوجوان افراد ہیں جو بے روزگار ہیں ان کے علاوہ لاکھوں نوجوان دنیا کے مختلف ممالک میں جا چکے ہیں وہ جن کے والدین ان کی کچھ مدد کرنے کی پوزیشن میں تھے یعنی20 سے 50 لاکھ تک دینے کی پوزیشن میں تھے وہ باہر جا چکے ہیں۔ ملک میں توانائی کے بحران کی وجہ سے بہت سے کارخانے اور فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں اور فیکٹریاں بند ہونے سے بیروزگاری میں مزید اضاف ہوا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صنعتی شعبوں میں جدت نہیں ہے نئے کار خانے نہیں لگ رہے بلکہ پرانے بھی بند ہو رہے ہیں۔ پاکستان ان خوش نصیب ممالک میں شامل ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے حالیہ اعداد وشمار کے مطابق ملک میں 60 فی صد سے زیادہ آبادی 30 سال سے کم عمر یعنی نوجوانوں پر مشتمل ہے یہ ایک بہت بڑا اثاثہ ہے اگر اس کو درست سمت دی جائے لیکن مشکل یہ ہے کہ نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے باوجود روزگار حاصل نہیں کر پاتے حالیہ سروے کے مطابق ہر سال 20 لاکھ نوجوان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے لیتے ہیں لیکن ان میں بھی اکثریت ایسی ہے جو ذہنی طور سے مایوسی کا شکار ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ بے روزگاری ہے۔

پڑھے لکھے نوجوان نوکری کے لیے باہر جا رہے ہیں 2025۔ 2024 میں 7 لاکھ 27 ہزار سے زیادہ پاکستانی ملک سے باہر روزگار کی تلاش میں گئے اور اب 2025 کی پہلی ششماہی میں مزید 3 لاکھ 36 ہزار افراد ہجرت کر چکے ہیں ان میں سے اکثریت ان نوجوانوں کی ہے جو تعلیم کے بجائے کمائی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ سروے کے مطابق یہ بتایا جا رہا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کی شرح میں 13 فی صد کمی واقع ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جو پڑھے لکھے لوگ تھے جو آگے تعلیم میں حاصل کر سکتے تھے وہ ملک سے باہر چلے گئے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثریت تعلیم کے لیے نہیں بلکہ روزگار کے لیے باہر گئی ہے۔ بے روزگاری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ کام سے کتراتے ہیں ڈگری حاصل کر کے نوکری کے حصول کے لیے جوتیاں چٹخاتے ہیں چھوٹے بزنس شروع کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں اس معاملے میں ہمارے ہاں معاشرتی دباؤ بھی ہے باہر جا کر پڑھے لکھے افراد پر طرح کے کام کر لیں گے لیکن اپنے ملک میں شرم کریں گے۔

لیبر فورس سروے کے مطابق وہ لوگ جن

کی عمر کام کرنے کی ہے ان میں سے 55 فی صد کوئی کام نہیں کرتے یہ لوگ یا تو کام سے کتراتے ہیں یا پھر ان کے لیے آمدنی کے مختلف ذرائع موجود ہیں لہٰذا کام کی ضرورت نہیں پڑتی۔ توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک میں بہت سے کارخانے اور فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں اور فیکٹریاں بند ہونے سے بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مزید صنعتی شعبوں میں جدت نہیں لائی جا رہی ہے، ملکی صورتحال اس وقت معیشت کے لیے بہت زیادہ خراب ہے جس کی وجہ سے نئی ملازمتیں بھی نہیں سامنے آرہی اور ہر کاروبار ہر کام میں اتنی پابندیاں قانونی پیچیدگیاں اور کرپشن ہے کہ کوئی بھی کام اور کاروبار نہیں چل رہا لہٰذا جب کاروبار نہیں چلے گا تو اس سے ترقی کیسے ہوگی نئی ملازمتیں کہاں سے آئیں گیں۔

