گزشتہ سال 8 دسمبر 2024ء کو بشار الاسد کی حکومت گرنے کے بعد، بہت سے تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی تھی کہ شام، ترکیہ اور قابض اسرائیل کے درمیان مفادات کا جنگی میدان بن جائے گا جہاں دونوں فریق زیادہ مال غنیمت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ گزشتہ شب ترکیہ کے وزیر خارجہ "حکان فیدان" نے ایک انٹرویو دیا، جس میں انہوں نے شام کی صورت حال کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ جنوبی شام میں ہونے والی سرگرمیاں ممکنہ طور پر ترکیہ کے لئے چیلنج میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جنوبی شام میں صرف صیہونی دراندازی کا مسئلہ نہیں بلکہ وہاں ایک جارح کی حیثیت سے اسرائیل کی موجودگی نے اس خطے کو خطرناک بنا دیا ہے۔ شام میں عدم استحکام پر مبنی اسرائیل کی پالیسی، اس ملک میں اتحاد کی بحالی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے شمالی شام میں کُردوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کُرد فورسز، اسرائیل کی شہہ پر اتنا اچھلتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ، شام میں جولانی رژیم کی حمایت میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ شام کے عسکری ڈھانچے پر ہونے والے مسلسل زمینی و فضائی صیہونی حملے تخریب کارانہ ہیں۔

دوسری جانب 10 دسمبر کو  "شام ایک سال بعد: تعمیر نو اور احیاء" کے عنوان سے ہونے والی کانفرنس میں حکان فیدان نے کہا کہ اس وقت خطے کی سب بڑی مشکل یہ ہے کہ اسرائیل نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے لئے شام کو اکھاڑا بنایا ہوا ہے۔ انہوں نے اس امر کی جانب زور دیا کہ ہمسایوں کے لئے بدامنی پیدا کر کے اسرائیل کی سلامتی کبھی بھی یقینی نہیں بنائی جا سکتی۔ اسرائیل کو چاہئے کہ وہ اپنی سلامتی کو محفوظ بنانے کے لئے دوسروں کے لئے اشتعال نہ پھیلائے۔ قبل ازیں اپریل 2025ء میں انطالیہ ڈپلومیٹک اجلاس كے دوران ترک صدر "رجب طیب اردگان" نے شام كو لے كر موقف اپنایا كہ تركیہ كبھی بھی شام كو كسی نئی مصیبت میں مبتلا نہیں ہونے دے گا۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال 8 دسمبر 2024ء کو بشار الاسد کی حکومت گرنے کے بعد، بہت سے تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی تھی کہ شام، ترکیہ اور قابض اسرائیل کے درمیان رسہ کشی کا میدان بن جائے گا جہاں دونوں فریق زیادہ مال غنیمت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسرائیل کی انہوں نے کہا کہ کے لئے

پڑھیں:

بیرون ملک عسکری سرگرمیاں کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی، ایک ہزار افغان علما کی قرارداد

