زلمے خلیل زاد، پاکستان کی ’فکر میں دبلا ہونے والا‘ ایک شخص
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
افغانستان اور عراق میں امریکی سفیر کے طور پر تادیر خدمات سرانجام دینے والے زلمے خلیل زاد ایک بار پھر پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کے حق میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
اگلے روز انہوں نے ایک ٹویٹ کی:
’میں اس شخص کی ہمت اور عزم کو سلام پیش کرتا ہوں جو بے رحم اور بے شرم پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سرد پانی کی توپوں کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ منظر مجھے تیس سال پہلے چین کے تیان آن من اسکوائر کی یاد دلاتا ہے، جب ایک اور نوجوان نے کمیونسٹ پارٹی کے ٹینکوں کی قطار کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے کی جرات کی تھی۔‘
ان کی ٹوئٹ کو من و عن اس لیے پیش کیا کہ قارئین غوروفکر کرسکیں کہ یہ کسی سفارت کار، پالیسی میکر یا کسی دانشور کی زبان ہے یا کسی سیاسی گروہ کے تھرڈ کلاس جنونی ورکر کی؟
قبل ازیں 28نومبر کو لکھا:
’ مجھے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے رویّے پر شدید حیرت ہے۔ ایک ماہ سے ایک صوبے کے وزیرِاعلیٰ (خیبر پختونخوا)، ملک بھر میں لاکھوں پاکستانی، ملک کی سب سے مقبول سیاسی جماعت، اور خود ان کا خاندان۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ عمران خان کی جیل میں کیا حالت ہے، حتیٰ کہ یہ بھی کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ اس بارے میں شفاف طریقے سے کوئی معلومات دینے سے انکار کر رہی ہے۔
یہ واقعی چونکا دینے والا اور افسوسناک رویہ ہے۔‘
زلمے خلیل زاد اس سے پہلے بھی عمران خان کے حق میں اس انداز میں متعدد ٹویٹس کرچکے ہیں جیسے وہ پاکستان تحریک انصاف کے جنونی کارکن ہوں۔
جب عمران خان کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ختم ہوئی تو زلمے خلیل زاد خاموشی سے پاکستان آئے اور سیدھے بنی گالہ (اسلام آباد) میں مقیم عمران خان کے پاس پہنچے اور ان سے 3 گھنٹے تک ملاقات کی۔ ون ٹو ون ملاقات۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ اُس وقت زلمے خلیل زاد کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا۔
انہی دنوں جمیعت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا بیان بھی سامنے آیا کہ زلمے خلیل زاد نے خفیہ دورہ کر کے عمران خان سے ملاقات کی ہے۔ اسلام مخالف قوتیں ملک میں انتشار چاہتی ہیں۔ زلمے خلیل زاد پاکستان میں موجود علیحدگی پسند تنظیموں کا حامی ہے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ عمران خان کے پیچھے کون سی قوتیں ہیں۔ یہودیوں کے نمائندوں کی جانب سے عمران خان کی حمایت لمحہ فکریہ ہے۔ امریکا سے یہودیوں کے نمائندے عمران خان کی حمایت میں سامنے آ رہے ہیں۔‘
انہی دنوں پاکستانی میڈیا میں یہ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ زلمے خلیل زاد عمران خان کے بعد جس دوسری شخصیت سے ملے، وہ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے۔ انہوں نے جنرل باجوہ پر زور دیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ معاملات ٹھیک کر لیں۔
بعد میں وہ فون کے ذریعے بھی جنرل باجوہ کو عمران خان سے ملاقات پر آمادہ کرتے رہے۔ ایوانِ صدر میں عمران خان اور جنرل باجوہ کی جو ملاقات ہوئی، وہ دراصل زلمے خلیل زاد کی کوششوں کا نتیجہ تھی۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد 14 مارچ 2023 کو زلمے خلیل نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری سے پاکستان میں جاری بحران بڑھے گا۔ سابق امریکی سفارت کار نے یہ تجویز دی کہ حکومت جون میں انتخابات کی تاریخ دے اور اس دوران تمام سیاسی جماعتیں مل کر ملک کی سکیورٹی، ترقی اور استحکام کے لیے منصوبہ بندی کریں۔
