Juraat:
2025-12-14@14:20:58 GMT

انڈونیشین صدرکادورہ اور توقعات

اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT

انڈونیشین صدرکادورہ اور توقعات

حمیداللہ بھٹی

پاک انڈونیشیا تعلقات میں حالیہ پیش رفت اِس بناپر بھی اہمیت کی حامل ہے کہ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کا اقتصادی منظر نامہ
بدل رہا ہے اورنئے معاشی اور دفاعی اتحاد تشکیل پارہے ہیں۔ یہ ایسی جغرافیائی تبدیلیاں ہیں جنھیں سمجھ لیاجائے تو مستقبل کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے پاکستان اور انڈونیشیا دونوں ہی مسلم دنیا میں ممتازاور منفرد مقام رکھتے ہیں اگر پاکستان جوہری طاقت ہونے کی بناپر دفاعی حوالے سے اہم ہے تو انڈونیشیا نے بھی کمال مہارت سے گزرے دوعشروں کے دوران معاشی استحکام،صنعتی ترقی، سیاحت، روزگار اور جمہوری حوالے سے قابلِ رشک کامیابیاں حاصل کی ہیں جن سے ابھی پاکستان فاصلے پر ہے جوہری طاقت ہونے کے باوجود پاکستان سیاسی عدمِ استحکام کا شکار ہے معیشت ناتواں،مہنگی توانائی،بڑھتی مہنگائی اور خارجی انحصار جیسے مسائل کا سامنا ہے اِن حالات میںدونوں ممالک کا ایک دوسرے کے قریب آنااور تعاون و اشتراک کے معاہدے کرنا بروقت ہے مقامِ اطمنان یہ ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت کو نہ صرف نئے حالات و مسائل کا ادراک ہے بلکہ اِن مسائل کو حل کرنے کی تگ ودومیں ہے اور سنجیدگی سے دونوں کی مستقبل کی منصوبہ بندی پر توجہ ہے اگر عملی طورپر بھی ایسا ہوجاتا ہے تو اُن کے عالمی کرداروساکھ میں بہتری آسکتی ہے توقع ہے کہ موجودہ حالات میں انڈونیشین صدر ابووسوبیانتوکے دورہ پاکستان سے تعلقات کونئی جہت ملے گی کیونکہ معاہدے اور مفاہمتی یادداشتوں کے حوالے سے دونوں نے کشادہ دلی کا دکھائی ہے۔
پاکستان اور انڈونیشیا میں کئی اقدار مشترک ہیں دونوں ہی نہ صرف دنیا کی بڑی مسلم آبادی والے ممالک ہیں بلکہ ماضی میں نوآبادیاتی
قوتوں کے خلاف جدوجہد سے آزاد ہوئے اور ترقی پذیر ممالک کے حقوق کے لیے عالمی سطح پر آوازبھی اُٹھاتے ہیں دونوں میں اشتراکِ کار اِس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ مسلم ممالک کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے اور محکوم اقوام کوحقِ خوداِرادیت دینے کے علمبردار ہیں
کشمیر، فلسطین،میانمار میں مسلم آبادی پر روارکھے جانے والے مظالم کے سخت ناقد ہیں۔ اِ ن کا ایک آواز ہونا مسلم ممالک کے ساتھ ترقی پذیر ممالک اور محکوم مسلم آبادی کے لیے یقینی طورپر حوصلہ افزاہوگا۔
پاک انڈونیشیاموجودہ قیادت دونوں ممالک کو قریب ترلانے کے لیے کوشاں ہے انڈونیشین صدرکے حالیہ دورے کے دوران اقتصادی و تجارتی تعلقات،دفاع،سلامتی ،صحت ،تعلیم ،سائنس وٹیکنالوجی،زراعت اور ماحولیاتی تعاون کو مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ اطمینان بخش
ہے اگر تجارتی حوالے سے دیکھا جائے تو تجارتی توازن واضح طورپر انڈونیشیا کے حق میں ہے جس کی اہم وجہ پاکستان کا خوردنی تیل کی
ضروریات کے لیے انڈونیشیا کوترجیح دینا ہے ۔اسی وجہ سے پاکستان صرف انڈونیشیا سے اپنی خوردنی تیل کی ستر فیصد ضروریات پوری کرتا ہے مگر انڈونیشیا کی طرف سے ایسی گرمجوشی عنقاہے اوربے پناہ تجارتی مواقع ہونے کے باوجود ماضی میں اُس نے پاکستانی مصنوعات کی
خریداری میںدلچسپی نہیں لی حالانکہ انڈونیشیا ٹیکسٹائل،چمڑے کی مصنوعات اور حلال گوشت کی اہم منڈی ہے اور یہ اشیا اگر دیگر ممالک سے
درآمد کرنے کی بجائے پاکستان کو فوقیت دے تو تجارتی عدمِ توازن کو باآسانی دورکیا جاسکتا ہے ادویات اور آرائشی مصنوعات بھی خریدی