بے روزگاری کی ایک وجہ اور ملازمت نہ ملنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ جو تعلیم دی جا رہی ہے وہ معیار کے مطابق نہیں ہے صورتحال یہ ہے کہ ملازمت ڈھونڈنے والوں کو ملازمت نہیں مل رہی اور ملازمت دینے والوں کو مطلوبہ ملازم نہیں مل رہا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو تعلیم طالب علموں کو دے رہے ہیں وہ کسی کام کی نہیں ہے اس میں ہمیں اپنے معیار کو بہتر بنانا۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی بوڑھی آبادی بڑھ رہی ہے اور جوان آبادی کا تناسب کم ہو رہا ہے جاپان میں 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد کے کل آبادی کا 28 فی صد ہو چکے ہیں اٹلی میں یہ تناسب 23 فی صد پہنچ چکا ہے یونان اور پرتگال میں 22 اور 21 فی صد ہے ان بوڑھی آبادیوں کی وجہ سے ملک میں پنشنوں اور اولڈ ایج بینیفٹ اسکیموں پر حکومت اخراجات بہت بڑھ رہے ہیں جبکہ شادی شدہ افراد افزائش نسل بہت کم شرح سے کر رہے ہیں لہٰذا وہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی بنیاد پر روبوٹ بنانے اور ان کو افراد کے نعم البدل کے طور پر استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں یہ ترقی یافتہ ممالک کے مسائل ہیں لیکن ہمارے ملک میں جہاں نوجوان آبادی بہت بڑی تعداد میں ہیں لیکن ان کی ایک بڑی تعداد منشیات کی عادی ہو رہی ہے۔ بیروزگاری ہے ایک طرف اور دوسرے طرف منشیات۔۔ کیونکہ دباؤ اور ڈپریشن بڑھ رہا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ منشیات کے عادی افراد کی تعداد پاکستان میں ایک کروڑ تک پہنچ گئی ہے جن میں سے اکثریت نوجوانوں کی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے افرادی قوت کو ہنر مند بنائیں یہ ہنر مند افرادی قوت بیرون ملک یورپی ملک میں بھی یومیہ بنیاد پر کام کر سکتی ہے اس طرح اپنے ملک میں بھی خود روزگار اسکیم اور منصوبوں کی حکمت عملی کو اپنا کر چھے کروڑ نوجوانوں کو ملک کے قومی ترقی میں شامل کر سکتی ہے اس کے لیے جماعت اسلامی نے جو منصوبہ بنو قابل کے نام سے شروع کیا ہے وہ ایک اہم منصوبہ ہے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اس صورتحال میں جب کہ وہ حکومت میں موجود ہیں اور ایک عرصہ سے ہیں۔۔۔ لیکن ان نوجوانوں کی تربیت ان کی ملازمت اور ان کی بیروزگاری کو دور کرنے کے لیے آگے آنے پہ تیار نہیں ہیں۔

غزالہ عزیز سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • 1971 کی جنگ، پاکستان آرمی کے جوانوں کی بہادری کی لازوال داستانیں
  • حکومت طلبہ کو مناسب اور محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کرے‘عائشہ مدنی
  • یوٹیوب میں صارفین کے لیے نیا اہم فیچر متعارف
  • بے روز گاری اور پاکستان کی خوش قسمتی
  • عدالت عظمیٰ: متنازع ٹوئٹ کیس میں ایمان مزاری کیخلاف ٹرائل روکنے کا حکم
  • نیشنل گیمز نے ملک بھر کے کھلاڑیوں کو ایک مرتبہ پھر جوش و جذبے سے سرشار کردیا
  • سپریم کورٹ: متنازع ٹویٹ کیس، ایمان مزاری کیخلاف ٹرائل روکنے کا حکم
  • متنازع ٹویٹس کیس؛ سپریم کورٹ کا ایمان مزاری کے خلاف ٹرائل روکنے کا حکم
  • سپریم کورٹ نے متنازع ٹوئیٹس کیس میں ایمان مزاری اور ہادی چٹھہ کا ٹرائل روک دیا