جس پر پاکستانی دفتر خارجہ نے انہیں شٹ اپ کال دی تھی کہ پاکستان کو کسی کے ’لیکچر‘ یا مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس کے باوجود زلمے خلیل زاد کو پاکستان کی ’فکر بہت زیادہ ستاتی رہی‘۔ چنانچہ انہوں نے آنے والے دنوں میں پھر ٹویٹ کی کہ ’ایسا لگتا ہے کہ (پی ڈی ایم) حکومت طے کر چکی ہے کہ عمران خان کو ریاست کا دشمن نمبر ایک بنایا جائے تاہم ایسا کرنے سے پاکستان میں بحران شدید ہو گا اور بین الاقوامی مدد میں کمی آئے گی۔‘
انہوں نے مزید لکھا
’مجھے امید ہے کہ پاکستانی سیاستدان قومی مفاد کو نقصان پہنچانے والی تباہ کن سیاست سے گریز کریں گے‘، اس کے بعد انہوں نے پیش گوئی کی ’ اگر ایسا نہیں ہوتا تو سپریم کورٹ ایسے کھیل کا حصہ بننے سے انکار کر دے گی۔‘
یہ محض ایک پیش گوئی نہ تھی بلکہ سکرپٹ کے مطابق ان واقعات میں سے ایک واقعہ تھا جس کا خواب دیکھا گیا تھا۔ اس سکرپٹ کے مطابق کردار ادا کرنے کی سپریم کورٹ کے متعدد ججوں نے بھرپور کوشش بھی کی۔ دیکھ لیجیے عمر عطا بندیال سے جسٹس منصور علی شاہ تک کا تڑپنا پھڑکنا۔ لیکن جب ان میں سے کسی کی بھی دل نہ گل سکی تو انہیں استعفیٰ دے کر گھر کی راہ لینا پڑی۔
زلمے خلیل زاد نے مذکورہ بالا ٹویٹ کے آخر میں یہ لکھنا بھی ضروری سمجھا کہ ’پاکستان کے بارے میں میری تشویش بڑھ رہی ہے۔‘
زلمے خلیل زاد کو جو لوگ نہیں جانتے، وہ اگر از خود تحقیق کی ہمت نہیں ہے تو جان لیں کہ زلمے خلیل زاد ایک افغان نژاد امریکی سفارتکار اور خارجہ امور کے ماہر ہیں۔ وہ افغانستان کے شہر مزارِ شریف میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کابل میں جبکہ اعلیٰ تعلیم امریکا میں حاصل کی۔ امریکا گئے تو امریکی بن گئے۔ بطور طالب علم وہ قدامت پسند امریکی گروہ میں شامل رہے۔
زلمے خلیل زاد کی فکری اور نظریاتی تشکیل یونیورسٹی آف شکاگو میں ہوئی، جہاں انہوں نے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے دوران معروف یہودی مفکر البرٹ وولسٹیٹر کی براہِ راست سرپرستی میں تعلیم حاصل کی۔ وولسٹیٹر کو نیو کنزرویٹو (Neo-Con) تحریک کا بانی تصور کیا جاتا ہے، اور اسی فکر کی بنیاد پر بش انتظامیہ نے عراق اور افغانستان کی جنگوں کا آغاز کیا تھا۔
اُس وقت وولسٹیٹر کے نمایاں شاگردوں میں زلمے خلیل زاد کے ساتھ پال وولفوویٹز (جو بش دور میں نائب وزیرِ دفاع رہے اور سخت گیر صہیونیت نوازی کے لیے جانے جاتے ہیں)، فرانسس فوکویاما اور دیگر نیو کنزرویٹو مفکرین شامل تھے۔
البرٹ وولسٹیٹر نے اپنے منتخب شاگردوں پر مشتمل ایک ایسا نیٹ ورک تشکیل دیا تھا جو مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسی کو اسرائیلی بالادستی کے تحفظ سے جوڑنے کا حامی تھا۔ خلیل زاد نے وولسٹیٹر کی نگرانی میں جو پی ایچ ڈی مقالہ لکھا، وہ مشرقِ وسطیٰ اور خلیجی سلامتی کے موضوع پر تھا، جس میں انہوں نے اسرائیل کی حمایت کو خطے میں امریکی کامیابی کے لیے لازمی قرار دیا۔
البرٹ وولسٹیٹر سے وابستگی نے زلمے خلیل زاد کے لیے امریکی اشرافیہ اور پالیسی ساز حلقوں کے دروازے کھول دیے۔ انہوں نے رینڈ کارپوریشن میں خدمات انجام دیں اور مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے متعلق متعدد تحقیقی رپورٹس تحریر کیں، جن میں ’عرب۔اسرائیلی تنازع کے خاتمے کے اثرات‘ جیسے موضوعات شامل تھے۔ ان رپورٹس میں خلیجی سلامتی کو اسرائیل کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا گیا۔
بعد ازاں وہ پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس سے بھی وابستہ رہے۔ امریکی پالیسی ساز حلقوں میں ان کی شناخت اسرائیل کے نہایت وفادار حامی کے طور پر کی جاتی تھی۔ جارج بش کے دور میں بعض حلقے انہیں ’صہیونیت کا خفیہ مسلمان ہتھیار‘ قرار دیتے تھے۔ Washington Report on Middle East Affairs نے انہیں ’نیو کنز کا بیگ مین‘ کہا، کیونکہ وہ صہیونی مفادات، بالخصوص اسرائیل کی سلامتی، کو امریکی پالیسیوں کی بنیادی شرط کے طور پر پیش کرنے کی حکمتِ عملی اپناتے رہے۔ بعض امریکی تجزیہ کاروں نے انہیں ’صہیونی ہندوتوا پراکسی‘ بھی کہا۔
یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ زلمے خلیل زاد نے معروف یہودی مفکرہ شیریل بنارڈ سے شادی کر رکھی ہے، جو رینڈ کارپوریشن میں پالیسی ماہر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اسلام کو ’انتہا پسند‘ اور ’معتدل‘ زمروں میں تقسیم کرنے کی تجویز بھی اسی فکری منصوبے کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔ شیریل بنارڈ اور زلمے خلیل زاد نے اسلام، افغانستان اور عراق کے موضوعات پر متعدد مشترکہ مضامین تحریر کیے۔ ان کی تحریروں میں صہیونی مفادات نمایاں دکھائی دیتے ہیں، اور وہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مفادات کو اسرائیل کی سلامتی کے ساتھ جوڑ کر پیش کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ زلمے خلیل زاد صرف اور صرف عمران خان ہی کی بنیاد پر پاکستان کی فکر میں کیوں پتلے ہوئے جا رہے ہیں؟ وہ کیوں پاکستانی فوج کے خلاف مسلسل شعلہ بیانی کر رہے ہیں؟ اگر کسی کو اس کی کوئی بنیاد سمجھ آتی ہے تو بیان کرے۔
ایک سابق امریکی سفارت کار جو اِس وقت کسی امریکی عہدے پر فائز نہیں ہے، اس نے ہزاروں فلسطینی خواتین اور بچوں کی شہادت پر ایک حرف نہ لکھا، حالانکہ گیلپ کے ایک جائزے کے مطابق 60فیصد امریکی فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف بولے۔ خلیل زاد ان 32فیصد امریکیوں میں شامل تھا جو ہزاروں فلسطینیوں کی شہادت پر شاداں و فرحاں تھے۔
اس امریکی سفارت کار نے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کی شہادتوں پر ایک لفظ نہیں لکھا، بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے جا رہے ہیں لیکن زلمے خلیل زاد نام کے شخص نے ایک ٹویٹ نہیں کی۔ ایسے میں جب یہ شخص عمران خان کے حق میں اور پاکستانی فوج کے خلاف بولتا ہے تو ایک عام پاکستانی سوچتا ہے کہ یہ شخص ضرور کسی مشن پر ہے۔ ممکن ہے کہ عمران خان اور ان کے کارکنوں کو ادراک نہ ہو لیکن یہ شخص ضرور کسی مشن پر ہے۔ اس لیے ایسے شخص کی حمایت عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کو فائدہ نہیں نقصان ہی پہنچائے گی۔
ایوان اقتدار سے عمران خان کی بے دخلی کے بعد جب زلمے خلیل زاد نے عمران خان کے حق میں پرچم بلند کیا تھا، ایک امریکی صحافی بوبی گھوش نے کہا تھا:
’پاکستانی قوم اب چوکنا اور ہوشیار ہوجائے کہ سابق امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد پاکستانی سیاست میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔ جب بھی زلمے خلیل زاد نے کسی ملک کے بارے میں بتایا کہ وہاں کی سیاست کو کس انداز میں چلایا جانا چاہیے، پھر وہاں کیا کچھ ہوا، تاریخ بہت اچھی طرح سے دکھا سکتی ہے۔ اس لیے اب پاکستانیوں کو ڈرنا چاہیے بلکہ بہت زیادہ ڈرنا چاہیے‘۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: عمران خان کے حق میں زلمے خلیل زاد نے کہ زلمے خلیل زاد امریکی سفارت کہ عمران خان عمران خان کی میں امریکی سفارت کار کے طور پر کی حمایت انہوں نے کے ساتھ نہیں ہے رہے ہیں کے بعد کے لیے
پڑھیں:
نوجوان کی نازیبا ویڈیو بنا کر بلیک میل کرنے والا شخص گرفتار
راولپنڈی:تھانہ کلر سیداں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے نوجوان کی نازیبا ویڈیو بنا کر بلیک میل کرنے والے شخص کو گرفتار کر لیا۔
مدعی مقدمہ کے مطابق زیر حراست شخص دو سال سے ویڈیو کی بناء پر بلیک میل کر رہا تھا، ملزم اس سے پہلے بھی بلیک میل کر کے رقم بٹورتا رہا اور اب مزید 14 لاکھ روپے کا تقاضا کر رہا تھا۔
کلرسیداں پولیس نے متاثرہ نوجوان کے بھائی کی درخواست پر مقدمہ درج کرکے ایک شخص کو گرفتار کرلیا۔
ترجمان پولیس کے مطابق زیر حراست شخص سے موبائل فون برآمد کیا گیا ہے، جس کی فرانزک کروائی جا رہی یے، زیر حراست ملزم کے دیگر ساتھی کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
ایس پی صدر انعم شیر کا کہنا تھا کہ زیر حراست شخص کو ٹھوس شواہد کے ساتھ چالان عدالت کیا جائے گا۔