جاسکتی ہیں معیاری اور سستی دفاعی سازوسامان خرید کر انڈونیشیا اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا سکتا ہے دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا حجم
گزشتہ برس چار ارب ستر کروڑ ڈالر رہا جس میں پاکستان کی اندونیشیا کوبرآمدات محض پچاس کروڑ تینتالیس لاکھ ڈالر رہیں یہ صورتحال بہت
مایوس کن ہے باہمی تجارت کو باآسانی آٹھ سے دس ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ اندونیشیااپنی
ترجیحات میں تبدیلی لائے اور پاکستان معاہدے کرتے وقت مال کے بدلے مال کے اصول کواپنائے تاکہ دونوں ممالک کو یکساں معاشی
ترقی کے مواقع حاصل ہوں۔
ماضی میں پاک انڈونیشیا تعاون قابلِ قدررہا ہے 1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران انڈونیشیا زبانی و بیانی ہی نہیں عملی طورپر بھی
پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آیا لیکن بعد میں قریبی تعاون کی رفتار برقرا ر نہ رہ سکی جسے بہتر بنانا دونوں ممالک کی زمہ داری ہے اب جبکہ جنوب
مشرقی ایشیا میں انڈونیشیا تجارت کا ایک اہم اور قابلِ رشک مرکز بن کر سامنے آیا ہے تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ خطے کے اِس اہم ملک پرپاکستان توجہ دے اور اِس اہم تجارتی منڈی سے فوائد کشید کرے جب دونوں ممالک کے تعلقات باہمی احترام اور اصولوں پر مبنی ہیں تو
پاکستان سے درآمدات میں انڈونیشیا کیوں گریزاںہے؟ نہ صرف اِن وجوہات کوجاننابہت ضروری ہے بلکہ دورکرنابھی پاکستان کی ذمہ داری ہے انڈونیشین صدر کارواں ہفتے کا دورہ تبھی عملی طورپر بہتر ثابت ہو سکتا ہے جب پاکستان لاپرواہی اور سُستی چھوڑ کر تجارت کے
فروغ میں حائل مسائل ختم کرنے پر توجہ دے، یقینا اِس کے لیے ضروری ہے کہ پیداواری شعبے کو مراعات دی جائیں تاکہ نہ صرف برآمدی
سامان وافر ہوبلکہ سستا بھی ہو، مہنگی توانائی پیداوار میں بڑی رکاوٹ ہے جس کاخاتمہ کرنانہایت ضروری ہے۔ دوطرفہ تجارت کے حجم کو
بڑھانے کے لیے انڈونیشیا سے ترجیحی تجارتی معاہدے کے ثمرات تبھی پاکستان حاصل کر سکتا ہے جب محض تجارتی منڈی بننے کی بجائے
برآمدی سپلائی لائن بہتر کی جائے تاکہ تجارتی عدم توازن دورکرنے پر اتفاق حقیقت میں بھی نظر آئے۔
پاکستان اور انڈونیشیا دونوں کا تعلق امریکی بلاک ہے اور دونوں کے ہی ماضی میں امریکی انتظامیہ سے تعلقات اتارچڑھائو کا شکار رہے
ہیں۔ پاکستان کی طرح اب انڈونیشیا بھی چین کے قریب ہورہا ہے۔ اِس کے باوجود تجارتی رکاوٹیں سمجھ سے باہر ہیں انڈونیشین صدر کے
دورہ پاکستان کو اگر دونوں اسلامی ممالک کے دیرینہ تعلقات کا مظہر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا مہمان کا اسلام آباد پہنچنے پر وزیر اعظم کا استقبال
کرنا اور افواجِ پاکستان کی طرف سے گارڈ آف آنر پیش کرنا ثابت کرتا ہے کہ انڈونیشیا سے تعلقات کوپاکستان بہت اہمیت دیتا ہے۔ صدر
آصف زرداری نے مہمان صدر کو نشانِ پاکستان سے نوازایہ اُلفت،احترام اور اہمیت کا اظہار ہے۔ مہمان صدر سے فیلڈ مارشل جنرل عاصم
منیر کا ملنا اور دفاعی تعاون ،تربیت،اِنسدادِ دہشت گردی اور علاقائی سلامتی جیسے وسیع امور پر تبادلہ خیال کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے ۔دونوں
ممالک کے 75برس پر محیط تعلقات ہر آزمائش پر پورا اُترے مگر وہ کیا وجوہات ہیں کہ پاکستانی مال کو نظرانداز کرتے ہوئے ترکیہ کی طرح
انڈونیشیا دیگر ممالک پر مہربان ہے ؟ اگر اِس سوال کا جواب تلاش کرلیاگیا توہی تجارتی عدم توازن بہترہو گاوگرنہ معاہدے اور مفاہمتی یادداشتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
٭٭٭