اسلام آباد کی جانب سے اس تشویش کے تناظر میں کہ عسکریت پسند افغان سرزمین استعمال کرکے پاکستان کے اندر حملے کر رہے ہیں. حال ہی میں ایک ہزار سے زائد افغان علما نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس کا مقصد بظاہر اپنی سرزمین سے ہمسایہ ممالک کے خلاف عسکریت پسندی کو روکنا ہے۔سرکردہ افغان علما کی جانب سے منظور کردہ اس قرارداد میں اس بات کا عہد کیا گیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔قرارداد میں کہا گیا کہ خلاف ورزی کی صورت میں ”اسلامی امارت کو ان کے خلاف ضروری اقدامات کرنے کا حق حاصل ہے“۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کسی افغان شہری کو “بیرون ملک فوجی سرگرمیوں کے لیے جانے کی اجازت نہیں دی، لہٰذا اگر کوئی اس حکم کی خلاف ورزی کرے تو اسلامی امارت کو ایسے افراد کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔پاکستان نے اگرچہ اس قرارداد کو خوش آئند قرار دیا ہے، مگر طالبان کے عسکریت پسند گروہوں سے متعلق سابقہ رویے کے باعث صرف محتاط امید کا اظہار کیا ہے۔ اس پیش رفت کو “مثبت اقدام” کہتے ہوئے دفترِ خارجہ نے ایک بار پھر عبوری افغان حکومت سے یہ مطالبہ دہرایا کہ وہ تحریری ضمانت دے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ماہرین کے مطابق یہ دستاویز ایک اہم پیش رفت ہے، جو افغان حکومت کی باضابطہ توثیق کے بغیر آزاد علما کے ایک گروہ کی جانب سے سامنے آئی ہے  اور اس میں پاکستان کا براہِ راست نام بھی نہیں لیا گیا۔تاہم اس میں یہ ضرور کہا گیا کہ جو بھی ”افغانستان کی سرحدوں سے باہر عسکری کارروائیاں کرے گا. اسے ریاست کا باغی سمجھا جائے گا“ اور اسے امیر کے حکم کی خلاف ورزی بھی تصور کیا جائے گا، جو قابلِ سزا جرم ہے۔لیکن یہ اب بھی واضح نہیں کہ ایسی سزا نافذ کرنے کا اختیار کس کے پاس ہوگا، کیونکہ اس قرارداد کو جاری کرنے والے علما کے اس سلسلے میں کوئی قانونی اختیارات نہیں ہیں۔اس قرارداد کا وقت خاص اہمیت رکھتا ہے. کیوں کہ یہ ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب اسلام آباد کابل سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ خاص طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کو لگام دے، جن پر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔پاکستان نے کابل سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے نام سے ایک باضابطہ فرمان جاری کرے تاکہ سرحد پار جنگجوؤں کی آمدورفت روکی جا سکے۔ یہ مطالبہ گزشتہ چند ماہ میں قطر، ترکی اور سعودی عرب میں ہونے والی متعدد بات چیت میں بھی دہرایا گیا۔تاہم مذاکرات سے باخبر حکام کے مطابق طالبان نے پاکستان سے کہا تھا کہ وہ اس حکم کے لیے افغان علما سے رجوع کرے۔افغان مذہبی اسکالر شیخ فقیراللہ فائق، جو اس اجلاس میں شریک تھے، نے کابل یونیورسٹی میں علما کے اس اجتماع میں منظور ہونے والی قرارداد کو “بہت اہم” قرار دیا اور اس کے نتائج کے حوالے سے امید ظاہر کی۔انہوں نے بتایا کہ تمام بڑے مذہبی مکاتب فکر کے سینئر علما اس ایک روزہ اجلاس میں شریک تھے۔ ان کے مطابق افغانستان میں 34 بڑے جہادی مدارس ہیں  اور وہ تمام اس تقریب میں موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ ”اساتذہ کا ان طالبان پر اثر ہوتا ہے جو ملک سے باہر لڑنے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بعض عناصر پاکستان، غزہ اور دیگر علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ سپریم لیڈر یہ نہیں چاہتے کہ ہماری وجہ سے کوئی ہمسایہ ملک مشکل میں پڑے  اور مجھے امید ہے کہ یہ قرارداد مؤثر ثابت ہو گی۔

متعلقہ مضامین

  • جنرل فیض حمید کو سزا ملنے سے احتساب کے نظام پر اعتماد میں اضافہ ہوگا، چیئرمین سینیٹ
  • نواز شریف جدید پاکستان کے معمار ہیں، جنوبی ایشیا میں پہلی موٹروے انہی نے بنوائی: وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ
  • اسرائیل اور اسکے سہولتکاروں کو غزہ کی تعمیر نو کا خرچہ اٹھانا چاہیئے، اقوام متحدہ
  • افغان سرزمین دہشت گردیکی لئے نیا خطرہ ہے ،وزیراعظم
  • بیرون ملک عسکری سرگرمیاں کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی، ایک ہزار افغان علما کی قرارداد
  • دہشتگردی کا نیا خطرہ افغان سرزمین سے سر اٹھا رہا ہے، وزیراعظم شہباز شریف کا ترکمانستان میں عالمی فورم سے خطاب
  • افغان سرزمین سے جنم لینے والی دہشت گردی سب سے بڑا خطرہ ہے‘ پاکستان
  • افغان سرزمین سے دہشتگردی ’سب سے بڑا خطرہ‘ ہے، پاکستان
  • امریکی ایلچی نے بہت بڑی غلطی کردی، نبیہ بیری