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: انڈونیشین صدر بھی پاکستان دونوں ممالک پاکستان کی ضروری ہے حوالے سے ممالک کے سکتا ہے ہے اور کے لیے

پڑھیں:

سرحدی تنازع شدت اختیار کر گیا، کمبوڈیا کا تھائی لینڈ سے ہر قسم کی آمد و رفت بند کرنے کا اعلان

کمبوڈیا نے تھائی لینڈ کے ساتھ جاری سرحدی کشیدگی اور حالیہ خونی جھڑپوں کے بعد ہفتے کے روز دونوں ممالک کے درمیان تمام سرحدی راستے بند کر دیے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق، کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کے درمیان پرانے سرحدی تنازع کے باعث حالیہ دنوں میں شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں کم از کم 25 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں چار تھائی فوجی بھی شامل ہیں۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں دونوں جانب تقریباً پانچ لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

کمبوڈیا کی وزارت داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ فوری طور پر تمام کمبوڈیا-تھائی لینڈ سرحدی گزرگاہوں پر آمد و رفت معطل کر دی گئی ہے۔ دوسری جانب، تھائی حکومت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان فائر بندی پر اتفاق ہو چکا ہے۔

تھائی وزیر اعظم انوتن چارن ویراکول کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں جنگ بندی پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ جبکہ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ دونوں ممالک نے فائرنگ روکنے پر اتفاق کر لیا ہے۔

دونوں ممالک ایک دوسرے پر شہری آبادی کو نشانہ بنانے کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ تھائی فوج کے مطابق کمبوڈین راکٹ حملوں میں متعدد افراد زخمی ہوئے، جبکہ کمبوڈیا نے الزام لگایا ہے کہ تھائی فورسز نے شہری انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا ہے۔

ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے دونوں ممالک سے فوری طور پر لڑائی بند کرنے اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے، تاہم سرحدی علاقوں میں صورتحال بدستور کشیدہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کمبوڈیا نے تھائی لینڈ کے تمام سرحدی راستے بند کر دیے، کشیدگی برقرار
  • سرحدی تنازع شدت اختیار کر گیا، کمبوڈیا کا تھائی لینڈ سے ہر قسم کی آمد و رفت بند کرنے کا اعلان
  • رافیل اور ایس-400 کی تباہی پاکستان کی برتری کا ثبوت ہے: سابق بھارتی آرمی چیف
  • پاک انڈونیشیا معاہدے اور تعاون
  • بھارت نے چین کے تجارتی ویزوں کی رکاوٹیں ختم کردیں،تعلقات کی بہتری میں بڑی پیش رفت
  • پاکستان اور انڈونیشیا: تعاون کی نئی جہتیں
  • انڈونیشین سرمایہ کار پاکستان میں مواقع تلاش کریں ، اکنامک قونصل
  • پاکستان اور امارات کی ا اسٹرٹیجک شراکت نئی بلندیوں کو رواں ہے، دیوان فخرالدین
  • چین اور پاکستان کی افواج کی مشترکہ انسداد دہشت گردی مشق،ڈرلز کا عملی مظاہرہ